میاں آصف علی
قحط الرجالی کے اس ماحول میں عدم اعتمادی کے جالے ملک کے کرہ ارض میں اتنے پھیل چکے ہیں کہ ان جالوں کو سر ِ دست ہٹانا ملکی فضاء کو شفاف کرنا خاصا مشکل کام ہے ماضی میں اس کام کے لئے کچھ ہستیوں نے خود کو وقف تو کیا مگر اُن کی تر ِ دامنی کو نظریں پہچان نہ سکیں یوں تار ِ عنکبوت کی طرح عدم اعتماد الزام تراشی کے کپڑے پہنے ابھی بھی محو ِ سفرہے مزے کی بات یہ ہے کہ تعلیمی شعور بڑھنے کے باوجود بھی اعتماد کا یہ فقدان خاتمے کی جانب نہیں بڑھ رہا ہے بلکہ شدید سے شدید تر صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ کفار نے اللہ کے پیغمبروں کے پیغامات کو جھٹلایا تھا اور اسی سرکشی کی وجہ وہ درد ناک عذاب سے دوچار بھی ہوئے گویا سچائی اور حق پرستی کو جھٹلانا ،نظر انداز کرنا افعال ِ ناحق پر منطبق ہوتا ہے بنی نوع انسان کوچائیے کہ وہ جھوٹ اور ناحق سے گریز کرتے ہوئے احکام ِالہٰی کو مد نظر رکھے مسلم ریاست ہونے کے باوجود ریاستی اُمور اور عوامی مسائل کے حوالے سے وطن ِ عزیز کے سیاست دانوں نہ جانے کیوں سچ سے گریز کیا جب بھی اقتدار ملا ان کے عوامی وعدے مفادات کی آندھیوں کی نذر ہو گئے سیاست پر غلبہ پانے کے بعد ان کے اثاثہ جات بڑی تیزی سے بڑھے جبکہ اتنی ہی تیزی سے سفید پوشی خط ِ غربت سے نیچے زوال پذیر ہوئی ہے اس زوال کے ذمہ دار وقت کے آئینے میں نمایاں ہونے کے باوجود آج بھی عوامی اعتماد کے ساتھ ایوان کی نشستوں پر براجمان اپنی نسلوں کے لئے مفادات کی شطرنج کھیل رہے ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان پر عوام کا عدم اعتماد کیوں نہیں پیدا ہوتا ؟شاید اس لئے کہ ان کی پشت پر ان دیکھی طاقتوں کا ہاتھ ہے یہ وہی ہاتھ ہیں جنہوں نے ایوب آمریت کے خلاف اٹھنے والی ہماری قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو جسے مادر ملت کہتے زبان نہیں تھکتی انھیں ہرایا گیا تھااس حوالے سے بات کرتے ہوئے وجاہت مسعود بتاتے ہیں 4جنوری 1965کو گوہر ایوب اور اس کے حواری غنڈوں نے گمنام چہروں والی عوام کو رزق ِ خاک کر دیا جن پر الزام تھا کہ ان خاک نشینوں نے ایوب کی بجائے مادر ِ ملت کو ووٹ دیا تھا اس جرم ِ جمہوریت پر موت کی سزا آمریت کاتحفہ تھاجو ذوالفقار علی بھٹو کے گلے کا پھندا بھی بنا جو محمد خان جونیجو کی معزولی کا سبب بھی بنا جس کی وجہ سے نواز شریف جلا وطنی اور نااہلی کی دار پر چڑھائے گئے جمہوریت کا ڈرامہ دنیا کو دکھانے کے لئے ہم لوگ رچاتے ہیں بصورت ِ دیگر تو قائد کے اس جمہوری وطن میںمحکوم جمہوریت برسوں سے رائج ہے کبھی صدارت کے منصب پر تو کبھی عوامی منصب پر اور زیادہ تر وردی میں ملبوس دیکھی جا چکی ہے۔