0

نریندر مودی اوربھارت کی معیشت

چار جون کو بھارت میں اٹھارویں لوک سبھا کے نتائج آنے سے پہلے نریندر مودی ایک ایسا مرد آہن اور کرشماتی لیڈر تھا جس نے دو تہائی اکثریت لیکر اپنے ملک کے سوا ارب لوگوں کی تقدیر بدل دینا تھی۔ مگر پھر ہوا یوں کہ اسے سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی۔ اب وہ تیسری مرتبہ بھارت کا وزیر اعظم بن کر جواہر لعل نہرو کی صف میں کھڑا تو ہوگیا ہے مگر اسکے لیے اگلے پانچ برس تک اپنی کمزور وزارت عظمیٰ کو سنبھالنا آسان نہ ہو گا۔ نریندر مودی نے الیکشن سے پہلے ایودھیا میں رام مندر کے باہر ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوے بڑے فخر سے کہا تھا کہ وہ ایک دیوتا ہے جس نے بھارت کو ایک طاقتور اور خوشحال ملک بنا دیا ہے ۔ اس روز اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے اگر چار سو سے زیادہ نشستیں جیت لیں توبھارت کی معیشت پہلے سے زیادہ برق رفتاری سے ترقی کرے گی مگر بھارتی عوام نے حکمران جماعت بھا رتیہ جنتا پارٹی کو لوک سبھا کے ایوان زیریں کی 543 میںسے 240 سیٹیں دیکر نریندر مودی کے خواب چکنا چور کر دیے۔ حکومت سازی کے لیے درکار نشستوں کی تعداد 272 تھی۔ بی جے پی کے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس نے کیونکہ 294 سیٹیں حاصل کی تھیں اس لئے نریندر مودی کو حکومت بنانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی مگر اگلے پانچ سال مودی کے لیے نہایت کٹھن ہوں گے۔ اس مرتبہ اسے اپنے انتخابی اتحاد میں شامل دو ایسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا جنکا سیکولر ایجنڈا نریندر مودی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے سے نہایت مختلف ہے۔ آندھرا پردیش میں 16پارلیمانی سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت تیلگو دیدسم پارٹی کے لیڈر چندرا بابو نائیدوجو اپنے صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی ہیںنے اگر چہ کہ BJP کی حمایت کا اعلان کیا ہے مگر وہ نہ صرف مودی کی مذہبی اور قوم پرست سیاست سے متفق نہیں بلکہ وہ اقتدار میں ایک بڑا حصہ لینے کے خواہش مند بھی ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کی دوسری اتحادی جماعت جنتا دل یونائیٹڈ جس نے بہار میں بارہ سیٹیں حاصل کی ہیں کے لیڈرنتیش کمار کے مطالبات پورے کرنا نریندر مودی کے لیے آسان نہ ہو گا۔ گذشتہ دس برسوں میں بغیر کسی کو خاطر میں لائے ایک مطلق العنان حکمران کی طرح حکومت کرنے کے بعد اب مودی کو اچانک دو منہ زور اتحادیوں کی مرضی کے مطابق کاروبار مملکت چلانا ہوں گے۔ کل تک دیوتا اور اوتار بننے کا خواب دیکھنے والے نریندر مودی کیا اب بیساکھیوں کے سہارے چلنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس سوال کا جواب تو وقت ہی دیگا مگر انتخابی نتائج میں چھپا ہوا اہم ترین سوال یہ ہے کہ بھارت کو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنانے والے کرشماتی لیڈر کو عوام سادہ اکژیت دینے پر بھی کیوںآمادہ نہ ہوئے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ارب پتی تاجروں نے تو مودی کے دونوں ادوار میں خوب مال سمیٹا مگر عام آدمی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ مودی کی حکومت خاص طور پر گزشتہ پانچ برس میں روزگار کے مواقع مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نریندر مودی کے سابق معاشی مشیر اروند سبرا منین نے کہا ہے کہ بھارت کی معیشت کا بنیادی چیلنج یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کو روزگار کیسے مہیا کیا جائے۔ سبرا منین کی رائے میں مودی حکومت کیونکہ اس محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی ہے اس لیے ووٹروں نے اسے مسترد کر کے اپنے غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔لوگوں کی برہمی کی دوسری وجہ معاشی عدم مساوات ہے۔ بڑے شہروں میں ایک طرف تیزی سے پھیلتی ہوئی زندگی کی سہولتوں سے محروم کچی آبادیاں ہیں تو دوسری طرف درجنوں کی تعداد میں ہر طرح کی آسائش سے آراستہ پنج ستارہ ہوٹل ہیں ۔ مودی حکومت کی معاشی کامیابی کا پروپیگنڈا تو بہت ہوا مگر ماہرین کے مطابق دیہاتوں میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا اور بچوں کے سکولوں کی فیس دینا کڑی آزمائش کے کام ہیں۔
ممبئی کے تحقیقاتی ادارے Center For Monitoring Indian Economy کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزگار تلاش کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ایک ارب کے لگ بھگ ہے جبکہ مودی حکومت نے صرف 430ملین افراد کو روزگار مہیا کیا ہے۔ باقی کے 570 ملین کو اس بات سے کوئی غرض نہ ہو گی کہ انکے ملک کی معیشت برطانیہ کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ جن لوگوں کو روزگار میسر ہے ان میں ایک بڑی تعداد کھیت مزدوروں اور دھیاڑی دار محنت کشوں کی ہے۔ انکی قلیل اجرتوں اور نا گفتہ بہ حالات کا مودی سرکار کی معاشی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں یقیناّّ بلندو بالا اپارٹمنٹ بلڈنگوں اور جدید لگژری گاڑیوں کی بھرمار ہے مگر یہ معاشی اصلاحات ایک مخصوص طبقے تک محدود ہیں۔ ماہرین کے مطابق انڈیا کی معاشی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مینو فیکچرنگ کے شعبے میں سست روی کا رحجان ہے۔ اس شعبے کی صنعتوں کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہیں۔ اگلے پانچ برسوں میں بی جے پی کی اتحادی جماعتوں نے اگر نریندر مودی کے معاشی ایجنڈے سے اتفاق نہ کیا تو یہ خلفشار انڈیا کے معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں