غریب ہونے کی سزا دانستہ ، یا غیر دانستہ طور پر یہ معاشرہ طبقاتی فرق کو نمایاں رکھنے کے لئے اپنے رویوں اورلہجوں میں تحقیر آمیز جملوں کی آمیزش کر کے دیتا رہا ہے اوراخلاق سے عاری دل شکنی کی یہ خود ساختہ مشقیںابھی بھی نافذالعمل ہیںحالانکہ ہندوں سے علیحدہ ہوئے ہمیں 75برس بیت چکے ہیں لیکن طبقاتی فرق کے حقارت کی سیاہی سے لکھے داغ ہمارے پاک دامنی کی تصویر لئے پھرتے ہیں جو جگ ہنسائی کا سبب ہیں روایات اور انا کے لباس میں ملبوس تو کلمۂ حق کہنے والے نہیں ہوتے جانے پس ِ پُشت وہ کون سی ابلیسی ذہن کی طاقتیں ہیں جو ہمیں اسلام سے دور اور مغرب کے عریاں معاشرے کا دلدادہ بنا رہی ہیںشہباز شریف حکومت نے مہنگائی میں کمی کی وجہ سے شرح سود 22فیصد سے کم کر کے 20.5فی صد کر دیا ہے شرح سود میں 150 بیس پوائنٹس کمی کی گئی ،افراط ِ زر مئی میں 11.8فیصد رہی سخت زرعی پالیسی اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی جو کہ اپریل میں 17.3فی صد تھی گر کر مئی میں 11.8فیصد رہ گئی ہے مگر سود کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے کوئی موئثر اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے کاش کہ ملکی معیشت کو لگے اس سود والے ناسور سے کوئی نجات دلانے والا مرد ِ مومن ملے مگر مزاجِ قوم کا محاصرہ کرنے کے باوجود بھی ابھی تک قحط الرجال کا سامنا ہے جو کہ قطعی خوش آئند نہیں ہے مہنگائی میں کمی بہارکا اک ہلکا سا جھونکا ہے، خوشگواری کا ایک چھوٹا سا بادل ہے ڈر ہے کہ آنے والے بجٹ کی آندھی اسے وطن ِ عزیز سے دور نہ کر دے مگر یہ یقین ِ کامل ہے کہ ہم عوام کا مزاج مہنگائی کے بڑھنے پر برہم نہیں ہو گاہماری عوام کا مزاج بھارت سے کرکٹ میچ ہارنے پر شدید برہم ہوتا ہے دوسرے لفظوںمیں قیامت کسی بھی قسم کی آئے کوئی فکر نہیں مگر کرکٹ میچ ہارنا جو ہے وہ مزاج ِ قوم کے لئے دکھ کی بات ہے میں کرکٹ یا کسی کھیل کے خلاف ہر گز نہیں مگر یہ بات عقل سے باہر ہے کہ ہمارے ملک کا کرکٹ میچ بھارت سے یا کسی بھی دوسرے ملک سے جیتنا کیوں ضروری ہے ؟کیا کرکٹ میچ جیتنے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں ؟کیا اس سے ملکی قرضے کم یا بیروزگاری دور ہوتی ہے ؟ایسے مزاجِ قوم کے رسیا لوگوں کی دل شکنی قطعی مقصود نہیں مگر ان کو آئینہ دکھانا لازمی ہے کہ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد سے اب تک کی معاشی ابتری کا جائزہ لے لیں تو احمقانہ حرکات و خیالات کی نفی ہونے میں دیر نہیں لگے گی ہمارا مسئلہ کرکٹ میچ جیتنا نہیں ہے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہماری کمزور حالت کی مقروض معیشت ہے جسے سود کی دی ہوئی سانسوں پر زندہ رکھنے کی ناکام کوششوں پر آخرت تباہ کرنے کے عمل جاری ہیں ہمیں چائیے کہ ہم معاشی حالت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی معیشت کو خراب سے بہتر کرنے میں اپنی کاوشیں بروئے کار لائیں نہ کہ قرض پر اور وہ بھی سود والے قرض پر معیشت چلانے کو مہارت جانیں۔ جانے کیوں وطن ِ عزیز کے خزانے سے تنخواہ لینے والے معاشی ماہرین نے کئی دہائیوں سے اس پاک ریاست کی مخلوق کو دیار ِ غیر کی چوکھٹ پر فقیر بنا کر بٹھا رکھا ہے ؟اپنے اس جملے پہ مجھے جون ایلیا یاد آگئے وہ کہتے ہیں کہ نوکری کر رہے ہو مدت سے ، تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے،۔اس بے شعور عوام کی نظریں جس انداز سے کرکٹ کے میدان میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا احاطہ کرتیں ہیں یہی ذہنی قوت اگر اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندگان کی بدن بولی کا محاصرہ کرنا شروع کردیں تو شاید اگلی بار انھیں منتخب کرنے کے عمل سے رک جائے۔ باعث ِ ندامت ہے یہ بات کہ اسمبلیوں کی موجودگی میں ملک کا بجٹ بیرونی طاقتوں کی مرضی اور خواہش کے مطابق ترتیب دیا جائے جس میں عوامی مسائل سے کئی زیادہ آئی ایم ایف کے مالی مفادات کا تحفظ ممکن ہو 18 ٹریلین روپے سے زائد کا بجٹ وفاقی حکومت پیش کرچکی ہے جو سودی قرضوں سے لدا ہوا بجٹ اور بیجا ٹیکسوں سے بھرا مہنگائی کا طوفاں لئے ہوئے ہے جس میں بقول شخصے سرکار کی پنشن اور غریب کی ٹنشن میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ٹیکسوں کی آمدنی کا 87فی صد حصہ سودی قرضوں کی نذر ہو گیا تو قومی ترقی کے لئے ،غربت کم کرنے کے لئے حکومت کے پاس خزانے میں کیا بچے گا ؟کچھ نہیں رہے گا یہ پھر قرضے لیں گے اور مہنگائی بڑھائیں گے میڈیا پر اپوزیشن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے احتجاجی انداز سے بات کررہے ہیں مگر عملی طور پر کوئی مثبت تجویز دینے کی استطاعت نہیں رکھتے انھیں تو یہ علم تک نہیں کہ دشمن ملکوں سے معاشی میدان میں سبقت کیسے لینی ہے یہی حال عوام کا بھی ہے جو کرکٹ کی جیت کو مسائل کا حل سمجھتی ہے حالانکہ یہ صرف انا کا مسئلہ ہے جب کہ معاشی ترقی سے قوموں کے سر بلند ہوتے ہیںمعاشی ماہرین کے حوالے سے ایک مذاکرے میں میرے دوست اکرام آفریدی کہتے ہیں کہ دیکھو بھائی کبھی کسی کباڑیئے کے سامنے سنہرے الفاظ مت کہو وہ اسے ردی سمجھ کر اٹھا لے گا بات درست مگر ہمیں خطرات سے ،اندیشوں سے آگاہ کرنے کی عادت ہے اب مزاج ِ قوم پہ منحصر ہے کہ وہ کس بات پر دھیان اپنا مرکوز کرتی ہے اُس نے دنیا کا مقابلہ معیشت کے میدان میں کرنا ہے یا کرکٹ کے میدان میں صرف تالیاں بجانی ہیں ممکن ہے کہ مزاج ِ قوم میں بدلائو سے ملکی ایوانوں میں بھی بہتر اذہان ملکی بھاگ دوڑ سنبھالیں اور ملکی نظام کو عین اسلامی احکامات کا تابع کر دیں ۔
0