0

حاجی جی! تُن کے رکھو، اور شیخ رشید کو تُن دیا گیا!

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔ پچھلے ہفتے نیویارک میں ہونے والے ٹی ٹونٹی میچ کے دوران جب انڈیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کا سنسنی خیز مقابلہ جاری تھا عین اس کے درمیان سٹیڈیم کے اوپر ایک جہاز ایک بینر کیساتھ ہوا میں نمودار ہوا جس پر لکھا تھا ’’عمران خان کو رہا کرو‘‘ اس تکلیف دہ منظر کی چبھن اور تپش آج دن تک جعلی حکمرانوں اور ان کے سہولت کارو ں کے کلیجے پر مونگ دل رہی ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ سارے انٹرنیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا کی سائٹس سے وہ منظر نوچ کرپھینک دیں۔ اس جلن اور بغض کا اظہار نون لیگ کی پنجاب اسمبلی کی ایک عہدیدار نے اپنے ٹوئٹ میں اسی نوعیت کے ایک جعلی منظر کو لگا کر پیش کیا۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک جہاز فضائوں میں محو پرواز ہے اور اس کے پیچھے ایک بینر لہرا رہا ہے جس پر تحریر ہے، ’’حافظ جی تُن کے رکھو‘‘ یعنی حقیقت میں تو ایسا نہ ہو سکاتو تصور میں ہی سہی۔ عمران خان کے اس ہوائی بینر کا بدلہ تو لے لیا مگر ان کم عقل جاہل جرنیلوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ کسی کے ساتھ محبت اور کسی کے ساتھ نفرت کا اظہار ایک قدرتی ردعمل ہوتا ہے اور ان دونوں کیفیتوں کو کسی حکومتی، ریاستی اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے پروموٹ نہیں کیا جاسکتا۔ نیویارک میں عمران خان کے ساتھ وفاداری اور محبت کا واقعہ اس بینر کے ذریعے ہوا وہ ایک فرد واوحد کی اپنے لیڈر کیساتھ عقیدت کا مظاہرہ تھا اسے کسی پارٹی یااین جی اوز نے آرگنائزڈ نہیں کیا تھا۔اب ہم اس کے بالکل متوازی اور نفرت کا مظاہرہ بیان کرتے ہیں۔ ملٹری ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ اس وقت ملک میں صرف ایک ٹی وی نیٹ ورک تھا اور وہ تھا پی ٹی وی، کرکٹ میچ براہ راست پی ٹی وی نشر کررہا تھا۔ میچ دلچسپ مراحل سے گزر رہا تھا اور پورے پاکستان اور دنیا کی نگاہیں ٹی وی سکرینز پر جمی ہوئی تھیں۔ ایسے میں ایک آوارہ کتا کرکٹ گرائونڈ میں گھس آیا۔ کرکٹ میچ روک دیا گیا اور منتظمین اس کتے کو پکڑنے کی تگ و دو کرنے لگے۔ اس کوشش کے دوران پورا سٹیڈیم ایک ہی نعرہ سے گونجنے لگا اور تھا کتے کے حوالے سے، ضیاء الحق واپس آجائو، ضیاء الحق واپس آجائو، ردعمل تو اتنا فوری اور فی الفور تھا کہ کچھ لمحوں تک پی ٹی وی والے کچھ نہ کر سکے۔ پھر اس کے بعد ایک بریک لے لیا مگر سارا منظر پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھ لیا۔ مگر ملاحظہ کیجئے کہ وہ ہی ایک کرکٹ کا کھیل مگر دو متوازی رویوں کا عوامی اظہار ایک طرف بھرپور محبت کا والہانہ اظہار اور دوسری طرف نفرت کا بھرپور اظہار۔ اس وقت پاکستان میں صورت احوال یہ ہے کہ چاہے کسی بھی نوعیت کی تقریب ہو اور چاہے وہ پاکستان کے اندر ہو پاکستان سے باہر، چاہے وہ سیاسی ہو، چاہے وہ ادبی ہو، چاہے وہ موسیقی کی ہو یا چاہے وہ سماجی یا دینی ہو، بات گھوم پھر کر عمران خان پر ہی آتی ہے۔ حالیہ ایک ہیوسٹن کے مشاعرے میں جب عباس تابش نے ایک قطعہ پڑھا تو نعرہ آیا قیدی نمبر آٹھ سو چار۔ اس سے قبل ایک محفل سماع میں قوال فرمائشیوں کی پرچیاں پڑھنے لگے تو ایک پرچی جب انہوں نے پڑھی تو خود بھی مسکرائے اور سامعین بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔ فرمائش ہوئی تھی کہ ’’جب آئے گاعمران بنے گا نیا پاکستان‘‘ سنا دیجیے۔ اسی طرح سے جب ہیوسٹن میں ہونے والے جنون کے کنسرٹ میں سلمان احمد، عمران خان کی تصویر والی شرٹ پہن کر مائیک پر آئے تو عمران خان، میری جان، تیری جان کے نعرے بلند ہو گئے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق مشہور پاکستانی گلوکار ملکو کے گانے ’’نک دا کوکا‘‘ کے مشہور ہونے کی وجہ اڈیالہ جیل کا حوالہ تھا، ان کے گیت نے ملین آف ویوز کے ریکارڈ بنا دئیے۔ اس ہفتے جب وہ مانچسٹر میں ہونے والے اپنے شو کیلئے گروپ کے ساتھ ایئرپورٹ پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ پورے گروپ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ای سی ایل میں شامل ہے اور وہ کنسرٹ کرنے برطانیہ نہیں جاسکتے۔ اس سے قبل معروف شاعر اور صحافی احمد فرہاد کو صرف اس وجہ سے پہلے گمنام افراد نے اٹھا لیا پھر اسے گرفتار کر کے داخل زندان کر دیاگیا کیونکہ اس نے ایک نظم میں کہا تھا، ’’یہ خود سے سوچتا ہے اسے اٹھا لو‘‘ بے چارے احمد فرہاد نے تو عمران خان کا نام تک نہیں لیا تھا یعنی اب براہ راست تو کیا بالواسطہ بھی آپ کوئی بات یا کلام نہیں کہہ سکتے۔ یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان آرمی کے چند جرنیلوں کو اپنے طاقت کے نشے میں چور ہو کر عوام الناس کی نبض بھی سنائی نہیں دے رہی۔ میرا ازار بند اگر چھوٹا نہ ہوتا تو میں جیل یا غار میں کب کا پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر چکا ہوتا۔ یہ ہے اس شخص شیخ رشید کا بیان جسے پنڈی ہیڈکوارٹر سے بہت قریبی تعلق کے باعث پہچانا جاتا تھا۔ شیخ رشید نے بتایا ہے کہ ان کے چالیس روزہ چلے کے دوران آئی ایس آئی والوں نے ان کو الٹا ٹانگنے کیلئے ایک کرین منگوائی۔ کرین آپریٹر نے وارننگ دی کہ اگر اس عمر رسیدہ شخص کو الٹا لٹکایا گیا تو یہ زندہ نہ بچ سکے گا اور آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے جس کے بعد اس منصوبے پر عمل ترک کر دیا گیا۔ ہم نے تاریخ کے حوالے سے جرمن نازیوں کے ظلم و فسطائیت کے حربے تو سنے تھے مگر اب یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ہمارے جرنیل، کرنیل اور بریگیڈیئرز تو ہٹلر اور گسٹاپو سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ آثار و قرائن اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ہماری فوج کی نچلی قیادت کسی بھی دن بغاوت کرنے کا اعلان کر سکتی ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قوم کے دل ان ہی سجیلے جوانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں