جب سے پاکستان ظہور پذیر ہوا ہے اس کی آبادی قدرتی رفتار سے بڑھتی رہی ہے،اگر چہ بیرونی طاقتوں نے بہت کوشش کی کہ اس بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتار کم کی جائے، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھلیں، لیکن ہمارے نہایت سمجھدار اور خدا کی مرضی کو سمجھنے والے علماء اور امام مسجد اور حکمرانوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف مظاہرے کیے ۔ محب وطن سیاستدانوں اور حکمرانوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں کھل کرتونہیںلیکن کبھی کبھار دبے لفظوں میں آواز اٹھائی۔لیکن عوام الناس نے خاندانی منصوبہ بندی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ نسبتاً ایک چھوٹی تعداد نے جو کچھ تعلیم یافتہ تھے اور شہروں میں آبادی کے دبائو سے متاثر تھے، انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جس سے آبادی کے بڑھنے کی رفتار میں کسی قدر کمی ہوتی رہی۔لیکن اکثریت نے جو اولاد کو ایک نعمت اور اپنے بڑھاپے کا سہارا سمجھتی تھی یا آمدنی کا ذریعہ ، بچوں کی تعداد پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ حکومت نے ایک محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کے فروغ کے لیے بنایا جو لوگوں میں شعور اور آگاہی پھیلانے کے کیے نہیں بلکہ اشتہاروں سے ملنے والی کمیشن کی وجہ سے بے معنی اور فرسودہ پیغام دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا رہا۔اور مخیر ممالک سے جو دوائیں وغیرہ آتی تھیں ان کو سمگل کر کے دو فائدے اٹھاتے رہے۔ایک جعلی رجسٹروں میں جعلی اندراج کر کے اور دوسرے ادویات کی ’برآمد سے۔‘ اشتہار دینے کے بھی دو فائدے تھے: دوسرا یہ تھا کہ غیر ملکی امداد دینے والے ممالک اور ادارے بھی مطمئین کیے جا سکیں کہ حکومت ان کی امداد صحیح طور پر استعمال کر رہی ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومتیں آبادی کے بڑھنے کو اپنے لیے ایک مسئلہ تو سمجھتی ہیں، لیکن مذہبی رہنمائوں کے ڈر سے خاندانی منصوبہ بندی پر بات نہیں کرتی ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ ایوب خان کی حکومت گرانے میں خاندانی منصوبہ بندی کی مہم نے ایک انتہائی منفی کردار ادا کیا تھا۔تازہ ترین اندازوں کے مطابق، پاکستان کی آبادی جو 1970 میں پانچ کروڑاکیاسی لاکھ تھی، سن 2023 میں ۲۴ کروڑ ۵ لاکھ ہو گئی اور اب اندازہ ہے کہ سن 2050 میں ۳۶ کروڑ ۷۸ لاکھ ہو جائے گی۔ کیا ہماری زرعی پیدا وار اور خوراک کے وسائل بھی اسی تیزی کے ساتھ بڑھیں گے؟ لگتا تو نہیں پر شاید؟ اگر نہیں بڑھیں گے تو مہنگائی، بے روزگاری ، متعدی بیماریاںاور قحط تو ضرور بڑھیں گے،جو حضرت تھامس مالتھس کے قول کے مطابق بے تحاشا بڑھتی آبادیوں کا آخری حل ہے۔آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آئندہ ۲۶ برسوں تک بھارت کی آبادی ایک ارب ستر کروڑ تک پہنچ جائے گی جو اسے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بنا دے گا اور چین دوسرے نمبر پر آ جائے گا جس کی آبادی ایک ارب ۳۱ کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔امریکہ تیسرے نمبر پر 37.5 کروڑ، نائجیریا 36.78 کروڑ ۔پاکستان پانچویں پوزیشن برقرار رکھے گا۔چونکہ چین اور امریکہ تو اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں کی خوراک ، روزگار اور دوسری ضروریات کو سنبھال لیں گے، مہنگائی، قحط، اور بیماریوں سے ہند و پاک اور نائجیریا کی آبادیاں کم ہوں گی۔
پاکستانی حکومتیں اس طرح بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے پاکستان میں آبادی کم کرنے کے دوسرے غیر اعلانیہ اور غیر رسمی طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ہماری مراد بجائے شرح پیدائش کو کم کرنے کے، شرح اموات کو بڑھا کر۔ حکومت اس معاملے میں باری تعالیٰ پر پورا یقین رکھتی ہے کہ زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ کوئی مر سکتا ہے اور نہ کوئی جی سکتا ہے۔اس لیے ہر صور ت میں حکومت بے قصور ہے۔سرکارشرح اموات بڑھانے کے لیے زیادہ انحصار قوانین نہ بنا کر، قوانین پر عمل نہ کرنے والوںسے مٹھی گرم کروا کر، اور شہری سہولتوں پر قومی خزانہ لٹوا کر، اور دوسرے حربوں سے شرح اموات کو بڑھا کر آبادی کی تیز رفتاری کو قابو میں لانے میں لا شعوری مدد کرتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے:
