نیا ہجری سال شروع ہوگیا!
لیکن مجھے بہت حیرت ہوتی ہے جب فیس بک یا میسنجر، یا واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا گروپوں پر لوگ ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے نظر آتے ہیں۔اس سے زیادہ حیرت مجھے اپنے ان احباب پر ہوتی ہے جو مجھے بھی اپنے نئے سال کی تہنیات میں شامل کرتے ہیں!
میں اپنے ان احباب سے پوچھتا ہوں ، میاں یہ ہمارا ہجری سال مبارک باد کے تبادلہ کیلئے نہیں آتا بلکہ ہمیں یہ یاد دلانے کیلئے آتا ہے کہ ہماری دینی شناخت بحیثیت فرد اور ملت دونوں کے اس قربانی سے وابستہ ہے جس کی ابتدا ابراہیم اور اسماعیل سے ہوئی اور اختتام کربلا میں سید الشہداء حسین مظلوم پر ہوئی۔ ہمارے شاعرِ مشرق نے اس تمام تاریخ کو اپنے اس ایک لافانی شعر میں تمام تر معنویت اور سچائی کے سمو دیا ہے:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسماعیل
دنیا کی تاریخ کی اس سب سے بڑی قربانی کی تاریخ حسین، شہیدِ اعظم، اور اسماعیل کے حوالہ سے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ علامہ صاحب نے اس داستان کو رنگین کیوں کہا ہے؟ اس کی کیا توضیح ہے، کیا منطق ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ داستان رنگین ہوئی ہے خونِ حسین سے اور اس خون سے جو امامِ عالی مقام کے فرمان پر اہلبیتِ اطہار اور شہیدِ کربلا کے رفقاء نے کربلا کے میدان میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ادا کیا بلکہ قیامت تک کیلئے رسولِ حق کی اُمت کو ہدیہ کیا!
کربلا کے المیہ کی حکمت اسی حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ دینِ حق اور سچائی کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اپنا خون بہانا حق کے دفاع اور سچائی کی سرفرازی کیلئے ناگزیر ہے۔ شہیدِ مظلوم نے کربلا کے ریگزار پر اپنے خون کی قربانی دیکر قیامت تک کیلئے یہ کلیہ قائم کردیا کہ حق باطل سے نہ کسی قیمت پر سمجھوتہ کرتا ہے نہ باطل کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔
بہ الفاظِ دیگر، حسین کی قربانی نے ہمیشہ کیلئے یزید کی باطل حکمرانی اور طاغوت کے تکبر اور غرور کو خاک میں ملادیا اور سچائی کی کامرانی کو قیامت تک کیلئے زندہ افراد اور اقوام کیلئے سرخروئی کا لباس عطا کردیا!
شہیدِ اعظم سیدنا حسین نے کربلا میں حریت کی جو مثال قائم کی تھی اس کے بعد ایمان کا تقاضہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسلم امہ اپنی تاریخ کے کسی بھی دور میں شر اور باطل کے داعی یزید اور یزیدی قوتوں کو سر نہ ابھارنے دیتی لیکن تاریخ اس کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔
دور کیوں جائیے۔ پاکستان کو ہی لے لیجئے کہ اس کی مثال سب سے آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔
پاکستان کو بنانے والا ایک حریت پرست قائد تھا جس کیلئے رول ماڈل یا مثالی کردار حسین، شہید اعظم ہی کی ذات تھی۔ لیکن ان کی وفات اور ان کے دستِ راست، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت ، جسمیں پاکستان کے جاگیردار اور فرنگی کی غلامی میں تربیت پانے والے جرنیلوں کا بڑا ہاتھ تھا، کے بعد یزیدی قوتوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ یہ وہ افراد اور ادارے تھے جن کا پاکستان بنانے میں کوئی ہاتھ ، کوئی حصہ، نہیں تھا۔ انہوں نے فرنگی راج سے نجات کی طویل اور صبر آزما جنگِ آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ الٹا یہ فرنگی راج کی مضبوطی اور دوام کیلئے کوشاں رہے تھے اور اس کے ہاتھ آخر دم تک بٹاتے رہے تھے۔
یہی بدبخت جرنیل تھے جنہوں نے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں چار بار مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ یہی وہ ملت فروش جرنیل ہیں جن کے زعم اور طاقت کے بیجا استعمال نے پاکستان کی اکثریتی آبادی کو جو مشرقی پاکستان میں تھی، مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو خیرباد کہہ کے اپنی راہ الگ کرلے۔ یہی تھے جنہوں نے قائد کے پاکستان کو دولخت کیا لیکن وہی آج بھی پاکستان کے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں۔
یزیدی شر کی قوتوں نے قائد کے پاکستان کو فوجستان بنادیا ہے جہاں قانون کا کوئی احترام نہیں، جہاں انسان کی کوئی عزت اور حرمت نہیں اور یہی وہ کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر کسی بھی مسلم معاشرہ کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ حسینی ہے یا یزیدی!
