مہنگائی
ہم نے کتنے خواب بنے تھے یوں ہو گا ایسے ہو گا
وقت نے لیکن سب خوابوں میں ایسی آگ لگائی
آٹا، چاول، چینی، دالیں، تیل سبھی کچھ مہنگا ہے
کس سے کہیں اب جا کر بھیا مار گئی مہنگائی!
دنیا بھر میں عموماً اور ہمارے معاشرے میں خصوصاً رشوت کی دیمک ملک کو چاٹ رہی ہے اور کسی طرح اس کا علاج ممکن نظر نہیں آتا۔ قیاس ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ’’وباء‘‘ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ہم آپ سے عرض کریں کہ وہاں بھی انسان بستے ہیں لہٰذا وہاں بھی رشوت اپنی کارستانی دکھا رہی ہے فرق اتنا ہے کہ یہاں رشوت بڑے مخصوص انداز میں حاصل کی جاتی ہے مثلاً ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بہت سے اراکین مختلف طرح کی تجارتوں کے کرتا دھرتا ہوتے ہیں وہ پارلیمنٹ میں اس طرح کے قوانین بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں کہ مختلف اداروں کے پس منظر شریک کار (Sleeping Partner)کی حیثیت سے ان کے ذریعے ان کے اداروں کو فائدہ پہنچے۔ اس کے علاوہ تحفوں کی شکل میں بھی رشوت وصول کی جاتی ہے۔ یہاں ہم برطانیہ کے ایک ایشین ریڈیو سٹیشن کا ذکرکریں گے جو براڈ کاسٹنگ اتھارٹی سے ہر سال اپنے سٹیشن کے لائسنس کی تجدید کراتے ہیں کسی بھی خالی لائن کے لئے اور لوگ بھی حصول کی درخواست دیتے ہیں لیکن اتھارٹی میں موجود ایک خاتون مذکورہ بالا ریڈیو اسٹیشن کو تمام درخواست گزاروں کی درخواست کی تفصیل بنا دیتی تھیں اور یہ ریڈیو اسٹیشن بڑھ چڑھ کر اپنی درخواست میں مزید خدمات کا ذکرکر دیتا تھا اس طرح پھر لائسنس اسی ریڈیو اسٹیشن کو مل جاتا تھا ایک بار کسی طرح ریڈیو اتھارٹیز کو اس بات کا علم ہوا اور تحقیق میںریڈیو کے کرتا دھرتا نے بتایا کہ میں تو ان خاتون کر ہر سال چھٹیوں پر جانے اور کسی اور ملک میں چھٹیاں گزارنے کے اخراجات ادا کرتا تھا میں نے انہیں کبھی رشوت نہیں دی نتیجتاً اس ریڈیو ڈائریکٹر کو سزا ہوئی اور ایک مقامی اخبار میں موصوف کی حوالات میں تشریف فرما ہونے کی تصویر بھی شائع ہوئی لیکن ہمارے ملکوں میں رشوت لینے اور رشوت دینے کے لئے کوئی ’’ذریعہ‘‘ عموماً استعمال نہیں کیا جاتا۔ براہ راست راشی افسر رشوت دینے والے سے ’’مک مکا‘‘ کر لیتاہے۔ اس پس منظر میں آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ پہلے کی طرح سرکاری افسران اراکین پارلیمنٹ اور اراکین کیبنٹ کے اثاثے ظاہر کرے اور اس ذیل میں سختی سے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرے۔ آئی ایم ایف مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ذیل میں ایک ’’پورٹل‘‘ بنائے جو رشوت ستانی کی سختی سے چھان بین کر سکے۔ آئی ایم ایف نے حکومت پر زور دیا ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے افسران کے اثاثے اور ان کی تفصیل ’’عام‘‘ کرنے کی کوشش کرے تاکہ عوام کو علم ہو سکے کہ ہمارے افسران ’’کیاکیا کرتے ہیں‘‘ اس طرح عوام پر ظاہر ہو جائے گا کہ عفریت کس طرح عوام کو اپنے نرغے میں لیتا ہے اور کس طرح یہ افسران حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ خدانخواستہ ہر وزیر، ہررکن اسمبلی، ہر افسر رشوت خور نہیں ہے لیکن اپنے طبقے کے دوسرے ساتھیوں کے ’’کارنامے‘‘ اسے بھی عوام کی نظروں میں مشتبہ کر دیتے ہیں۔ مزید قرض دینے سے پہلے آئی ایم ایف رشوت کے ذیل میں سخت پریشان ہے اور اس نے ہماری حکومت پر حتمی زور دیا ہے کہ اس ذیل میں ہماری حکومت سخت اقدام کرے۔ اب حکومت کس طرح آئی ایم ایف کو مطمئن کرتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ رشوت، روپیہ، پیسہ، تحائف اور ’’سفارشوں‘‘ کی شکل سے آگے بڑھ کر اور بہت طریقوں سے بھی وصول کی جاتی ہے۔ مثلاً امتحان کے زمانے میں پورے پورے امتحانی مراکز رشوت کے بدلے میں ’’نقل‘‘ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ اقرباء پروری بھی رشوت کی ایک شکل ہے۔ لوگ اپنے رشتوں کے تعلق سے بھی افراد کو نئی نئی ملازمتوں پر بٹھا دیتے ہیں۔ عرض کہ تشوت لینے والے کسی نہ کسی طرح رشوت وصول کر لیتے ہیں۔ کچھ انسداد رشوت کے ادارے بھی رشوت میں ملوث ہو سکتے ہیں اور رشوت لینے والے کی گلو خلاصی کے لئے رشوت وصول کر لیتے ہیں۔ اس کو اُردو کے نامور مزاحیہ شاعر دلاور فگار نے اس طرح بیان کیا تھا۔
لیکے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
ہمارے مذہبی رہنما، دین سے محبت کرنے والے ہمہ وقت لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ الراشی و المرتشی کلا ہما فی النار یعنی رشوت لینے والا اور رشوت دینے والو دنوں جہنم کا ایندھن بن جائینگے لیکن کون سنتا ہے فغان ِدرویش۔ حکومت آئی ایم ایف کو کسی طرح بھی مطمئن کر دے لیکن رشوت کی دیمک ہمارے معاشرے میں اس طرح پھیل چکی ہے کہ کسی طرح بھی اس کا سدباب ممکن نہیں ہے اس کا علاج صرف اور صرف معاشرے کے دل میں ’’خوف خدا‘‘ پیدا کرنا ہے۔ کیا حکومت اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائے گی ہماری دعا ہے کہ حکومت کوئی قدم اٹھائے اور اسے کامیابی مل جائے۔