0

متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے!

پاکستان اپنے قیام کے ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر خاص لوگوں کا ملک بن گیا۔جہاں عام اور گناہگار لوگوں کے لیے سوائے اطاعت اور غلامی کے ،دوسرے کسی راستے کی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔خاص لوگوں نے ریاست کو اسلام کے قلعے یعنی ایک نظریاتی ریاست کی خلعت فاخرہ پہنا کر پرستش کے لیے سجا دیا ، انہی خاص لوگوں نے اپنے لیے مذہب کا جبہ و دستار پسند کیا، اور بن سنور کر چلنے پھرنے لگے۔انہی “چلتے پھرتے” لوگوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے دستور بنانے کے عوض ایک قرارداد مقاصد منظور کروا کر عامتہ الناس کو ہمیشہ کے لیے طے شدہ مقاصد کا اسیر شہری بنا دیا ۔یوں پھر ایک نوزائیدہ ریاست کے غیر مختتم نخروں کا آغاز ہوا،جو آج تک جاری و ساری ہیں۔احمد سلیم ان پاکستانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ،جو بزعم خود خاص لوگوں کے مقابل مکمل طور پر عام آدمی ہونے اور بننے پر فخر کیا کرتے تھے۔انہوں نے ملک کے بدترین مارشل لاؤں کا ایک عام شہری کے طور پر تجربہ اور مشاہدہ کیا ، مشکلات برداشت کیں۔یاس و حرماں کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے۔فیض کی قربت اور تربیت نے احمد سلیم کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب خان کے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل دھاندلی والے الیکشنز میں احمد سلیم نے محترمہ فاطمہ جناح کے ایک عام ورکر کے طور پر حصہ لیا ،اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔اسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛ ایوب خان نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر تشدد کے سلسلے دراز کر دیئے تھے۔مجھے بھی دو دن حوالات میں کاٹنے پڑے،جہاں ” فاطمہ جناح زندہ باد”کہنے پر دس جوتے لگائے جاتے تھے ۔دو روز بعد جب میں رہا ہوا تو ایوب خان صدر منتخب ہو چکے تھے۔مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا جا چکا تھا اور کراچی کے عوام سے ایوب خان کو ووٹ نہ دینے کا انتقام لینے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔”(احمد سلیم ، میری دھرتی، میرے لوگ ،ص 109) جنرل ایوب خان کے دس جوتوں نے خوب ترقی کی ، جنرل یحیٰی خان نے دس جوتوں کے عوض ہمارے بنگالی بھائیوں کو پرانی بندوقوں کی گولیوں سے چھلنی کئے رکھا، اور یوں مغربی پاکستانیوں کو بنگالیوں والی جمہوریت پسندی اور آزاد روی کے فیشن سے بچا لیا، اس کے ساتھ ساتھ بڑی حکمت عملی سے مغربی پاکستان کے معصوم و منزلہ ملاؤں کو بھی امریکہ بے زار مولانا بھاشانی جیسے “ریڈ ملا” کے اثر و نفوذ سے محفوظ و مامون کر لیا۔بعد میں ضیاء الحق نے دس جوتوں کو دس ، بیس، تیس کوڑوں کی سزا میں بدل دیا تھا ۔گویا عامتہ الناس پر تشدد جاری رہا۔ستم ظریف کہتا ہے کہ اب حالات نسبتاً بہتر ہیں، دس جوتے ہوں، بندوق کی گولیاں ہوں یا ٹکٹکی پر باندھ کر ننگی پیٹھ پر برسنے والے کوڑے،سب میں توہین و تذلیل کا پہلو بھی نکلتا تھا ،اب چپکے سے اٹھا اور چھپا لیا جاتا ہے اور اس کے بعد
گل کرو شمعیں بجھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو !
اب یہاں۔۔۔۔۔گویا قصور تو پھر ہمارے اپنے شاعر کا ہی نکلا نا، جو ایسی تنہائی کی تصویر بنا اور سجھا کر چلا گیا۔ احمد سلیم جنرل یحییٰ خان کے دور میں بھی جمہوریت اور مشرقی پاکستانیوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے پر پابند سلاسل رہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی پر مشقت و اذیت ناک سیاست کے سرگرم مشاہد ہونے کے ناطے ان کے تجربات و مشاہدات نادر اور منفرد تھے ۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ہمیشہ دشوار رہا کہ احمد سلیم صاحب کی باتیں سننا زیادہ دلچسپ و دل پسند بات ہے کہ انہیں پڑھنا۔نہایت متعین معنی سے لبریز علمی گفتگو حد درجہ سادہ لہجے میں کرنا ان پر منتہی تھا۔دوسرے کی بات توجہ سے سننا اور فی الفور اس کے مافی الضمیر کو سمجھ جانا ان کی انفرادیت تھی۔علمی مدد اور تعاون ان کے لیے عبادت اور آثار علم کی جمع بندی ریاضت کا درجہ رکھتے تھے۔ سخت جدوجہد کے سنگلاخ پہاڑوں کو سر کرنے والے عملی اور انقلابی لوگ تھوڑے سے زود رنج، بلند آہنگ اور لاتعلق سے ہو جایا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس احمد سلیم نرم گفتار ، سبک رفتار اور سنجیدگی کے ساتھ خوش مزاج بھی تھے۔ ایک بار اسی کی دھائی میں پاکستانی معاشرے میں مذہبی انتہاء پسندی کے آغاز اور فروغ کے طور طریقوں پر بات ہو رہی تھی۔یعنی یہ کہ ایک پرامن ، متوازن اور تعلیم و تدریس و تفریح اور احسان پر عامل معاشرے کو کس طرح سے فرقوں میں تقسیم اور باہم متحارب کیا گیا۔یوں دنیا میں پہلی بار کسی مسلمان ملک میں احترام رمضان ، توہین مذہب ،توہین رسالت اور توہین قرآن جیسے معاملات و مسائل نے جنم لے کر نہایت تیز رفتاری سے ترقی کی ۔ 1981ء میں ملک میں احترام رمضان کا آرڈیننس کا اجراء ہوا ۔جس کی نو دفعات میں حد درجہ مزاحیہ انداز میں عوامی مقامات پر کھانے پینے کو جرم قرار دے دیا گیا۔جس کی سزا تین ماہ قید یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی تھیں۔ اس قانون کی ایک دفعہ کے مطابق کسی بھی ہوٹل یا کسی کنٹین یا کسی کھانے پینے کی جگہ،کسی سڑک کنارے یا کسی بھی پل پر ، یہاں تک کے کسی گھر یا کسی خیمہ تک کو “عوامی مقامات”قرار دے کر ان مقامات پر کھانا پینا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اسی تناظر میں احمد سلیم صاحب نے انتہا درجے کی سادگی اور گہرے درد کے ساتھ ایک ذاتی واقعہ سنا کر اداس کر دیا۔کہنے لگے میں دوپہر کے بعد کام سے فارغ ہو کر باہر نکلا ، گرمی کا موسم اور سخت بھوک ستا رہی تھی۔اتنے پیسے نہیں تھے کہ کھانا کھا سکتا ، سڑک کنارے ایک ریہڑی والا کیلے بیچ رہا تھا ، اس کے پاس جا کر چند کیلے خریدے اور وہیں ایک طرف ہو کر کھانے شروع کر دیئے۔ایسا کرتے ہوئے یہ بات میرے دھیان میں نہیں تھی کہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور پاکستان میں احترام رمضان کے نام پر دکھاوے کے متعدد اقدامات کے ڈرامے جاری و ساری ہیں۔