اسلام انسان کی حرمت اور عزت کا پیغام دینے کیلئے آیا تھا لیکن وہ مملکت جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آئی تھی اس میں انسانی حقوق کو بیدردی اور طاقت کے بیجا استعمال سے قربان کیا جارہا ہے۔
عاصم منیرایک غاصب سپہ سالار ہے جیسے یزید ایک غاصب فرمانروا تھا اور جس کی بیعت سے حسین نے انکار کیا تھا اور اس انکار کی انہوں نے وہ قیمت چکائی جسے اللہ نے اپنی کتابِ مبین میں ذبحِ عظیم کے نام سے توقیر عطا کی ہے۔
عاصم منیر نے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہوا ہے بالکل اسی طرح جیسے رنگیلے راجہ جنرل یحیٰی نے اس وقت کے سب سے مقبول اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما، شیخ مجیب کو پابندِ سلاسل کیا تھا۔
اب عمران اگرقوم کو مشرقی پاکستان کی تاریخ، جو زیادہ پرانی بھی نہیں ہے، یاد دلانا چاہتا ہے اور قوم کو تلقین کررہا ہے کہ وہ سانحہء مشرقی پاکستان کی تفصیل جاننے کیلئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھے تو اس پر ملک اور آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ عاصم منیر کے یزیدی ٹولہ کی شہ پر، جسے اپنی بندوقوں اور توپوں کی طاقت کا اتنا ہی زعم ہے جتنا یزید کو اپنی فوجِ کی کثرت پر زعم تھا، وہ بدعنوان اور گلے گلے تک کرپشن میں ملوث سیاسی گماشتے اور بونے، شہباز اور اس کی بھتیجی مریم نواز جیسے، عمران اور تحریکِ انصاف پر دن رات کیچڑ اچھال رہے ہیں اور ان کی گندی، ناپاک زبانیں، زہر اگل رہی ہیں۔
یزید اور اس کے طاغوتی ٹولہ اور سیاسی کٹھ پتلیوں نے پاکستان کے چوبیس کڑوڑ عوام کی زندگی جہنم بنادی ہے بالکل ایسے ہی جیسے اسرائیل کی صیہونی فوج اور سیاسی مہروں نے فلسطینیوں کیلئے زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔
یزیدی ٹولہ نے پاکستان کو ایسا بے دست و پا کیا ہوا ہے کہ صیہونی اور سامراجی ایجنڈے پر عمل پیرا فوجستان کی حکومت مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی جسارت سے محروم ہوگئی ہے بلکہ سامراجی غلامی اس حد تک ہے کہ ان پاکستانیوں پر عذاب آجاتا ہے جو مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی غلطی کربیٹھتے ہیں۔ یہ ہے یزیدی طاقت کے ہاتھوں قائد کے پاکستان کا مآل!
ملک ڈوب رہا ہے لیکن یزیدی ٹولہ اپنی طاقت کے نشہ میں چور وہ تحریر پڑھنے سے قاصر ہے جو دنیا کو پاکستان یا فوجستان کے انجام کا نوشتہء دیوار ہے!
اسٹیٹ بنک کے ایک سابقہ گورنر نے پاکستان کی معیشت کا جو حالِ زار بیان کیا ہے وہ ہر صاحبِ غیرت کو خون کے آنسو رلادینے کیلئے بہت کافی ہے۔
ابھی ایک دن قبل، سنیچر کو سابقہ گورنر اسٹیٹ بنک، ڈاکٹر مرتضی سید نے کئی ایک ٹوئیٹ میں پاکستان کی ڈوبتی ہوئی، اور تقریبا” غرق ہوچکی معیشت کا جو احوال بیان کیا ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یزیدی ٹولہ قائد کے پاکستان، اور اپنے فوجستان، کو تباہی کے کھڈ کے کنارے پر لیکر آگیا ہے۔
ڈاکٹر مرتضی نے فرمایا کہ پاکستان قرضوں کے ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ دنیا کا کوئی اور ملک اس حالتِ زار کو نہیں پہنچ سکتا۔
ڈاکٹر صاحب نے اقوامِ متحدہ کے تجارتی اور ترقیاتی ادارے کی پاکستان پر رپورٹ کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 6 فیصد پاکستان صرف قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کر رہا ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر صفائی سے کہہ دیا کہ پاکستان یا یزیدی ٹولہ کا فوجستان بینکرپٹ یا قلاش ہوچکا ہے اور ہر سال قرضوں کے گرداب میں ڈوبتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر مرتضی کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ کہ فوجستان قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں ملک کے تعلیمی بجٹ سے تین گنا زیادہ خرچ کر رہا ہے۔
یہ انکشاف بھی ہوا کہ سود کی ادائیگی ملک کے صحت اورطبی سہولتوں کے بجٹ سے چھ گنا زیادہ ہے۔
پاکستان کے عوام روٹی کو ترس رہے ہیں لیکن یزیدی ٹولہ کی ترجیحات میں ایک تو مبینہ دہشت گردی کے خلاف نیا عسکری محاذ یا ناٹک رچانا سرِ فہرست ہے یا ملک کے سب سے مقبول لیڈر، عمران خان کو ہر قیمت پر پابندِ سلاسل رکھنا ہے۔
عاصم منیرکو پاکستانی عدلیہ کی طرف سے کسی مداخلت کا خوف نہیں ہے کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کی مسند پر اس نے اپنے ابنِ زیاد، فائز عیسٰی نام کے ایک گماشتے کو بٹھایا ہوا ہے جو اپنی حرکتوں سے ہر روز یہ گواہی دے رہا ہے کہ اسے پاکستان کی عدالتِ عالیہ کا سربراہ رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی بندر کو حکومت کا تاج پہنادیا جائے۔
نیا ہجری سال آغاز ہوتے ہوئے پاکستان میں ایک نئی کربلا کا منظر پیش کر رہا ہے اور ہر محبِ وطن پاکستانی اپنے حسین کو یاد کر رہا ہے جو یزیدی یلغار کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
پاکستان کیلئے نیا ہجری سال ہمیشہ سے زیادہ شہیدِ مظلوم، سیدنا حسین کی یاد کو تازہ کر رہا ہے۔
ہم نے یہ قطعہ اسی تاثر میں کہا ہے:
محرم آئے تو یادِ حسین تازہ ہوئی
صراطِ حق پہ حسینی علم کھلا پھر سے
وہ کربلا کہ جو منزل ہے سالکِ حق کی
سراغ اس کا ،مری فکر کو ملا پھر سے!
0