۱۔ ٹریفک : ہر سال ڈبلیو ایچ او کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً ۳۰ ہزار اموات ٹریفک کے حادثات سے ہوتی ہیں۔ حکومت کا اس میں بہت بڑا کردار ہے۔ پولیس، خصوصاً ٹریفک پولیس کا جورویہ ہے کہ چالان کرنے کے بجائے کچھ رقم لے کر خلاف ورزی کرنے والوں کو چھوڑ دیتے ہیں، تو عوام میں ٹریفک کے قوانین اور ہدایات پر عمل کرنے کی ترغیب ہی نہیں پیدا ہوتی۔حادثات کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں بغیر تربیت کے اور بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور، ایسی گاڑیاں جن کی بریک، ٹائر، لائٹیں خراب ہوں انکو نہیں پکڑا جاتا۔ تنگ اور ٹوٹی ہوئی سڑکیں، اول تو اشارے ہی نہیں ہوتے یاان پڑھ ڈرائیور ٹریفک کی ہدایات نہیں پڑھ سکتے، جو پڑھ سکتے ہیں وہ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ نوجوان موٹر سائکلیں لال بتی پر رکنا اپنی مردانگی کو چیلنج سمجھتے ہیں۔سڑکوں پر لین کی سفید پٹیاں نہ ہونا،چوراہوں پر ٹوٹے ہوئے سگنل، اور عوام میں گاڑی چلانے کے محفوظ طریقوں کی لا علمی ، مثلاً موٹر سائکلسٹ اور سائکل سواروں کا حفاظتی ٹوپی استعمال کرنے کی وجہ نہ جاننا اور استعمال نہ کرنا، وغیرہ۔گاڑی میں حفاظتی بند باندھنا بھی ایک نا مردانگی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔
۲۔عالمی ادارہ صحت کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں خود کشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے جو لازماً حکومتی غیر ذمہ وارانہ حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ شرح اموات میں اضافہ ملکی آبادی کو کم کرنے میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کرتا ہے۔حکومت اپنی کوتاہیوں سے اور معاشی حالات میں بہتری نہ لا کر خود کشی کے رحجان کو خاطرخواہ تقویت دے رہی ہے۔یہ بھی آبادی کو کم کرنے کی ایک شکل ہے ۔
۳۔ بچوں میں مناسب خوراک نہ ملنے سے ، بچپن میں اموات بڑھتی ہیں۔ اسی لیے حکومت اس مسئلہ پر توجہ نہیں دیتی۔اگر اتنے بچے پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟یہ فلمی ڈائیلاگ بہت دل کو لگتا ہے لیکن غریب آدمی کے پاس ایک ہی تو راحت ہے، وہ یہ بھی نہ کرے تو کیا کرے؟ اگرزیادہ بچے پیدا ہو نگے تو سب تو بچتے بھی نہیں، یہ سب کو پتہ ہے۔اگر غریب کا بچہ بچ بھی جائے تو ایک دن کچھ کما لائے گا۔ اگر وہ ٹریفک، نشہ آور ادویات، جنسی بیماریوں، اور خود کشی سے بچ جائے توفائدہ ہی فائدہ۔ اگر نہ بچا تو حکومت تو خوش ہو گی!
۴۔ پولیس مقابلوں میں اموات۔ پولیس مقابلوں میں کئی لوگ مارے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پولیس بھی اپنے تئیں حکومتی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اپنا حصہ ڈالتی ہے، یعنی شرح اموات میں اضافہ کر کے۔ایک مثال پولیس کے افسر رائو انوار کی لیجئے۔ موصوف کی دوبئی میں دو درجن سے زیادہ جائیدادیں پائی گئی ہیں۔ اب اس خبر کے تناظر میں یہ بھی ملاحظہ ہو کہ رائو انوار کے ایک پولیس مقابلے میں ایک ایسا خوبرو جوان مارا گیا جس نے حضرت آصف زرداری کی صا حبزادی کے ساتھ رومانوی تعلقات بنائے تھے۔رائو انوار کے پاس بے اندازہ دولت کہاں سے آئی یہ تو وہ ہی جانتے ہوں گے۔ البتہ ایک خبر ہے کہ موصوف چار سو سے زیادہ پولیس مقابلوں میں شریک تھے۔ظاہر ہے کہ ان مقابلوں میں شریک سب پولیس والوں کا بھلا ہوتا ہو گا؟
