مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا مزاج AUTHORATATIVE ہے، مذہب جو حکم دیتا ہے وہ فرمانِ خدا ہوتا ہے اس سرِ مو تفاوت نہیں ہو سکتا، مذہب کا یہ مزاج صدیوں سے ہے ہندو، مسلم، عیسائی سماجوں میں جو AUTHORITY خدا کی تھی وہ مذہبی پیشواؤں کو مل گئی ، ان میں جبر کا عنصر آگیا اور ان مذہبی پیشواؤں کا حکم MANDATORY ہو گیا،اگر نافرمانی ہوتی تو کہا جاتا کہ تم نے خدا کے احکامات کو نہیں مانا، حکم عدولی کی ہے لہٰذا سزا دی جائے گی، حکم عدولی کرنے والوں نے کہا کہ خدا کی حکم عدولی ہوئی ہے خدا سزا دے گا تو جواب ملا کہ ہم خدا کا حکم زمین پر نافذ کرتے ہیں سو خدا کی زمین کو فساد سے بچانے کے لئے سزا ہم ہی دیں گے پھر پیشوائی کے جبر کا دائرہ بڑھتا چلا گیا، لوگوں نے اس جبر سے تنگ آکر ہجرت بھی کی مگر پیشواؤں کی زیر نگرانی انتظام نہیں بدلا، جیسا عرض کر چکا ہوں کہ یہ کہانی ہر مذہب کی ہے ہندوستان میں آریا سماج کا ڈھانچہ چونکہ ذات پات کے نظام پر تھا لہٰذا اعلی ذات کے پنڈتوںکو خدائی اختیار مل گیا اور انہوں نے نچلی ذات کے شودروں پر ظلم کی انتہا کر دی، یہ بہت انسانیت سوز تھا، ہندوستان کے حکمرانوں نے بھی اپنے اقتدار کے لئے اس نظام کو چلنے دیا، عیسائیت، یہودیت اور اسلام تینوں مذاہب ایک ایسی سرزمین پر اترے جہاں قبائلی نظام تھا
جو طاقتور اور امیر ہوتا وہ قبیلے کا سردار ہوتا قبیلے کے سردار کا حکم مانا جاتا، فیصلے بھی قبیلے کا سردار کرتا تھا، ذریعہ معاش نہ ہونے کے سبب ان کا کارو بار لوٹ مار تھا لہٰذا اس علاقے کے قبیلوں کے درمیان RIVALRY کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور کشت و خوں ہوتا رہتا تھا، اس طرح کچھ رسوم و رواج بھی INVISIBLY سماج کا حصہ بنتے چلے گئے جہاں جہاں رسوم و رواج ٹوٹے خون بہا حضرت عیسی کا مصلوب ہونا بھی ایک ایسا واقعہ ہے جبکہ یہودیوں کے نظام پر ضرب پڑی اور مکہ میں طلوعِ اسلام کو بھی اسی منظر نامے میں دیکھا جانا چاہیے۔جب اشاعتِ اسلام کا اہتمام ہوا تو اس وقت بھی قبائلی رسوم و رواج پر وار ہوا اور اس کی شدید مخالفت کی گئی اور یہاں بھی خون بہا، ایسا ہر گز نہیں کہ اسلام نے تمام قبائلی اصول اور قوانین یک سر ختم کر دیئے، اسلام کو فراز ملا تو اس وقت بھی قبائلی موجود تھے ان کے در میان چپقلش بھی موجود تھی ان کی طاقت بھی مسلمہ تھی، ہر چند کہ مکہ فتح ہو گیا اور قرب وجوار کے قبائل نے بیعت بھی کر لی مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ مکے کی سیاسی فضا کی وجہ سے رسول کو واپس مدینے جانا پڑا، اسلام کی اپنی سماجی سوچ میں قبائلی رسوم و رواج کا کتنا دخل تھا اس کا تفضیلی جائزہ ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی کتاب THE MEDTHODOLOGY OF SUNNA IN HISTORY میں لیا ہے، یہ درست نہیں کہ دیت اور قصاص کا تصور پہلے سے موجود نہ تھا حقیقت یہی ہے کہ دیت اور قصاص قبائلی قوانین تھے جو جوں کے توںاسلامی قانون کا حصہ بنے، ان کی بازگشت اب صرف پاکستان اور افغانستان میں ہی سنائی دیتی ہے، اسی طرح غلام مردوں اور عورتوں کی تجارت کی اجازت دی گئی کیونکہ یہ عرب کی معیشت کا بڑا حصہ تھی دنیا کی سیاسی زندگی میں کلٹ کا تصور مذہبی رسوم و رواج سے ہی آیا ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی انسانی سوچ نے کلٹ بنانے اور معاشرے کو محبوس کرنے اور یر غمال بنانے کے سائنسی گُر ایجاد کر لئے ، اس کا سب سے کارآمد تجربہ ہٹلر نے جرمنی میں کیا جو بہت کامیاب رہا، اٹلی میں میسولینی نے یہ تجربہ دہرایا یہ کچھ اتنا سحر انگیز تھا کہ علامہ اقبال نے میسولینی پر ایک نظم تخلیق کی، کلٹ کس طرح معرض وجود میں آتے ہیں اس پر جیو نیوز کے معروف اینکر شاہ ر زیب خانزادہ نے ایک بھر پور پروگرام کیا، جب شور بہت ہو تو علمی آوازیں دب جایا کرتی ہیں سو یہ آواز بھی دب گئی، سننے والے تھے ہی نہیں یا لوگوں نے سننے سے انکار کر دیا، شاہ زیب نے دنیا کے بڑے بڑے سیاسی کلٹ کی بات کی مگر جیسا میں نے عرض کیا کہ غیر محسوس انداز میں پہلے مذہبی کلٹ وجود میں آئے اور ان کی پیروی میں سیاسی کلٹ پیدا ہو گئے ، مذہبی کلٹ ہوں یا سیاسی کلٹ یہ انسانی مسائل کی بنیاد پر ہی وجود میں آتے ہیں جب تشہیر ہو جاتی ہے کہ فلاں پیر صاحب کی دعا مستجاب ہو جاتی ہے تو لوگ اپنے رزق، اولاد، کاروبار صحت کے مسائل کے لئے ان سے رجوع کرتے ہیں،ان کے عقیدت مند بھی ہو جاتے ہیں نذرانے بھی پیش کرتے ہیں اور اندھا دھند ان کو پیشوا بھی مان لیتے ہیں، مذہبی کلٹ بنانے میں کچھ طور پر اپنا کام کرتی ہیں، سیاسی لوگ بھی اپنا،
