0

سرخ شام کا دیا!

’سرخ شام کا دیا‘ فرح کامران کے پہلے شعری مجموعے کا نام ہے، دو دن قبل اس شعری مجموعے کی تقریب رونمائی کامران فاؤنڈیشن کے بینر تلے ہوئے، بہت خواہش تھی کہ اس تقریب میں شرکت کی جائے مگر صحت کے کچھ مسائل رہے، شرکت نہ کر سکا جس کا افسوس رہے گا، تقریب کی صدارت ن م دانش نے کی دانش ایک جانے پہچانے قلم کار ہیں، میں ان کے فن خطابت کا معترف رہا ہوں اور اس بات کا بھی کہ اُردو تنقید پر ان کی گہری نظر ہے، کامران ندیم سے برسوں کی شناسائی تھی کامران کی جانب توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب بھلے شاہ پر ایک مقامی اخبار میں ان کے مضامین پڑھے ، جب کامران بھلے شاہ پر مضامین لکھ رہے تھے اس وقت نیویارک میں شائد بھلے شاہ کے کام سے کوئی واقف نہ تھا، میری بھی معلومات واجبی تھیں یہ مضامین ہی کامران سے رابطے کا سبب بنے، پھر نیو یارک کے حجرہ ٔمیر میں ان سے ملاقات ہوئی، جوہر میر باقاعدگی سے ہفتہ وار ایک محفل سجاتے، ادبی معاملات پر گفتگو بھی ہوتی اور شعری نشست بھی، جوہر میر کا شکریہ کہ ان کے ہاں بڑی ادبی شخصیات سے ملاقات ہوتی رہی کامران کو سننے کا موقع بھی وہیں ملا، پھر کامران سے اکثر و بیشتر فون پر طویل گفتگو رہتی تھی مجھے یاد نہیں کہ فرح کامران سے پہلی بار کب بات ہوئی ہاں یہ یاد ہے کہ جب کامران ندیم کے شعری مجموعے’’ وحشت ہی سہی ‘‘کی تقریب رونمائی تھی اس دن فرح کو میں نے خود ہی مخاطب کیا تھا اور مضمون پڑھنے سے معذرت کر لی تھی کیونکہ کتاب پر بولنے والوں کی ایک طویل قطار تھی، پھر کامران کی تمام توانائیاں مہا بھارت پر صرف ہونے لگیں مہا بھارت ایک بہت بڑا کام تھا مگر کامران نے اس کام کا بیڑہ اٹھا ہی لیا ، کینسر آہستہ آہستہ کامران کو اندر ہی اندر کھانے لگا مگر اس کی ہمت نہ ٹوٹی ، آخر کار وہ بستر سے لگ گیا، میں اور کامل احمر ایک سہہ پہر کامران سے ملنے گئے اس وقت وہ بہت بیمار تھا، وہ بات نہ کر سکا میں کامران کے سرہانے کھڑا تھا میرے منہ سے نکلا یہ بہت تکلیف دہ ہے، فرح اس وقت کمرے میں ہی موجود تھیں جیسے ہی یہ جملہ میرے منہ سے نکلا فرح ہمیں کمرے سے باہر لے گئیں، مجھے احساس ہوا کہ جملہ کامران کے کان میں نہیں پڑنا چاہیئے تھا، اس دن پتہ چلا فرح کتنی سبک رفتاری سے معقول فیصلے کرتی ہیں، یہ فہم کی ایک منزل ہے کامران کے سانحہ ارتحال کے بعد فرح کامران کے کچھ تعزیتی اجلاسوں میں سامنے آئیں اور پھر محفلوں کا حصہ بنتی چلی گئی ، فرح کہتی ہیں ان کو شاعری کا اتنا شوق نہ تھا شاید یہ سچ ہو کہ PODCAST / AUDIBLES ترسیل فن کا ذریعہ بن گئے ہوں، فرح مشاعروں میں نہ صرف پڑھنے لگیں بلکہ نظامت سے بھی فرح کا گہرا تعلق بنتا چلا گیا، گاہے گاہے فرح سے فون پر ان کی شاعری پر بات ہوتی رہی، یونس شرر سے فرح کی شناسائی اور عقیدت بھی کئی پرتیں رکھتی ہے مجھے نہیں معلوم کہ یونس شرر فرح کے اندر کی شاعرہ کو نکھارنے میں کتنے معاون رہے مگر اتنا ضرور ہے فرح نے یونس شرر کا بہت ساتھ دیا، بیماری سے پہلے اور بیماری کے بعد بھی، شائد یونس شرر کے لئے یہ کسی وابستگی کا غیبی ظہور تھا، شرر نے بہت سی شاعرات کو بیٹی کہا مگر فرح نے کسی بھی تعلق سے بالا تر ہو کر یونس شرر کی خدمت کی، نیو جرسی سے نیویارک کا سفر ، ان کی ضروریات کا خیال ، شرر کے بچوں سے رابطے، شرر کے کینسر کے بارے میں ان کے بیٹوں سے زیادہ آگاہی ، اور شرر کے آخری سانس تک ان کے ساتھ رہنا یہ وہ کہانی ہے کہ جس پر حیرت بھی ہے کبھی سکتہ سا ہو گیا اور کبھی اس لڑکی کی بے پناہ استقامت اور محبت لٹانے کے انداز نے رلا بھی دیا، دوسری طرف فرح کا شاعرانہ قد بڑھا تو اس PATRIARCAL معاشرے کے چہرے پر ناگواری کے آثار تھے مجھے یہ بھی پتہ کہ فرح ایک غیر شائستہ مہم کا شکار ہو گئی، اس نے پر بھی نہ کھولے تھے کہ کچھ بڑی شاعرات کو محسوس ہوا کہ فرح ان کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے، طاہرہ باجی نے فرح کو علی گڑھ کا مشاعرہ کیا پڑھوا دیا تو قیامت ہی آگئی میں اس صورتِ حال سے بہت محظوظ ہوتا رہا، فرح کی مطالعہ کی بھوک بھی مجھے UNPARALLEED لگی حلقۂ اربابِ ذوق میں پابندی سے شرکت حلقہء کو زوم پر نشر کرنا، فرح کو ادب کے بڑے ناموں کی جانب سے APPLAUD ملتا رہا حلقہ میں وہ اپنی نگارشات بھی پیش کرتی رہی، حلقہ نئی سوچ کے نام سے جو سالانہ رپورٹ کتابی شکل میں شائع کرتا ہے اس کی تدوین میں بھی فرح CONTRIBUTE کرتی رہی،اس دوران فرح کو کبھی تھکن کا احساس نہیں ہوا، فرح کامران نے جب خبر دی کہ شعری مجموعہ آرہا ہے تو بہت خوشی ہوئی، پھر کتاب بھی جلد مل گئی’’ سرخ شام کا دیا‘‘بہت سی باتیں یاد کر کے دل اداس بھی ہوا، جناب سالم صاحب بھی یاد آئے کامران، شرر اور سالم صاحب ہوتے تو کیا لطف آتا، فرح کامران کو اچھے لکھنے والے میسر آگئے، کشور ناہید اور غلام حسین ساجد، تبصروں میں فرح کی شاعری کے حوالے سے کیسے کیسے نام آگئے ساحر لدھیانوی، امریتا پریتم ، اختر شیرانی، زاہد ڈار، پروین شاکر، کوئی جادو تو ہے سرخ شام کے دیئے میں ، زاہد ڈار کو میں نے نہیں پڑھا اب پڑھنے کی خواہش ہے کشور ناہید نے بہت محبت سے لکھا، غلام حسین ساجد نے سرخ شام کے دیئےکے سارے رنگ اپنے تبصرے میں رکھ دیئے “اس شاعری کو پڑھ کر ہم عشق کی لازوال اور کبھی دھندلا نہ پڑنے والی شبیہ کا ادراک کرتے ہیں ہم تعلق کی اس سطح سے آشنا ہوتے ہیں جو ہمیشگی کا رنگ لئے غلام حسین ساجد سا صاحبِ دل کون ہوگا جو یہ جان سکے اور کہے کیا آپ نے قریب قریب دھری دیا سلائیوں کو جلتے دیکھا ہے ایک کے جل کر راکھ ہونے کے مختصر دورانیہ میں ہی دوسری آگ پکڑ لیتی ہے اور تب تک جلتی رہتی ہے جب تک اگلی دیا سلائی اس کی روشنی کا بار نہیں اٹھا لیتی “فرح نے اپنے تبصرہ نگاروں کو اپنی شاعری سے بہت متاثر کیا ہے، ہم نے بچشم خود فرح کو یہ دریا پار کرتے دیکھا ہے، فرح کامران نے اپنے دیباچہ میں بھی لکھا ہے دریا کہاں پایاب تھا اور کہاں بہت برہم ، کہاں موجوں کے تھپیڑوں نے کوئی رعائیت نہیں برتی اور کہاں پانی سر سے اونچا ہوا تو سانس لینا محال ہو گیا یہ دریا تو پار ہوا مگر ایک اور دریا پار کرنا ہے سرخ شام کے دیئے کے بعد اب فرح کے قارئین کی توقعات بڑھ گئی ہیں سرخ شام کا دیا فرح کامران کے شعری سفر کا پہلا قدم ہے کتاب بہت سلیقے سے ترتیب دی گئی ہے، سر روق آغانثار کی ذہنی کاوش ہے سر ورق بھی بہت کچھ کہہ رہا ہے رنگوں کے امتزاج کا اپنا احساس کتاب کی اشاعت پر فرح کامران کو بہت مبارک باد اور ان کے اگلے شعری سفرکے لئے بہت سی نیک خواہشات!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں