زندگی کئی نشیب و فراز سے گزر ی ہے آمریت ،جمہوریت ،مہنگائی ،بد انتظامی ،بدعنوانی وغیرہ کے ہجوم میں پھنسی سانسوں نے جب ہالینڈ اور انگلینڈ کے انتخابات کے بعد بڑے سکون سے حکومتوں کی تبدیلیاں ،بڑے آرام سے بڑی عزت و وقار سے اقتدار کی منتقلی نہ دھاندلی کا شور نہ پرانی حکومت پہ الزام تراشیوں کے تیر بلکہ اس کے برعکس تعریفی کلمات نے دل موہ لئے دل میں ارمان اُٹھے کہ کاش ایسا مہذب برتائو میرے وطن ِ عزیز میں بھی رونما ہو جہاں ہر جانے والے کو ہر آنے والے کو اس قدر اخلاقی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے کہ سننے والا ہماری تربیت سے آشنا ہو کر راستہ بدل لیتا ہے ایسی روش ِ سیاست نے ہمیں اخلاقیات سے راندۂ درگاہ کر دیا ہے مگر لگتا ہے کہ کسی غیبی طاقت نے صراط المستقیم کی رحمتوں سے بھری راہیں ہماری نظروں سے اوجھل کر دی ہیں ۔موجودہ نئی نسل کو تو نہیں لیکن میری عمر کے سفید ریشوں کے ذہنی خانوں میں یہ بات محفوظ ہو گی کہ لوٹنے والی اشرافیہ نے اُس وقت ایک پراڈکٹ متعارف کرائی جو گنجے پن کو ختم کر کے نئے بال پید ا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھی ملک کی ہر دیوار پر اس کے اشتہار بھی ہر گزرنے والے کی نظروں میں جگہ بناتے رہے متاثرین ِ گنج جتنے تھے سارے اسے استعمال کرنے لگے ان کے سروں پہ تو بال نہیں آئے لیکن پراڈکٹ متعارف کرانے والوں کے اثاثہ جات ڈھیروں کی اشکال میں منتقل ہو گئے جیسے ایوبی آمریت میں بائیس خاندان پھیلتے پھیلتے اب ہزارہا خاندان کی صورت بڑھتے جا رہے ہیں صرف بجلی کی قیمتوں کا گر آپ موازنہ کریں تو شعور اس بات کی گواہی دے گا کہ سیاسی اکابرین ماضی سے لیکر اس موجودہ حال تک صرف پس ماندہ عوام کا استحصال کر کے اپنے مفادات اور بدعنوانی کے بل بوتے پر سانس لینے والی اشرافیہ کو تحفظ دیتے آئے ہیں قانون و عدلیہ باخبر ہو کے بھی بے خبر یعنی جان کر انجان رہی ہے اتنے ٹیکس ہیں کہ نام یاد رکھنااچھا خاصا مشکل لیکن ادا کرنا عوام کی مجبوری کیونکہ حکومت نے سودی قرضوں کی واپسی بمعہ سود واپس جو کرنی ہے جھولی بھر بھر کر بیشمار ٹیکسسز ادا کرنے والی قوم کے عام دکاندار اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو جائیں تو پھر خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنی پڑتی ہے کیونکہ وطن ِ عزیز میں اب صرف حکمران طبقہ راج کرتا ہے دوسرا کوئی بھی ان کے برابر کی نعمتوں سے مستفید نہیں ہو سکتا اپنی آنکھوں سے دیکھا ڈھیروں سے گندگی اٹھانے والے بچوں کو جو ریڑھی پر پڑے فروٹ کو دور تک جاتا دیکھتے رہتے ہیںحاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے بنیادی سہولیات سے عاری اور محرومیوں کی ایسی انتہا سے نشان ِ حیدر لینے والے نہیں ہتھکڑیاں پہننے والے جنم لیتے ہیں ریاست کا معاشی طور پر مستحکم ہونا بہترین معاشرے کی ضمانت بنتا ہے امریکہ کے ہنری کسنگر نے کہا تھا کہ امریکہ کی مضبوطی دو بڑے کاموں پر منطبق ہے پہلا کام ترجیحی بنیاد پر یہ ہے کہ وہ ملک کے غداروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن کا خاتمہ یقینی بناتا ہے دوسرا بڑا اہم کام یہ ہے کہ امریکہ دوسرے ملکوں کے غداروں کو ڈھونڈ کر اُن کو اعتماد میں لے کر اُن کا استعمال کرتا ہے ہمارے یہاں ایک دوسرے کو کافر کہنا یا غدار کہنے کی سیاست برسوں سے رواں ہے سیاسی طور پر پابند سلاسل کئے جانے والوں کو صرف غدار کہا گیا لیکن کسی نے آج تک ثابت نہیں کیا یہ ہماری سیاست کا قومی کردار رہا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے کوئی بھی الزام یا بہتان لگا دیں 2018کی سیاست کا جائزہ لیں تو وہ مکمل الزامات و بہتان تراشتی سے آراستہ تھی مگر اس دور کی حکومت اپنے دور ِ حکومت میںص کسی ایک الزام کو بھی سچ ثابت نہیں کر سکی اور وہ صاحبان آج اقتدار کی مسند پر ہیں اور الزام لگانے والے بانی جیل میں ۔ ہماری سیاست کے کردار میں سچائی اور حب الوطنی بڑی ہی قلیل مقدار میں ملتی ہے عوام پر مہنگائی کے تیر غیر ملکی نہیں ہمارے اپنے نمائندے برساتے ہیں جس سے جمہوریت پر اعتماد کا فقدان مسلسل بڑھتا جارہا ہے سیاست دانوں کا اپنے کردار میں پاکیزگی وسچائی کو عملی طور پر ڈھالنا انتہائی ناگزیر ہے بصورت ِ دیگر جمہوری نظام اپنی افادیت یکسر کھو دے گا باچاخان کہتے ہیں کہ قومیں صرف دم درود سے بیدار نہیں ہوتیں قوموں کو بیدار کرنے کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو بے غرض ،دیانتدار،ایمانداراور صرف خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنی قوم کی خدمت کے لئے تیار ہوں۔سوچیں جو ذاتی مفادات اور اپنی نسلوں کی بہتری پر مرکوز ہیں اُن کا رُخ محروم عوامی طبقات کی جانب ہونے کی ضرورت ہے یوں احکام ِالہی کی پیروی کے ساتھ ساتھ مخلوق ِ خدا کی خوشنودی بھی میسر ہو گی صرف آئین میں ترامیم کرنے سے حالات نہیں بدلتے اپنے کردار کو بدلو کہ نظام بدلے ۔
0