اس ہفتے بنوں چھائونی پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ سخت لڑائی ہوئی اور پاکستانی فوج کے آٹھ جوان شہید ہو گئے جبکہ بقول آئی ایس پی آر دس دہشتگرد ہلاک ہو گئے۔ اسی دوران دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کنٹونمنٹ کی دیوار سے ٹکرا کر دھماکے کر دئیے۔ فوج کی پبلسٹی ٹیم کہہ رہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے کامیابی حاصل کر لی۔ صدر زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے فوج کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کس طرح سے ایک کامیاب آپریشن قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ ہماری آرمی کے آٹھ جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مبارکباد کہنے والے ذرا ان آٹھ خاندانوں سے پوچھیں کہ یہ مبارکبادیں ان کے اہل خانہ پر کیا ستم ڈھا رہی ہوں گی۔ اسی طرح سے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ہیلتھ سینٹر پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے پانچ شہریوں کے علاوہ تین پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر دیا۔ تین دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ حسب معمول پاک فوج کے میڈیا سیل نے اسے کامیاب آپریشن قرار دیا حالانکہ ہمارے تین فوجی شہید ہو گئے۔ کامیاب آپریشن تو جب ہوتا کہ آپ سارے دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے اور سویلین اور فوجیوں میں کوئی جاں بحق نہیں ہوتا۔ پچھلے دو ڈھائی سالوں سے یہ ہی ہورہا ہے کیونکہ جنرل عاصم منیر کو ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے تھا، آئی ایس پی آر کو ان لوگوں کے خلاف مخبری کر کے حملے سے پہلے مارنا چاہیے تھا مگر آئی ایس آئی اور ماموں عاصم تو اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف مخبری اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان کی ساری توجہ تو صنم جاوید کی بار بار گرفتاری پر مرکوز ہے۔ آئی ایس آئی ججز کے بیڈرومز میں ویڈیو کیمرے نصب کرنے اور لوگوں کے جسموں میں کرنٹ دوڑانے اور اینٹیں لٹکانے میں مصروف ہے۔ ان مصروفیات سے اگر کچھ وقت بچ جاتا ہے تو وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے، عمران خان ، ڈاکٹر علوی اور سابق سپیکر پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات بنانے میں گزار دیتے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر یہ دو ڈھائی جنرلز اپنے اصلی کام پر فوکس کریں تو دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کر کے انہیں واردات سے پہلے ہی جہنم واصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں سو سے زیادہ ٹی وی چینلزاور دو سو سے زائد اخبار و جرائد ہیں۔ ہر جگہ پر ایک بریگیڈیئر سمیت فوج کا عملہ موجود ہے جو اس بات کویقینی بناتا ہے کہ کس طرح سے عمران خان کی تقریر، تصویر یا تحریر نشر یا چھپ نہ جائے۔ ملک کے ہر ادارے میں فوج کا ایک عملہ تعینات ہے جو ان جنرلوں کے مفادات اور فوج کی تجارتی سرگرمیوں کی دیکھ بھال کر سکے۔ مطلب یہ ہے کہ ملٹری بزنس ایمپائر ہر وہ کام کررہی ہے سوائے اس کے جو ان کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ذرا تصور کیجیے کہ عمران خان کو انڈیا کے بارڈر پر سکیورٹی ڈیوٹی پر بھیج دیا جائے یا بلاول بلو کو افغان پاکستان سرحد پر تعینات کر دیا جائے کہ وہ بارڈر کے اس پار سے آنے والوں کا مقابلہ کرے یا شہباز شریف کو تحریک طالبان پاکستان کے خودکش حملہ آوروں کے ساتھ نمٹنے کے لئے بھیج دیا جائے۔ اگر ان سب کو فوجیوں کی طرح فوجی مشنز پر نہیں بھیجا جا سکتا تو پھر فوجیوں کو کیسے سویلین اداروں بشمول عدلیہ، مقننہ اور میڈیا میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ سویلین کو گمشدہ کر دینا، عورتوں، بچوں کو گھیسٹ کر قید کر دینا، سیاسی قیدیوں کو کیمپوں میں لیجا کر ننگا کر کے تشدد کرنا، جسم کے نازک حصوں پر کرنٹ دوڑانا اور اینٹیں لٹکانا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ ٹریننگ ہے جو انہیں دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے اور ان سے راز اگلوانے کیلئے دی جاتی ہے اور اس ٹریننگ کا مظاہرہ وہ پچھلے پچھتر سالوں سے کبھی قائداعظم کے ساتھ، کبھی لیاقت علی خان کے ساتھ، کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ، کبھی بے نظیر بھٹو کے ساتھ، کبھی ارشد شریف کے ساتھ اور کبھی عمران خان کی ٹانگ میں چھ گولیاں داغ کرکررہے ہیں۔ دشمنوں کے ساتھ اس بے توجہی کا نتیجہ، ہمارے جوان دہشت گردوں کا نشانہ بن کر ادا کررہے ہیں ایک طرف وہ شہید ہورہے ہیں اور دوسری طرف جنرل عاصم منیر اقتدار کی سازشوں میں مگن ہیں۔
0