مجبور و بے بس عوام نے کبھی کسی ایک پر بھی عدم اعتماد نہیں کیا بلکہ ان کا بازو بن کر چلتے رہے ہیںعصر ِ حاضر کی کرشمہ سازی کہیئے اسے کہ محکومیت کے لبادے میں لپٹی فرمانبردار جمہوری روایات نے زباں بندی کا در ہلکا سا کھولا ہے مگر کئی واقعات میں اختلاف کی بنیاد پر کی گئیں وارداتیں حد ِ ادب کو عبور کر کے اخلاقیات کا جنازہ نکال رہی ہیں جن میں چیف جسٹس پر عدم اعتماد ہے تحریک ِ انصاف کا پاک فوج کے بعد عدلیہ پر یہ غیر اخلاقی ،بلاجواز حملہ ملک دشمن ایجنڈے کا قسط وار سلسلہ لگتا ہے میرے خیال میں 9مئی کو کی گئی دہشت گردی کو اگر بروقت انجام مل جاتا تو ریاستی استحکام کو مزید تقویت نصیب ہوتی پھر بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بھی ہماری ریاست کو آسان نہ سمجھتے حیرت ہے کہ اسلام آباد کے قاضیوں کو ،عدل و انصاف کا پرچم بلند کرنے والوں کو تحریک ِ انصاف کے جلسے میں بانی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں لہراتا سائفر کیسے نظر نہیں آیا ؟اس انہونی پر جسٹس منیر مرحوم یاد آگئے جو طاقت وروں کی مرضی سے فیصلے لکھا کرتے تھے اور سنایا کرتے تھے عدلیہ کی کئی مہربانیوں کے باوجود بھی عمران خان اور ان کے حامیوں کا عدلیہ پر عدم اعتماد مقام ِ حیرت ہے عمران حکومت میں مخالفین کے ساتھ عدلیہ اور حکومت دونوں کا طرز ِ عمل دیکھیں فرق صاف نظر آنے لگے گا تحریک انصاف کو اپنی مرضی اور منشاء کے فیصلے اچھے لگتے ہیں اور یہ جماعت کسی بھی دوسرے حریف کو اپنے برابر کھڑا دیکھنے کی کبھی بھی خواہش مند نہیں رہی اس رحجان کو تکبر کے زمرے میں لانا وقت کی سچائی ہے جس سے انکار ممکن نہیں عدلیہ پر عدم اعتماد کی یہ صورت برسوں سے جاری ہے سچ پوچھیں تو عوامی اعتماد کسی بھی ادارے کو جن میں سیاسی جماعتوں سے لیکر عدلیہ بھی شامل ہے حاصل نہیں بے یقینی کی یہ کیفیت عرصہ دراز سے قیام پذیر ہے اسی لئے تو صحن ِ چمن میں ہمیں اب کہیں بھی اعتماد کے گھونسلے نظرنہیں آتے اعتماد کا یہ فقدان اس تاریخی واقعے کے حوالے سے آپ کی نذر ہے کہتے ہیں کہ بادشاہ جلال الدین اکبر نے ماں سے پوچھا اماں میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں ،اتنی عظیم سلطنت ہے ساری رعایا ڈرتی ہے مگر میری زوجہ مجھ سے قطعی خوف زدہ نہیں ہے کیوں ؟اماں نے بڑی سادگی سے جواب دیا اُس نے تمھیں برہنہ دیکھا ہوا ہے اسی لئے تم سے نہیں ڈرتی ۔یعنی یقین کی بے پردگی سے اعتماد ہجرت کر جاتا ہے ریاست میں پھیلتے اس لمحۂ موجود کا تلاطم جو عدم اعتمادکے بہائو میں ریاست سے ٹکرائو کا ارادہ لئے ہوئے ہے معتبر اداروں کا اس کا تدارک کرنا حب الوطنی ہو گا، گرانقدر اداروںسے منسلک اہلکاروں کی سوچ اور رویوں پر منحصر ہے کہ وہ کیسے اس کا ادراک کرتے ہیں ۔
0