چڑھتا سورج
دوستو نظم گلشن بدل جائے گا
اور کوئی گل نہ گلشن کا کمھلائے گا
دھوپ سر پہ کڑی ہے مگر تابہ کے
یہ جو سورج چڑھا ہے اتر جائے گا!
انسانی جسم میں بہت چھوٹا سا عضو ’’زبان‘‘ بڑی اہلیت اور وقعت کی حامل ہے۔ اس زبان کے استعمال سے دشمن دوست بن جاتے ہیں اور دوست دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ کس نے کیا خوب کہا ہے کہ خاموشی سونا ہے تو بولنا چاندی لیکن اس چاندی کو اگر صحیح طور پر استعمال نہ کیا جائے تو یہ بہت تکلیف دہ اور دوررس نتائج کی حامل ہو جاتی ہے۔ منہ کھولنے والے کی زبان سے نکلنے والے الفاظ بولنے والے کی صلاحیت، قابلیت، اہلیت، ظرف اور مزاج کا پتہ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے بازار کی زبان پارلیمان تک پہنچ گئی ہے۔ معزز ایوان کے بہت ہی معزز ارکان بعض اوقات بہت چھوٹی، غیر معیاری اور ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے کی بات ہوتی ہے کبھی کبھی ذاتیات پر بھی حملے ہو جاتے ہیں حال ہی میں صوبہ پختونخوا کے وزیر نے اس ذیل میں سب کو مات دیدی ہے۔ ان کے منہ سے پھولوں کی بجائے انگارے نکل رہے ہیں وہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی شان میں ایسے ایسے الفاظ اور دھمکیاں زبان پر لارہے ہیں جو شائستگی سے کوسوں دور نظر آتی ہیں۔ پھر جواباً صوبے کے گورنر بھی تقریباً اسی زبان میں جوابی حملے کررہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پختونخوا کے وزیراعلیٰ چنددن قبل ہی وزیراعظم سے اور وزیر داخلہ سے بہت نرم الفاظ میں بات کرتے نظر آتے تھے اس ذیل میں ہم نے گزشتہ کالم میں جناب علی امین گنڈاپور اور محترم محسن نقوی کی ایک جپھی کا ذکر کیا تھا لیکن یہ ’’جپھی‘‘ بھی برف پگھلانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور صاحب جب اپنی گھن گھرج دکھاتے ہیں اور مرکز کو طرح طرح کی بھپکیاں دیتے ہیں تو ہمیں معروف اداکار مرحوم سلطان راہی یاد آجاتے ہیں اور فلم میں جب وہ اپنے حریف کو دھمکیاں اور پھپکیاں دیتے تھے وہ منظر نظر کے سامنے آجاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے چند احباب کا کہنا ہے کہ علی امین صاحب یہ سب کچھ عمران خان کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ اقتدار میں رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے مخالفوں کے لئے کبھی ایسی زبان استعمال نہیں کی۔ ہمارا تجربہ ہے کہ علی امین گنڈاپور اتنی سخت زبان ایک خاص پریشانی کے ردعمل کے نتیجے میں استعمال کررہے ہیں۔ ان کی جماعت کو مقتدرہ نے دیوار سے لگا رکھا ہے۔ ان کے بقول ان کی جماعت کی کم از کم 80 نشستیں حکومت نے دبا رکھی ہیں۔ ان کی جماعت سے انتخابی نشان چھینا گیا۔ انہیں انتخابات کے سلسلے میں جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی گئی وغیرہ ایسے معاملات ہیں جن کے ردعمل کے طور پر علی امین گنڈاپور ایسی سخت اور نامناسب زبان اختیار کرنے پر مجبور ہیں لیکن حالات کی تمام تر تلخی کے باوجود یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی ’’بے ڈھنگی‘‘ زبان استعمال کریں۔ خیبرپختونخوا کے گورنر بہت زیرک سیاستدان ہیں۔ ہم ان سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ ردعمل کے طور پر سخت زبان استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ہر چند کہ گزشتہ کئی عشروں سے ایوان کے تقدس کو مختلف طریقوں سے پامال کیا جارہا ہے اور وہاں بھی کئی بات ذاتیات کو زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن اتنی سخت اور نامناسب زبان وہاں بھی استعمال نہیں ہوتی۔ برصغیر پر چونکہ تقریباً 200 سال تک انگریز حکمرانی کرتے رہے اور برصغیر کا سیاسی نظام برطانیہ کے نظام کی تقلید کرتا ہے فرق یہ ہے کہ برطانیہ میں بحث صرف اور صرف پارلیمنٹ کے بنچوں پر ہوتی ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی کی زبان سے کوئی نامناسب لفظ نہ نکل جائے۔ سیشن ختم ہوتے ہی یا وقفے کے دوران حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین ساتھ ساتھ بیٹھے چائے پیتے اور ہنس ہنس کر باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے یہاں برطانیہ کی سیاسی نظام کی تقلید تو کر لی گئی لیکن پارلیمنٹ میں وہاں کی فضا قائم نہ ہو سکی اکثر سپیکر اراکین کے بعض الفاظ اور جملے ریکارڈ سے خراج کرا دیتے ہیں۔ ہر سیاستدان اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کے لئے سیاست کے میدان میں کودا ہے لیکن اکثر اوقات ’’ذاتیات‘‘ اس کے بعض نازیبا الفاظ بھی ادا کرا دیتی ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ دھمکی آمیز اور بھپکیوں پر مبنی الفاظ اور بیانات آپس میں تلخی کو اور بڑھا دیتے ہیں اور معاملات سلجھنے کے بجائے اور الجھ جاتے ہیں۔ ہم ’’شائستگی ضروری ہے‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں اس ذیل میں سیر حاصل بحث کر چکے ہیں اور اب پھر درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان اور بیرون پاکستان کروڑوں افراد اپنے سیاسی رہبر ان کی تقاریر سنتے ہیں خصوصاً نئی نسل کے لئے یہ زبان جو شائستگی سے دور ہو بہت تکلیف دیتی ہے لہٰذا ہم اپنے سیاسی رہبران سے دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ جب بھی کچھ فرمائیں شائستگی کو مدنظر رکھیں۔