شدید بھوک میں کیلے کھانے سے توجہ اس وقت ہٹی جب ایک پولیس والا سر پر آ پہنچا اور چیخا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔مجھے اس سوال کا محل بالکل سمجھ نہیں آیا ، صرف اتنا کہا کہ کیلا کھا رہا ہوں ۔وہ پھر چیخا کہ تم نے توہین رمضان کی ہے ۔مجھے پکڑ کر قریب بنے ایک پولیس کے ناکے پر لے گیا۔گویا اب میں توہین رمضان کا مجرم تھا ۔آب دیدہ آنکھوں سے کہنے لگے کہ ناکے پر بیٹھے تھانیدار نے پولیس والے سے پوچھا کہ اس نے کیا جرم کیا ہے؟ جواب ملا ؛ یہ سرعام کیلے کھا کر رمضان کی توہین کر رہا تھا۔میں نے تصحیح کرنے کی کوشش کی کہ جناب توہین کا تو تصور نہیں کیا جا سکتا ،بس سخت بھوک لگی تھی ،اس لیے کیلے کھا رہا تھا ،توہین تو نہیں کی۔اس پر تھانیدار نے سزا کا اعلان کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ اسے چار تھپڑ مار کر چلتا کرو ۔ سڑک کنارے بکھری دھوپ ، دوپہر کی گرم ہوا ،پاس سے گزرتے لوگوں ، قریبی درختوں پر بیٹھے پرندوں اور ان سب کے بہت اوپر چھائے خاموش اور متجسس آسمان نے یہ سارا منظر دیکھا،مگر ٹوٹ کر نیچے نہیں گرا کہ؛ایک شخص کو سیدھا کھڑا کر کے ایک پولیس والا اس کے منہ پر تھپڑ مار رہا تھا ، ایک ، دو تین اور یہ چار ۔رنج ، توہین، تکلیف اور تذلیل کے احساس اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ سر جھکائے وہ شخص ایک طرف چل پڑا۔ احمد سلیم صاحب کے بیان کردہ اس ایک واقعے سے ضیاء الحق کے دور میں مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی تاریکی کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔یقینا یہ واقعہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ نہیں ، ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی معاشرے کا اجتماعی قصہ ہے ۔ان تھپڑوں کے نشان آج بھی ہر پاکستانی کے منہ پر دیکھے جا سکتے ہیں۔احمد سلیم واحد دانشور تھے جو عالم ہونے کی دھونس جمانے کے عوض علم و تحقیق میں مدد اور تعاون کے لیے ہمہ وقت تیار اور آمادہ ٔایثار رہا کرتے تھے۔ مجھے خود ان کے اس لطف و کرم کا تجربہ ہو چکا ہے۔کئی بار ایسا ہوا کہ مجھے کسی نادر کتاب کی تلاش ہوئی، اشارتاً ذکر کیا ،تو فوراً اٹھے اور کتاب لا کر سامنے رکھ دی۔ ایک بار مجھے رشید اختر ندوی کی مرتبہ شہید وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی سوانح عمری کی تلاش ہوئی ، یہ کتاب خود رشید اختر ندوی کے اہل خانہ کے پاس بھی دستیاب نہیں تھی۔ لیکن جب احمد سلیم صاحب کو علم ہوا کہ میں یہ کتاب تلاش کر رہا ہوں تو اس کتاب کی دونوں ضخیم ترین جلدیں لا کر میرے سامنے رکھ دیں۔ مسکراتے بڑے منظم سلیقے سے تھے ۔یہ ان کی طرف سے اپنے لیے اظہار اطمینان اور مخاطب کے لیے انعام کی طرح ہوتا تھا ۔ایک بار بلوچستان پر بات ہو رہی تھی ۔انہوں نے اپنی ایک کتاب کا ذکر کیا، بک ریک سے نکال لائے، باتیں ہوتی رہیں۔ میں اٹھتے ہوئے کتاب پر پبلشر کا نام دیکھنے لگا۔انہوں نے یہ کہہ کر کہ یہ اب پتہ نہیں دستیاب بھی ہے یانہیں ، آپ یہی کتاب رکھ لیں ،مجھے مل جائے گی ، کتاب میرے حوالے کردی۔