پاکستان میں بھی بڑے بڑے قابلِ شرم کارنامے سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں انجام دیتی رہی ہیں اس کی تازہ مثال قومی اسمبلی میں پاس کیا ہوا نیا قانون ہے جس کی رو سے ملک کے ایک دفاعی ادارے کو جو وزیراعظم کے انڈر کام کرتا ہے اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو کسی بھی شہری کا خاموشی سے ٹیلیفون ٹیپ کر سکتا ہے اور اس کو کہیں بھی استعمال کر سکتا ہے اس کی اجازت تو آئی ایس آئی کو مل گئی کسی بھی میاں بیوی کا ٹیلیفون ٹیپ کر سکتی ہے وہ چاہے تو کسی بھی بیڈروم میں ریکارڈنگ سسٹم لگا سکتی ہے۔ سسٹم لگانے کی بھی اب ضرورت نہیں صرف موبائل نمبر کو اپنے ریکارڈنگ سسٹم سے کنکٹ کر دیں تو وہ اس کی ساری گفتگو کو ریکارڈ کر لے گا۔ اس کے لئے انہوں نے ایک پنگا لگا دیا ہے کہ اس قسم کی گفتگو کو ریکارڈ کرنے والا انسان 18 گریڈ کا کوئی آفسر ہونا چاہیے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 18 گریڈ کا کوئی بھی فوجی آفیسر کسی بھی انسان یا خاتون کا فون ریکارڈ کر سکتا ہے اور اس کی بات کو نشر بھی کر سکتا ہے اگر آپ اس قانون کے مستقبل کے نتائج پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی شریف آدمی، سیاستدان، بزنس مین وزرا، اپوزیشن لیڈر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ سب کی حیثیت زیرو ہو جائے گی۔ لوگ فون پر بات کرنا بند کر دیں گے اس لئے کہ ہر آدمی کا فون ٹیپ ہو سکتا ہے، اگر آپ کویاد ہو آج سے کافی سال پہلے جب نواز شریف پرویز مشرف کو بحیثیت آرمی چیف ہٹانا چاہتے تھے تو دو گھنٹے کی فلائٹ لیکر دبئی چلے گئے تھے اور وہاں پر سارے فیصلے اور ساری باتیں کی تھیں ان کو ڈر تھا فوج ان کے فون کو ٹیپ کر تی ہے۔
یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے کافی سال پہلے سے فوج اور آئی ایس آئی یہ ریکارڈنگ کررہی ہے۔ اگر عمران خان کا دور دیکھیں تو روزانہ فون کالیں لیک ہوتی تھیں اور میڈیا پر چلتی تھیں کافی حیرت عوام کو اس وقت ہوئی جب عمر عطا بندیال چیف جسٹس پاکستان کی ساس کی ریکارڈنگ ہوئی اور پورے میڈیا میں نشر ہوئی۔ اس گھنائونے کاروبار میں عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا، آئی ایس آئی کی اتنی ہمت بڑھ گئی کہ اب ججز کے بیڈروموں میں بھی کیمرے لگانے لگی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو جو خط لکھا تھا وہ ایک بڑی چارج شیٹ آئی ایس آئی کے خلاف ہے ان کے کارناموں کو بہت تفصیل کے ساتھ اس خط میں بیان کیا گیا ہے لیکن قاضی عیسیٰ نے فوج کا ساتھ دیتے ہوئے اس مسئلے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی لیکن 6 کے 6 جج اپنی بات پر اڑے رہے اور ابھی تک اڑے ہوئے ہیں دیکھیں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ آئی ایس آئی نے جسٹس بابر ستار اور جسٹس جہانگیری کے خلاف میڈیا میں مہم چلائی ہوئی ہے پہلے جسٹس بابر ستار کو امریکن سٹیزن کہا گیا پھر آج کل جسٹس جہانگیری کے خلاف جعلی ڈگری کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ اب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ اکیلے وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، جو چینل ان کے حق میں مہم چلارہے تھے وہ بھی اب خاموش ہو گئے ہیں عوام کا ردعمل جتنی جلدی جلدی اور تیزی سے آنا شروع ہو گیا ہے اس سوشل میڈیا پر جتنی گالیاں قاضی فائز عیسیٰ کو پڑتی ہیں اتنی ہی گالیاں اور برے الفاظ جسٹس عامر فاروق کے لئے استعمال ہوتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ قاضی عیسیٰ اور عامر فاروق فوج کے اشارے پرکام کرتے ہیں ان کے لئے اچھے الفاظ استعال نہیں ہوتے ہیں عوام میں۔ شہباز شریف نے فوج کے دبائو پر آئی ایس آئی کو فون کال ٹیپ کرنے کا جو قانون پاس کرا کر دیا ہے شہباز شریف کو یہ بات یاد رکھینی چاہیے وقت بہت تیزی سے بدل جاتا ہے بعد میں یہ قانون ن لیگ کے لیڈران کے خلاف بھی استعمال ہوگا۔ شہباز شریف اپنی تین بیویوں سے بھی بات نہیں کر پائے گا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی مثال شاید مشکل سے ملے گی کہ فوج کو قانونی طور پر یہ اجازت دے دی جائے کہ وہ لوگوں کی کال ٹیپ کرے۔ اتنا ظلم اور بربریت کا دور آجائے گا یہ عوام نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا میں تو یہی کہوں گا؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!
0