اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان کو بری کر دیا۔ اس کیس کو عمران خان کے خلاف سب سے بڑا کیس بنا کر پیش کیا جارہا تھا۔ عمران خان نے ملکی قانون توڑا، غیر ملکی قانون توڑا، پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے، امریکہ اس کا بدلہ لے گا، امریکہ اپنے کسی دشمن کو معاف نہیں کرتا ہے، عمران خان کو لاکھوں کے مجمعے میں سائفر کو نہیں لہرانا چاہیے تھا اس سے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہوئے، کوئی ملک اب پاکستان پر بھروسہ نہیں کریگا، چائنہ سمیت دنیا کے ہر ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے، کوئی ملک ہم پر اعتبار نہیں کرے گا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملک میں قیامت آگئی ہے۔ سب سے پہلے اعظم خان کو ڈھونڈ کر پکڑا گیا، پھر وزارت خارجہ کے افسروں کی شامت آئی ان سے جعلی بیانات دلوائے گئے، جج صاحب کے سر پر بھی ڈنڈا تھا۔ ان کو پہلے سے لکھ کر دیا گیا تھا کہ ان کو کتنی سزا دینی ہے اور سزا ۸ فروری کے الیکشن سے پہلے دینی ہے تاکہ عمران خان کا کردار اور اہمیت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں نکاح کا کیس بھی شامل کر دیا گیا جو بقول فوجیوں کے عدت کے دوران ہوا۔ مسئلہ اسلامی یہ ہے کہ یہ کسی بھی انسان کا ذاتی فعل ہے۔ اس کے سزا اللہ کے گھر ہے۔ قیامت کے روز آپ کہاں سے مذہب کے ٹھیکیدار بن گئے۔ حکومت چیک کیا کرے کتنے آدمی شراب پیتے ہیں کتنے آدمی زنا کرتے ہیں، بہاولپور یونیورسٹی میں کیا ہوا، کتنی لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا تھا، کتنی ویڈیو منظر عام پر آئیں، کتنی لڑکیاں اغواء کی جاتی ہیں، کتنے گھروں میں عورتوں کو نچوایا جاتا ہے۔ اسلام میں اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ حکومت اور فوج ان کو کیوں نہیں چیک کرتی ہے ان لوگوں کے خلاف مقدمے کیوں نہیں بناتی ان کو عمران خان ہی ایک ٹارگٹ ملا ہے اس لئے کہ ان کو عمران خان سے خطرہ ہے۔ عوام نے جس طرح تحریک انصاف کو سپورٹ کیا ہے ۸ فروری کے الیکشن میں تحریک انصاف کو چھپ چھپ کر ووٹ ڈالا گیا۔ شاید دنیا میں ریکارڈ ہو گا۔ ایسی جماعت جس کے سربراہ کو 35 سال کی سزا ملی ہو۔ جس کی پارٹی کا نشان لے لیا گیا ہو جس کے کارکنوں کو 9 مئی کے ڈرامہ میں ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا ہو اس کو عوام نے بھرپور انداز میں ووٹ دیا، یہ فوج سے نفرت کا اظہار ہے فوج کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے عوام اس کی قیادت سے بیزار ہیں ۸ فروری کے الیکشن اس کا بہترین انتقام تھا۔ اس کا اندازہ شائد ابھی عاصم منیر کو نہیں ہے لیکن جب وہ ریٹائر ہو گا تب اس عوام کی نفرت کا اندازہ اس کو ہو گا۔ اس نے پاکستانی فوج کا کتنا نقصان کیا ہے۔ عوام جو فوج کیلئے آنکھیں بچھایا کرتے تھے اب ان کی یاد گاروں پر حملے کررہے ہیں ابھی تو یادگاروں پر حملے ہورہے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا کل کو آپ پر حملے ہونگے۔ جنرل باجوہ کی فرانس والی ویڈیو سب کو چلا چلا کر دیکھنا چاہیے۔
اب عمران خان پر ایک نیا کیس بنانے کی تیاری ہورہی ہے۔ بغاوت کا مقدمہ۔ شیخ مجیب الرحمن کی ٹوئٹ کیا غلطی کر دی ہے۔ تحریک انصاف نے، میں نے ڈھاکہ ٹوٹتے ہوئے اور الگ ہوتے ہوئے دیکھا ہے میں شیخ مجیب الرحمن کے گھر کے پاس دھان منڈی میں ہی رہتا تھا۔ بہرحال بنگلہ دیش بھٹو اور یحییٰ خان کی غلطی کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ہر دسمبر کے مہینے میں ہر سال ہم کو اور فوج دونوں کو یہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان ہم سے کیوں الگ ہوا۔ لوگوں نے فوج کے خلاف کیوں بغاوت کی۔ مجیب الرحمن تو مغربی پاکستان میں گرفتار تھا پھر مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا اور حمود الرحمن رپورٹ کو شائع ہونا چاہیے عوام کو پڑھنا چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔ جسٹس حمود الرحمن ایک بنگالی جج تھا اس نے غیر جانبداری سے تجزیہ کیا اور پوری رپورٹ لکھی کسی کو بھی جسٹس حمود الرحمن پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ بحیثیت جج ان کی بہت اچھی شہرت تھی۔ آگے چل کر دیکھتے ہیں دفاعی ادارے اپنی شکست کو کس انداز سے لیتے ہیں کیا وہ مزید انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے ہیں مزید مقدمے عمران خان پر بناتے ہیں یا پھر عقل کے ناخن لیں گے اور غیر جانبداری سے کام لیں گے۔ وقت دفاعی اداروں کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ عدلیہ ان کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ان کا ٹائوٹ بنا ہوا ہے لیکن کب تک چند ماہ اور اس کے بعد کیا ہو گا اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی بھرپور تیاری کر لی ہے۔ اس کا انجام یا تو مارشل ہو گا یا پھر عاصم منیر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ۔
0