جو کام پاکستان بننے کے فوراً بعد کر لینا چاہیئے تھا ، مگر جس کے عوض تشکیل آئین سے گریز ، قرارداد مقاصد کی منظوری ، وزیر اعظم لیاقت علی خان کا راولپنڈی کے وسط میں قتل ، قاتل کے خاندان کو دوامی تحفظ اور انعامات، بار بار مارشل لاؤں کے کبھی ناکام اور کبھی نامراد تجربات، دو وزرائے اعظم کے مزید قتل کے بعد پرائی جنگوں کے منافع بخش ،مگر ریاست کش تجربات اور شہریوں کو ان تجربات کے نتائج کے حوالے کر دینے کے بعد، کچھ زیادہ نہیں ،صرف پون صدی بعد عمال حکومت نے بالآخر ریاست کو استحکام دینے کے عزم کا فیصلہ کن اظہار کر دیا ہے۔ اخباری خبر کے مطابق پاکستان میں کارکردگی کے حوالے سے سراسر اشتہاری وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس میں نیشل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس، جس میں سپہ سالار ،وفاقی وزراء ، چاروں وزرائے اعلی اور صوبوں کے انسپیکٹر جنرل پولیس شریک اور ہمہ تن گوش تھے ، میں اپنی معروف انگلی لہرائے بغیر ،اور اہم “شرکاء ” کے اتفاق رائے سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ایک بار پھر “مکمل” خاتمہ کرنے کے لئے “انسداد دہشت گردی کی قومی مہم “کو دوبارہ زندہ اور متحرک کرنے کے فیصلے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس تازہ فیصلے کے بعد جس آپریشن کی منظوری دی گئی ہے اس کا اسم گرامی عزم استحکام رکھا گیا ہے۔ اس اہم اور حساس کمیٹی نے عزم استحکام سلسلے کے پہلے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مفاد عامہ کے لیے اعلان کیا ہے کہ اب بلا امتیاز رنگ و نسل ، عہدہ ،منصب ، گریڈ ، اندرون ملک و بیرون ملک اثاثوں غرض کسی قسم کے استشناء کے بغیر کسی کو بھی ریاست کے اختیار و اقتدار کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ستم ظریف پوچھ رہا ہے کہ اس اعلان سے پہلے کیا ریاست کے اختیار و اقتدار کو چیلنج کرنے کے لیے باقاعدہ درخواستیں جمع کرانی پڑتی تھیں ؟ یہ درخواستیں آن لائن جمع کرائی جاتی تھیں یا ان کی ہارڈ کاپی بھی جمع کروانی پڑتی تھی۔؟ ستم ظریف کا ایک اور استفسار یہ بھی ہے کہ کیا ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو اپنی اہلیت ، موزونیت اور قابلیت ثابت کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی قائم کردہ ٹیسٹنگ سروس کے روبرو کسی تحریری ٹیسٹ سے بھی گزرنا پڑتا تھا؟ میں چونکہ ان معاملات کے بارے میں بالکل بے خبر ہوں اور ایک مکمل طور پر پُرامن شہری ہوں ، اس لیے ان دو سوالات کا جواب دینا میرے لیے ممکن نہیں ۔ میں تو شہباز شریف کے بیان کردہ فیصلوں کو پڑھ رہا تھا ۔ میں چونکہ ایپکس کمیٹی کا رکن نہیں ہوں ،اور اسی لیے اس اجلاس میں بھی شامل نہیں تھا ،اس لیے میں بالکل نہیں جانتا کہ اجلاس کے بیش قیمت شرکاء نے شہباز شریف کی صدارت میں اس امر کا تجزیہ بھی کیا تھاکہ اب تک پاکستان نے اندرون ملک دہشت گردوں کے مٹانے کے لیے جو مہنگے ترین آپریشن کر رکھے ہیں، ان کے نتائج اور حاصلات کیا رہے تھے ؟ کیا اس بات پر بھی غور کیا گیا تھا کہ ان زبردست آپریشنز کے باوجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ، دہشت گردوں کے اہل خانہ، دہشت گردوں کی سپلائی لائن اور دہشت گردوں کی انٹیلیجنس میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا جا سکا۔؟ اگر “اڑتی چڑیا کے پر گننے والی ایجنسیاں” دہشت گردوں کی سیاسی و مالی معاونت کے سراغ لگا کر ان کا خاتمہ نہیں کر سکتیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی کا کھیل ایک نہایت ہی پیچیدہ معاملہ ہے۔جو کسی نہ کسی طرح اسمگلنگ پر منتج ہوتا ہے۔ کیا عزم استحکام کرنے سے پہلے ایپکس کمیٹی نے اس حقیقت کا تجزیہ کرنے کے لیے وقت نکالا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری اسمگلنگ کا حجم ہماری قانونی تجارت سے بہت بڑا ہے؟ پاکستان میں اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف کتنے آپریشن ہو چکے ہیں ، تعداد بھی یاد نہیں، لیکن اچھے ، کم برے اور زیادہ برے دہشت گرد اب بھی ملک کے اندر موجود اور مصروف ہیں۔تو کیا ان کو قانون کی گرفت میں لانے میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں؟ شاید اسی تناظر میں ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے دہشت گردی کے مقدمات میں رکاوٹ بننےوالے قانونی سقم دور کیے جائینگے۔ یہ سقم کون دور کرے گا، اس کی وضاحت ابھی نہیں کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ ایک “متفقہ قومی بیانیہ” بھی تشکیل دیا جائے گا اور اس قومی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تمام ذرائع اور احتیاطاً دیگر ذرائع سے بھی کام لیا جائے گا۔اس بارے میں وزیر اعظم نے ابھی اتنی بات ہی بتائی ہے ۔ ستم ظریف کے مطابق شہباز شریف کو جتنی بات بتائی جاتی ہے ،وہ اتنی بات کہہ دیتے ہیں ۔ان کی یہ ادا ہر ادا شناس کو پسند ہے ۔پر ایک سوال متوجہ کر رہا ہے کہ؛ ایک جمہوری ریاست میں “متفقہ قومی بیانیہ” کیا ہوتا ہے ؟اور اسے کون تشکیل دیتا ہے؟ کیا یہ خدشہ درست ہے کہ یہ بدترین ڈکٹیٹر شپ کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ کیا “متفقہ قومی بیانیہ” تیار کرنے سے پہلے قومی اسمبلی میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ؟اس اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم نے ایک عجیب اور حیرت انگیز بات یہ بھی کی ہے کہ سیکورٹی کا معاملہ صرف فوج پر چھوڑنے کی روش خطرناک ہے ۔ اس روش کو ترک کرنے کے لیے شہباز شریف کیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ،اس کا اندازہ قائم کرنا ابھی تو ممکن نہیں ۔پر ستم ظریف قیاس کر رہا ہے کہ شاید سیکیورٹی کے معاملے میں اب اداکاروں اور گلوکاروں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اس کے قیاس کی بنیاد گلوکار ملکو کے مقبول گانے” نک دا کوکا” کا تازہ ترین ورژن ہے۔ جس میں وہ پاک فوج کے ملک بچانے کا ذکر کرکے پھر سے نک دا کوکا راستے میں گم ہونے کا شور مچا رہا ہے ۔میں اس کی غیر سنجیدہ قیاس آرائیوں کو اہمیت دینے کے لیے بہرحال تیار نہیں ہوں۔ایپکس کمیٹی نے اپنے ان فیصلوں کا جواز بھی پیش کرنے کی نامکمل کوشش کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ دہشت گردی میں مبتلا غیر مستحکم اور انتشار کا شکار ریاست میں مضبوط و مستحکم معیشت کا تصور ممکن نہیں رہتا ۔امن و امان کی دولت سے تہی ریاستیں کبھی بھی سرمایہ کاروں کی توجہ اور اعتماد حاصل نہیں کر سکتیں ، لہٰذا پھر ان ریاستوں کو بھیک کی معیشت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ایسی معیشت اور ایسے ملک کے لیے شہباز شریف سے زیادہ موزوں وزیر اعظم اور کون ہو سکتا ہے؟ اس اجلاس کے حوالے سے یہ خبر بھی سنائی دی تھی کہ اس میں پاکستان میں موجود چینی باشندوں کی سیکیورٹی کے بارے میں بھی حکمت عملی زیر غور آئے گی ۔مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ اس اہم اور دبنگ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان میں پہلے سے موجود اور آباد پاکستانیوں کی سیکیورٹی اور جان و مال کی حفاظت کے لیے حکمت عملی کی تیاری اور اس پر جواب دہی کے ساتھ عمل درآمد کے لیے کوئی بات چیت کی گئی ہے یا نہیں ، مجھے یہ بھی علم نہیں کہ ایپکس کمیٹی کے معزز و مقتدر اراکین کو سوات کے سیاحتی مقام مدین میں ایک پاکستانی کو پولیس کی حفاظت سے چھین کر اور توہین قرآن کا الزام لگا کر قتل کرنے کے بعد آگ لگانے کا واقعہ زیر بحث آیا تھا یا نہیں ؟ دراصل سوات آپریشن نام سے ایک کارروائی پاکستان میں پہلے سے مکمل ہوکر “سب ٹھیک” کی رپورٹ دے چکی ہے ۔
ایسے میں سوات کے پرامن اور سیر و سیاحت کے پسندیدہ مقام پر نادان فہم والے عناصر کو مساجد میں اعلانات کرنے ، گاڑی پر لاؤڈ اسپیکر باندھ کر شہر بھر میں شور مچا کر ہجوم جمع کرنے والوں کے بارے میں سیکیورٹی کے ذمہ داروں سے جواب طلبی کرنا اسی فورم کا بنیادی کام تھا۔جو بہرحال نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بغیر کسی تاخیر کے مقتول پاکستانی کی غمزدہ والدہ کا رنج ، الم اور کرب سے معمور ویڈیو بیان کس نے اور کن مقاصد کے تحت ریکارڈ کیا؟ اور پھیلایا ، اس طرح کے بیانات ریکارڈ کر کے وائرل کرنا ثابت کرتا ہے کہ توہین کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر ایک بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور آگ میں جلانے والے ابھی تک اس واردات کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔جو گہرا دکھ ، رنج اور لاانتہا خوف اس بزرگ خاتون کی آنکھوں ،چہرے اور آواز پر چھایا ہوا ہے ،اسے برداشت کرنا ممکن نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واردات کے ارتکاب کو کوئی بہت بڑا اور منظم تحفظ حاصل ہے۔اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں” نئے آپریشن” منظور کرانے کی بجائے اگر اسی ایک المیئے کی مکمل اور منضبط انکوائری کروا لی جائے اور اس انکوائری کی رپورٹ کو “مفاد مجرمین” میں چھپایا نہ جائے ، تو پھر یہ امید پیدا ہو سکتی ہے کہ آئندہ اس طرح کے افسوس ناک واقعات رونما نہ ہوں۔ دراصل کسی ایک واقعے کی مکمل ، تیز رفتار اور سنجیدہ انکوائری کرکے پس پردہ متحرک عناصر کا سراغ لگانا بہت ضروری ہے۔ہجوم کا دماغ نہیں ہوتا، تو انکوائری کمیٹی کو سراغ لگانا ہو گا کہ اس ہجوم کے دماغ کو کون کنٹرول کر رہا تھا؟ سوات واقعے میں دیکھنا ہو گا کہ؛ ہوٹل والے سے مقتول کا کیا تنازعہ تھا؟ ہوٹل والے کا عمومی پروفیشنل اور ذاتی کردار کیا رہا ہے؟ ان دنوں ہوٹل میں کون کون مقیم تھا؟ اس علاقے کی پولیس کا انچارج کون تھا اور اس نے فوری طور پر کارروائی کر کے مقتول کی حفاظت میں کوتاہی کیوں کی؟ بنیادی ذمہ داری پولیس اور مقامی انتظامیہ کی تھی۔ان عہدے داروں کو معطل کر کے زیر حراست لینا بہت ضروری ہے۔نیز ان کے عقائد اور فرقہ وارانہ پریکٹس کا جائزہ لینا بھی لازمی ہے۔واقعات کے وقوع کی ترتیب کا محتاط جائزہ لینا بنیادی ذمہ داری ہے۔جب پولیس “ملزم” کو گرفتار کرنے کے لیے ہوٹل پہنچی تو اس نے تحویل ملزم کے علاؤہ دیگر کیا شواہد جمع کئے؟ توہین قرآن کے شواہد کہاں ہیں؟ کیا مقتول کے کمرے سے قرآن کا جلا ہوا نسخہ ملا تھا؟ سب سے خوفناک امر تو یہ ہے کہ ہجوم نے ملزم کو پولیس کی تحویل سے چھڑا لیا۔ایسی پولیس کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟مساجد میں اعلانات کس کے کہنے پر کیے گئے تھے؟ ضلعی انتظامیہ اس دوران کہاں سوئی رہی تھی؟ اس علاقے میں دفاعی ادارے کے گماشتے اور کارندے بھی موجود اور متحرک رہتے ہیں۔وہ کیا کر رہے تھے۔اگر پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے سوچا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس اندوہناک المیئے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کیا جائے گا۔یہ سوات کے پرامن علاقے کو سلگانے کے لیے ایک نقطۂ آغاز خیال کرنا چاہیئے۔یہ واقعہ باور کروا رہا ہے کہ سوات میں سماجی انتظامات پورے ہو چکے ہیں۔اب یہاں وہ کھیل کھیلا جائے گا ،جس سے منع کرتے کرتے محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں۔ ریاست کو سیدھی سڑک پر چلانے کی بجائے کچے اور پتھریلے راستوں پر چلانے والوں نے ریاست اور اس کی تحویل میں رہنے والے سماج کے نہ صرف پہیئے ٹیڑھے کر دیئے ہیں ، نہ صرف ٹائر پنکچر کر ڈالے ہیں ، بلکہ ریاست کی مکمل الائنمنٹ ہی ٹیڑھی کر کے رکھ دی ہے۔پون صدی میں علم و عمل سے محبت کرنے والے محنت کش عوام کو زہر کے جو ٹیکے لگائے گئے ہیں،انہوں نے سماج کو فاتر العقل مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔اتنا کچھ ہو چکا ، پر یہ لوگ باز نہیں آ رہے۔
0