اس وقت کے صدر پاکستان ( آج کل بھی وہی صدر پاکستان ہیں ) کی طرف سے ہماری یونیورسٹی میں فیض احمد فیض چیئر کا قیام ایک تاریخی واقعہ تھا۔پاکستان میں مقتدرہ سے رشتہ قدم بوسی استوار رکھنے والے فیض سے نسبت اور محبت کی تشہیر تو خوب کرتے ہیں ،لیکن نجی محفلوں میں ” یہ بڈھا بھی خود کو شاعر سمجھتا ہے ” جیسی معیار اور اعتبار سے گری ہوئی باتیں بھی تواتر سے دھراتے رہتے ہیں۔ہماری یونیورسٹی میں فیض چیئر قائم ہو گئی ، تو اس کے بنے بنائے “چیئرمین” بھی میدان میں اتر کر دائرے کی صورت جھومر ڈالنے لگے۔ لیکن فیض چیئر کے لیے مرتب کردہ قواعد و ضوابط میں چیئرمین کے لیے یونیورسٹی پروفیسر کی قابلیت اور میرٹ والی شرط نے “قدم بوس” اُمیدواروں کو زمین بوس کرتے ہوئے مایوس کردیا۔بہرحال یہ اعزاز میرے حصے میں آیا ۔ لیکن “ماہرین قدم بوسی و دریوزہ گری” نے مختلف حیلوں بہانوں سے حکومت یا ایچ ای سی کی طرف سے کسی قسم کے فنڈز کا اجراء رکوا دیا۔ اس کے باوجود ہم نے فیض چیئر کی نیشنل ایڈوائزری کونسل بنائی ،جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی شامل تھی۔ متعدد منصوبے بنائے ، متعدد بین الاقوامی کانفرنسز کروائیں ،اور یہ سب یونیورسٹی کے اپنے وسائل سے کیا گیا۔ایسے ہی متعدد منصوبوں میں ایک منصوبہ فیض احمد فیض پر ایک بھرپور دستاویزی فلم تیار کرنے کا بھی تھا ۔اس کے لیے احمد سلیم صاحب نے جس طرح ساری مصروفیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض محبت کی بنیاد فیض ڈاکیومنٹری کا طویل ، منظم اور مرتب مسودہ مکمل کر کے ہمارے حوالے کیا ، وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔انہوں نے اس ڈاکیومنٹری کے لیے اپنے ذاتی روابط اور تعلقاتِ کو بھی ہماری مدد اور تعاون کے لیے تیار کر لیا۔ہم اسے تیزی سے مکمل کرنا چاہتے تھے ۔لیکن، بات طویل ہے ، بس خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی مقتدرہ “فیض ” سے “محبت کا اعلان اور گریز پر عمل” کی حکمت عملی اپنائے رکھتی ہے۔دوسرے خود خانوادہ فیض کا احساس ملکیت ناواجب حد پر متحرک رہتا ہے۔ ان کے اور حضرت علامہ اقبال کے اہل خانہ کے طرز فکر وعمل میں زمین آسمان کا فرق دیکھنے میں آیا ہے۔بہرحال احمد سلیم صاحب کے ہاتھ کا لکھا فیض ڈاکیومنٹری کا مسودہ اب بھی میرے پاس ایک خلوص نامے کے طور پر محفوظ ہے۔یقینی طور پر احمد سلیم نایاب صفات کے حامل دانشور تھے، جن کی تربیت وقت اور زمانے نے خود کی تھی ۔فیض احمد فیض ان کے محسن ، ممدوح اور محب تھے۔ان سے محبت اور عقیدت کے تعلق کا آغاز کراچی شہر سے ہوا ،یہ تعلق 1984ء تک قائم رہا۔فیض احمد فیض کی طرح احمد سلیم کو بھی ریاست پاکستان کا شہری ہونے کے سارے رنگوں سے واقف ہونا پڑا ۔حالات جیسے بھی ہوئے ،رہنا سہنا اور جینا پڑا۔وہ خود کو ایک کامیاب اور بامراد شخص خیال کرتے تھے۔میرے خیال میں ایک صاحب دل اور صاحب فراست کے لیے اس سے بڑا اطمینان اور انعام کوئی اور ہو نہیں سکتا؛
؎بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے
متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں