شہید صحافی ارشد شریف نے اپنے آخری پروگراموں میں سے ایک میں ایک پرانی اور تاریخی کہانی سنائی تھی جس میں یونان میں ایک بادشاہ تھا جو اپنے خوشامدیوں اور چاپلوسوں میں گھرا ہوا تھا اور صرف ان کی بات سنتا تھا اوراس کے سارے وزیر خواجہ آصف کی طرح سے ٹی سی والے تھے۔ ایک دن بادشاہ نے اپنے محل کے امراء سفراء اور وزراء سے پوچھا کہ وہ شاہی لباس پہن پہن کر تنگ آچکاہے، آپ لوگ کوئی ایسا لباس تجویز کریں جو بالکل مختلف اور یونیک ہو۔ بحث اور مباحثے کے بعد، بادشاہ کے خوشامدیوں نے بادشاہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ اگر بادشاہ الف برہنہ ہو کر باہر رعایا کے پاس جائے تو ہر کوئی اس اقدام سے خوش ہو گا، آخر کار انسان بھی جب دنیا میں آتا ہے توبر ہنہ ہی ہوتا ہے۔ سفاک اور جابر بادشاہ کے ڈر اور خوف سے ساری رعایا بھی بہت خائف تھی اور منہ کھولتے ہوئے ڈرتی تھی۔ جب بادشاہ سلامت الف ننگا ہو کر اپنے چاپلوس درباریوں کے ساتھ ایک جلوس کی صورت میں باہر نکلے تو درباریوں کے ساتھ ساتھ خوفزدہ عوام بھی ستائش کرنے لگے۔ بادشاہ کی بدقسمتی کہ شاہی سواری دیکھنے والوں میں ایک بچہ بھی موجود تھا۔ بچے نے جب برہنہ بادشاہ کو دیکھا تو بے اختیار بول اٹھا ’’بادشاہ ننگا ہے‘‘۔ بادشاہ نے اپنے محافظوں سے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگ آپ کے غیظ و غضب سے خوفزدہ تھے اس لئے آپ کو نہیں بتایا۔ The King’s new clothsکی شارٹ سٹوری مشہور قلم کار HANS CHRISTIAN ANDERSONکی تحریر کی ہوئی تھی اور آج بھی جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کے اوپر صادق آتی ہے۔ ’بادشاہ ننگا ہے‘۔ دنیابھر میں ایک ایسا محاورہ تشبیہ اور استعارہ بن چکا ہے جو اپنے خوشامدیوں پر اندھا اعتماد کرنے والے حکمران اور خواجہ آصف جیسے درباری خوشامد کرنے والے ٹی سی کرنے والوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ سکول کے زمانے میں اگر کسی کلاس فیلو پر ٹیچر کی بہت نظر کرم ہوتی تھی تو سب اسے ٹیچر کا ٹی سی ہولڈر کہتے تھے۔ ایل بی اور ٹی سی جیسی اصطلاحات بہت پہلے سے ہمارے ہاں استعمال کی جاتی ہے لیکن ممبر قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل نے جب قومی اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف کو کہا کہ ہم عوام کا ووٹ لیکر آئے ہیں اور آپ ٹٹے چک کر آئے ہیں تو ن لیگیوں نے ادھم مچا دیا۔ سپیکر اسمبلی نے یہ جملہ حذف کرنے کا حکم دے دیا اور ثناء الہ مستی خیل کی اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی۔ ثناء اللہ مستی خیل نے یقینا غیر معیاری الفاظ استعمال کئے جس کی کوئی بھی بااخلاق اور باکردار فرد مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ثناء اللہ مستی خیل نے یہ الفاظ ایک مرد خواجہ آصف کیلئے استعمال کئے لیکن ذرا غور کیجیے کہ اسی سیالکوٹی غلیظ رنگ باز خواجہ آصف نے ایک اورخاتون ممبر اسمبلی شیری مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہا تھا۔ اسی خواجہ آصف نے ایک اور ممبر اسمبلی فردوس عاشق اعوان کو ڈمپر کہہ کر پکارا تھا۔ اسی خواجہ آصف نے بیگم نصرت بھٹو کو پیلی ٹیکسی کہا تھا۔ پیلی ٹیکسی اس گشتی کو کہتے ہیں جو سڑکوں پر پھر کر دھندہ کرتی ہے۔ خواتین کیلئے اس قدر گندی زبان کا استعمال اس ذہنی مریض شخص آصف کی ذہنیت کا اھاطہ کرتی ہے۔ ہم ثناء اللہ مستی خیل کے غلط الفاظ کے استعمال کرنے پر جواز مہیا کرنے کی کوشش نہیں کررہے لیکن ہمیں اس گندے شخص کے کردار کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جس کا مردوں کو چھوڑیں، خواتین کیلئے بھی بڑا مکروہ ماضی رہا ہے۔ رہ گئی بات ٹی سی کی تو ہم آپ کو بتا دیں کہ کراچی سے لیکر پشاور تک لاہور سے لیکر کوئٹہ تک، ہر چوک چوراہے پر آپ ایک بڑے سے توے پر دونوں ہاتھوں میں تھامے مخصوص چمچے سے باربی کیوں کرتے ہوئے ٹکا ٹک، ٹکا ٹک کی گونجتی ہوئی آوازوں سے کون نہیں واقف ہے۔ دکاندار اس توے پر بکرے کے کٹے ہوئے کپورے بھونتااور چمٹوں سے آوازیں نکالتا ہوا گاہکوں کو متوجہ کرتا ہوا نظر آتاہے۔ بکرے کے کپوروں کی طرح آدمی کے TESTICLESکو ٹٹے کہاجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاص طور سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے آنے کے بعد ایسی کئی تراکیب، الفاظ اور حوالے جو پہلے معیوب سمجھے جاتے تھے اب بڑی آسانی اور تواتر کے ساتھ استعمال کئے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کبھی ہم گھر میں چائے یا دودھ میں کوکیز کو ڈبو کر کھاتے تھے تو ہمارے والدین ہمیں ڈانٹ دیتے تھے۔ آج ٹی وی ڈراموں اور اشتہاروں میں بڑی استقامت اور بلاندامت یہ عمل دکھایا جاتا ہے۔ پہلے جب گھر کی خواتین بریزر دھو کر سوکھنے کیلئے رسی یا تار پر ڈالتی تھیں تو اس پر ایک اوپر سے دوپٹہ کا کپڑا ڈال دیتی تھیں۔ آج بڑی بڑی نامور ہیروئن سٹیل برا کے اشتہار میں نظرآتی ہیں۔ دور کیوں جائیں حال ہی میں ایک عدت کے مسئلے پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمے میں جس تواتر اور ڈھٹائی کے ساتھ ایک خاتون کے بالکل ذاتی مسئلے ماہواری کا پاکستان کی عدالتوں اور میڈیا میں چرچا کیا گیا عمران خان کے سیاسی مخالفین کے سر بھی ندامت سے جھک گئے۔ ہم نے پہلے بھی یہ بات بتائی تھی کہ ایک معروف ٹی وی اینکر خاتون نے انٹرویو میں بتایا کہ ان کی چھوٹی بیٹی نے جب ان سے ٹی وی دیکھ دیکھ کر یہ سوال کیا کہ امی ماہواری کیا ہوتی ہے تو میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ثناء اللہ مستی خیل کے خواجہ آصف کے خلاف ٹی سی کا حوالہ دینے پر جو لوگ اور خاص طور سے خواتین واویلا کررہی ہیں۔ ہماران سے یہ سوال ہے کہ کیاایک باپردہ خاتون بشریٰ بی بی کی ماہواری کا عدالت میں تعین کیلئے وکیل اور جج بحث کرارہے تھے اور ہر میڈیا پر ان کی ماہواری کے ایام کے چرچے ہورہے تھے تو کیا ان لوگوں نے اس پر بھی اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ معیوب بات ہے؟ کیاآج اگر میڈیا پر جنرل عاصم منیر کی اہلیہ سیدہ ارم منیر کی ماہواری کے چرچے میڈیا اور عدالت میں ہوں تو وہ لوگ آج بھی خاموش رہیں گے؟ بالکل نہیں کیونکہ ساڈا کتا کتا تہاڈا کتا ٹامی!
0