۵۔ ہسپتالوں اور شفا خانوں کی تعداد کم ہونا۔اور دیہی علاقوں میں ایمبولینسز کا نہ ہونا جس سے زیادہ تر حاملہ خواتین کی اموات ہونا۔ انٹر نیٹ کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں شرح اموا ت کو بڑھانے میں صحت عامہ کی سہولتوں کی شدید کمی بھی ہے۔یعنی سوچیے کہ ۲۴ کروڑ کے ملک میں 2021 میں چھوٹے بڑے سب ملا کر کل 1274ہسپتال تھے، 5,558 BHUs تھے، 736 دیہی ہیلتھ سنٹر تھے، 5,802 ڈسپنسریاں تھیں، 780 زچہ بچہ کے مراکز تھے اور 416 دمہ کے علاج کے مراکز تھے۔ ان سہولتوں کا ناکافی ہونا اس لیے اور بھی زیادہ پریشان کن ہے کہ اکثر اوقات ان میں معالج کی کمی ہوتی ہے، دوائیاںنہیں ملتیں اور یہ آبادی کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔طبی معالج گاہوں میں نرسوں اور دیگر مدد گاروں کی کمی اورمریضوں اور لواحقین کے لیے سہولتوں کا نہ ہوناحالات کو بد سے بد تر بناتے ہیں۔دور دراز علاقوں میں حاملہ خواتین ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں۔
۶۔ جان بچانے والی دوائوں کا نہ ہونا یا دو نمبر دوائوں کا فروخت ہونے دینا اموات بڑھانے کا ایک اور طریق کار ہے۔ حکومت کے کارندے دوائوں کی کمپنیوں سے اپنا بھتہ وصول کر کے انہیں بے کار اور غیر معیاری دوائیں بنا کر بیچنے دیتے ہیں۔ ہماری حکومت آبادی کم کرنے کا کوئی طریقہ چھوڑتی تو نہیں۔
۷۔ لوگوں کو تعلیم صحت نہ ہونے دینا۔کہتے ہیں پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس لیے اگر عوام الناس کو صحت بہتر کرنے، بیماریوں سے بچنے، اور خصوصاً وبائوں سے نبٹنے کی تعلیم نہ دی جائے تو شرح اموات میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ایک شعبہ جس میں آگاہی نہ ہونے سے بہت سی بیماریاں پھیلتی ہیں وہ غذا ئیت کا ہے۔مثلاًذیابیطس، پیٹ کی بیماریاں، موٹاپا، اور اس کی وجہ سے ہونے والی سینکڑوں بیماریاں ، نہ صرف توقع حیات کوکم رکھتی ہیں، وہ طبیبوں، جعلی حکیموں اور دیگر معا لجین کے روزگار کا سبب بھی بنتی ہیں۔ شرح اموات میں خاطر خواہ اضافہ اپنی جگہ۔پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کی ہدایت پر ہر ضلع میں محکمہ صحت عامہ اور ان میں باقی عملہ کے علاوہ تعلیم صحت کے افسر بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان افسروں کی کار کردگی صفر ہوتی ہے۔ وہ صرف تنخواہ لیتے ہیں اور بڑے افسروں کے ذاتی کام کرتے ہیں۔بجٹ میں جو تھوڑا بہت ان کے لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ تعلیمی مواد بنائیں، وہ رقم ان کے بڑے افسر چائے پانی پر خرچ کر دیتے ہیں۔صحت عامہ پر بجٹ کے اخراجات نہ کر کے نہ جانے شرح اموات میں کتنا اضافہ ہوتا ہو گا؟
۸۔ پولیس گردی کی وجہ سے اموات میں اضافہ۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں پولیس عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔پاکستان کی پولیس عوام کی جیبیں ہلکی کرنے کا کام احسن طریقے سے کرتی ہے۔یہی ان کا مشن ہے اور مقصد۔ ملک میں عموماً، کراچی میں خصوصاً، پولیس کی بے پرواہی سے ڈاکہ زنی، چوری چکاری اور بھتہ خوری عروج پر ہے۔ ان واقعات میں جانی نقصان بھی عام ہے۔بڑے لوگ پولیس سے وہ کام لیتے ہیں جو کسی زمانے میں بدمعاش اور غنڈے کیا کرتے تھے۔اس طرح بعد میں پکڑے جانے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔
۹۔ اشیائے خوردنی اور تیار کھانے کی چیزوں کی فروخت پرکوئی پابندی نہیں خواہ اس میں کتنے ہی مضر صحت اجزا شامل ہوں۔ مثلاً مردہ مرغیاں، حرام گوشت بغیر کسی پابندی کے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ایک زمانے میں محکمہ صحت نے فوڈ انسپکٹر لگائے تھے جو پرچون کی دوکانوں پر جا کر عموماً مٹھی گرم کرتے تھے۔اور علامتاًکچھ مصالحے اور دوسری چیزوں کے نمونے بنا کر لے جاتے تھے۔ بالآخر ان کی پوسٹیں ختم کی گئیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ حکومت نے خوراک کی فروخت پر نگہداری کا نظام ہی ختم کر دیا۔ ویسے بھی اگر اس وسیع و عریض نظام سے شرح اموات بڑھتی ہے تو اور کیا چاہیے؟ اسی طرح ہر بڑی عید کے بعد جو جانوروں کے باقیات سڑتے ہیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں، ان کا بھی سرکاری سطح پر سد باب نہیں کیا جاتا۔یہ سب اسی بڑی تصویر کا حصہ ہے۔
0