تنظیمیں بھی پر اس وزن ڈالتے ہیں ، کچھ مزاروں کے بارے میں ایسا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مزاروں پر چھوٹے موٹے کلٹ بن جاتے ہیں جو اپنے وجود کو منوانے کے لئے کبھی کبھی قانون بھی توڑتے ہیں اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں کلٹ مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے ہوتے ہیں، یہ مقاصد سیاسی ، مذہبی اور سماجی ہو سکتے ہیں ان کے لئے تشہیر ایک کار آمد حربہ ہے کلٹ بنانے والوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے معاشرے کے کن لوگوں کو اپنا ہدف بنانا ہے ان کے کیا مسائل ہیں، ان کے عقائد کیا ہیں ان عقائد کو کیسے EXPLOITE کیا جا سکتا ہے، ان لوگوں کے معاشرتی اور سماجی رویے کیا ہیں ان میں کن کن روئیوں کو اچھالا جا سکتا ہے اور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، ہندوستان میں جتنے بھی کلٹ بنے وہ زیادہ طور پر مذہبی کلٹ تھے، یہ ضرور ہے کہ سیاست دانوں نے ان میں سے کچھ کو ہائی جیک کیا اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ، کلٹ کا ایک خاص دائرہء کار ہوتا ہے اور سماجی ماہرین نے جو اعداد و شمار جمع کئے ہیں ان سے درج ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں ان باتوں کی نشاندہی معروف ماہر سماجیات MIKE OLIVERI نے اپنی تحریروں میں کیا ہے
1 لیڈر ہمیشہ ٹھیک کہتا ہے
2 لیڈر پر تنقید یا لیڈر سے سوال کرنے کی سزا موت ہے
3 لیڈر کچھ بھی کرے، وہ جائز ہے خواہ وہ کتنی ہی نقصان دہ کیوں نہ ہو
4 لیڈر ہی سچائی کا سرچشمہ ہے باقی ہر چیز جھوٹ ہے
5 ماننے والوں پر لازم ہے کہ وہ لیڈر کی ہر بات کو قبول کر لیں اور اس کی پیروی کریں
6 لیڈر سے سوال جرم ہے
7 کلٹ کے فالوورز کبھی قبول نہیں کرتے کہ وہ کلٹ سے تعلق رکھتے ہیں
کلٹ کے فالوورز لیڈر کی ہر ہر ادا پر نثار ہوتے ہیں، اس کے چلنے پھرنے ، لباس ، طرز گفتگو، کو اپنایا جاتا ہے ERIC SAMOON نے لکھا ہے کہ کلٹ کی ابتدا ہمیشہ اس علاقے سے ہوتی ہے جو ایک زبان، عقیدے، تہذیب، معاشرت سے پیوست ہوں، یہ معاشرے کے قدرے کچلے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب تک وہ بزور قوت اپنے مخالفین کو کچل نہیں دیتے تب تک وہ فتح یاب نہیں ہو سکتے، ان افراد کا علم سے بہت تھوڑا تعلق ہوتا ہے، بد قسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے، صوبائیت اور تشدد کی جانب رجحان بہت زیادہ ہے اس لئے چھوٹے بڑے سیاسی اور مذہبی کلٹ موجود ہیں جو طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں چونکہ فوج سے ماضی میں بہت غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ یہ داغ دھونے میں ناکام رہے ہیں لہٰذا ہر طرف سے فوج پر ہی یلغار ہے فوج اس صورتِ حال کو سمجھ رہی ہے مگر عالمی دباؤ کی وجہ سے کوئی بڑا آپریشن نہیں کر پا رہی وقفے وقفے سے فوج کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کل ہی چار جوان جاں بحق ہو گئے عالمی منظر نامے میں یہ لکھا نظر آرہا ہے کہ خطے میں پاکستان کو اپنا کردار ادا نہ کرنے دیا جائے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان میں کسی بھی گروپ کو ختم ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تاکہ وقت آنے پر ان سے کام لیا جا سکے ، بد قسمتی یہ ہے کہ یہ الزام بھی فوج پر جاتا ہے کہ جن سیاسی طاقتوں کو فوج نے تخلیق کیا ہے فوج ان کو تباہ نہیں کر نا چاہتی۔
0