0

میرے لوگ!

آج سیاست پر بات نہیں ہوگی، چلیں آج ہم اپنا چہرہ ہی دیکھتے ہیں، اس آئینے میں جو سچ کا آئینہ ہے اس آئینے میں دیکھتے ہیں کہ ہم کتنے سچے ہیں کتنے جھوٹے ہیں، بات شروع کر لیتے ہیں ہندوستان میں محمد بن قاسم کی آمد سے ، محمد بن قاسم ہندوستان کا باشندہ تو تھا نہیں، وہ تو حجاج بن یوسف کے کہنے پر ہندوستان پر حملہ آور ہو گیا، یعنی وہ بھی دیگر حملہ آوروں کی طرح ہی تھا، راجہ داہر کو شکست ہوئی اور محمد بن قاسم ہندوستان سے تیرہ ہزار عورتیں لے کر چلا گیا جن میں راجہ داہر کی دو کنوراری بیٹیاں بھی تھیں، خلیفہ کو بتایا گیا تھا کہ سندھ سے تازہ مال آرہا ہے، چکھا تو پتہ چلا کہ استعمال شدہ ہے، قہر شاہی کو ٹوٹنا ہی تھا سو ٹوٹا، ہماری تاریخ کے ایک بڑے ہیرو کو بوری میں بند کرکے دربار میں حاضر کیا گیا کیسا انصاف کہاں کا انصاف، خلیفہ کے حکم کو قانون کا درجہ حاصل تھا جس پر اسلامی قوانین کی سنہری پٹی چڑھی ہوئی تھی، یہ ابتدا تھی اس تاریخ کو ہمارے دیسی باریش مورخین نے اسلامی بنا کر پیش کیا یہ علمی خیانت تھی، اسی علمی خیانت نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی، حکم یہ تھا کہ جو بتایا جائے وہ مان لیا جائے ، ہزار سال گزر گئے اور مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہندوستان میں بادشاہوں کی حکومت ہے یا اسلام کی، حملہ آوروں کے نام چونکہ عربی یا فارسی کے تھے لہٰذا باور کر لیا گیا کہ مسلمان حکمران ہیں تو یہ اسلامی ہی ہوگی، مجھے حیرت ہے کہ ہندوستان میں آنے والے مبلغین کو بڑے القابات اور خطابات سے نوازا جاتا ہے ان میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ بادشاہی نظام اسلامی نہیں ہے، کسی نے نہیں کہا کہ ہندوستان میں تصوف کو اسلام کے نام پر بیچا جا رہا ہے، ان پورے ہزار سالوں میں کسی بھی حکمران نے کبھی کوئی تعلیمی نظام رائج ہی نہیں کیا، گویا تعلیم کی ضرورت ہی نہیںتھی، ایک چہرہ ایسا نہیں جس نے تعلیم کی بات کی ہو، جس کو ذرا سی عربی فارسی آئی وہ شاعر بن گیا کہ دربار میں یا تو مسخروں کو بلایا جاتا تھا یا شاعروں کو ان ہزار سالوں میں رعایا تو غلام تھی اور غلام خدمت کرتے ہیں سوچتے نہیں، یہ مغلوں کے لئے سنہرا دور ہوگا مگر عام لوگوں کے ایک غیر اعلانیہ جیل تھی جس میں چلنے پھرنے اور روزی تلاش کرنے کی آزادی تھی ہم جانتے ہیں کہ درباروں میں کبھی کسی کاریگر کی پہنچ نہیں تھی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم کہتے ہیں کہ برِ صغیر کی ایجادات لوٹا اور منجی ہے، تو یہ ہزار سالہ تاریخ میں بادشاہ نظر آتے ہیں شہزادے ہیں مگر عوام نام کی کوئی چیز نہیں تھی، چنگیز خان کا نام علی احمد ہوتا تو اس کو بھی بڑا جرنیل کہا جاتا CROWN نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے ہندوستان کا کنٹرول 1958 میں لیا، ایسٹ انڈیا کمپنی اس سے پہلے ہندوستان میں تعلیمی ادرے، سڑکیں، اور ریلوے بنا چکی تھی، چلیں کہہ لیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی تھی اس کا کاروبار سنگاپور میں بھی تھا تو یہ کام اس نے اپنی سہولت کے لئے کیا، مگر ہندوستان جب CROWN کے ماتحت آیا تو انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے 1958 سے لے کر 1947 تک ہندوستان کے لئے ACTS 196 پاس کئے یہ ہزار سال کی تاریخ کے بعد پہلی بار ہوا کہ ہندوستان میں قانون کی عمل داری نظر آئی اور 1885 میں آل انڈیا کانگریس بنا دی گئی اور 1915 میں ہندوستانیوں کو ایک قوم کہا گیا، اس سے پہلے تو پورے ہندوستان میں کچھ مسلم ریاستیں تھیں اور بہت سے راجواڑے آل انڈیا کانگریس ہو یا آل انڈیا مسلم لیگ دونوں کے رہنما ان تعلیمی اسکولوں سے سند یافتہ تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنائے تھے، پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی برطانیہ کانگریس اور مسلم لیگ کو ملک حوالے کرنے کا عندیہ دے دیا تھا اور پہلی بار یہ سمجھا گیا تھا کہ اس ملک میں انسان رہتے ہیں اور ان کو ایک نظام کی ضرورت ہے، یہ احساس ہزار سال تک مسلم حکمرانوں کو ہوا نہ ہمارے مبلغین کو جو بغداد سے نکل کر ہندوستان میں چین کی بانسری بجا رہے تھے تو کیا مان لیا جائے کہ ہزار سال تک ہمارا کوئی سیاسی اور سماجی چہرہ تھا ہی نہیں، پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگ عظیم تک برطانیہ کو بڑے CRISISES سے گزرنا پڑا مگر جو کام برطانیہ کی پارلیمنٹ نے 1858 نے شروع کیا تھا 1947 میں مکمل ہو گیا،1947 کے بعد نہ ہمارا سیاسی چہرہ بنا نہ سماجی، پاکستان میں سندھی ، پنجابی، پختون اور بلوچ شناخت رہی ان تمام نے مل کر بنگالیوں کے خلاف سازش کی اور بنگلہ دیش بنا دیا، اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان جو 1847 میں بنا وہ ہمارا پاکستان نہ تھا 1970 میں ہم نے نیا پاکستان بنا دیا، اس سازش میں پنجابی زمیندار، سندھی وڈیرہ ، پختون ملک اور بلوچ سردار شامل تھے، تحریک پاکستان کی ابتدا ءمیں جب اسلام بیچ دیا گیا اور عطا اللہ بخاری جیسا شعلہ بیاں مقرر ملا تو تحریک میں جان پڑی کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کی تحریک سے کوئی غرض نہ تھی بنگال ساتھ تھا سندھ ساتھ تھا مگر پنجاب میں تحریک 1946 میں شروع ہوئی، یہ سارا کام زمینداروں اور وڈیروں کا ہی تھا، عوام کا نہ تھا تقسیم کے بعد ایک نیا سیاسی اسلام ایجاد ہوا، ہم اسی سیاسی اسلام کے زیر اثر چلے گئے، فرد نے اپنے بارے میں کچھ نہیں سوچا، مولوی اشرافیہ کے لئے مذہبی سوچ بناتی ہے اشرافیہ اس کو استعمال کرتی ہے، یہ بات فرد کو سمجھ نہیں آتی، ایک مقولہ ہے انگریزی کا
TO ACT WITHOUT CLEAR UNDERSTANDING
TO FORM HABITS WITHOUT INVESTIGATIOS
TO FOLLW A PATH WITHOUT KNOWING
IS THE BEHAVIOUR OF MULTITUDE.
دروغ بر گردن راوی ، سنا ہے ایک نواب نے اپنے دربار کے ایک مسخرے کو حکم دیا کہ وہ زینہ اترنے سے پہلے وہ نواب صاحب کو ہنسا دے ورنہ اس کی گردن مار دی جائیگی، گردن ماری گئی یا نہیں اس سے قطع نظر فرد کی حالت پر غور فرمائیں اور پھر اس بات پر بھی غور فرمالیں کہ مولوی کے کہنے پر ہم کسی پر گستاخی رسول کا الزام لگا کر مار دیتے ہیں، اور قتل کا الزام کبھی کسی پر نہیں لگا، سوچ نہ ہو ایسا ہی ہوتا ہے سوچ کا واضح ہو نا، کسی بات کو ایمان بنانے سے پہلے تحقیق نہ کرنا، اور اس راستے پر چل پڑنا جہالت ہے اور فرد فکر نہ ہونے کے سبب اس جہالت کو اپنا لیتا ہے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ ایسٹ انڈیا کے تعلیمی نظام نے بہت بڑے بڑے لیڈر ، شاعر ، ادیب دئیے اور اس نظام نے جو ہم نے تقسیم کے بعد اپنایا اس نظام نے دولہ شاہ کے چوہے ہی پیدا کئے، ایک اچھی حکومت ملک کے لئے ایک تعلیمی نظام دیتی ہے جو نئی نسل کو نئے چیلنج کے لئے تیار کرتی ہے ایسی حکومت ہمیں نہ مل سکی یہ قوم بجلی اور گیس نہ ہونے سے پریشان ہو گئی مگر اس قوم نے کبھی تعلیم نہیں مانگی، صحت نہیں مانگی صفائی نہیں مانگی، نہ درخت لگائے نہ درخت مانگے ، مذہب نے ایک فرسودہ سوچ مسلط کر دی کہ صبر کرو، شکر کرو راضی بہ رضا رہو کہ تمہارے رب نے یہی کچھ تمہارے لئے پسند کر لیا ہے، نصاب میں اگر THOUGHT PROVOKING MATERIAL ہوتا تو سوچنا آتا سوال کرنا آتا، حقوق کی آگہی آتی مگر پچھلے پندرہ میں سالوں میں قوم کو دو تین شادیوں پر مائل کر لیا گیا ہے اور اس بات پر بھی زیادہ بچے پیدا کرو اب بھی لوگوں کو دیوانہ وار جلسوں میں شرکت کے لئے بھیڑ بکریوں کی طرح آتا ہوا دیکھتا ہوں تو ملال ہی ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں