میاں آصف علی
حیرت ہے کہ انسان میں شرح خواندگی بڑھنے کے باوجود ادب آداب ،اخلاقیات کی تنزلی اپنی حدود سے تجاوز ہوتے دکھائی دیتی ہیں یہ بات میں کئی دفعہ دوستوں کی محفل میں بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں مذہبی حوالے سے پوری طرح آشنا کرنے میں امام ِ مساجد سے لیکر نصابی کتب تک ناکام رہی ہیں کیونکہ مساجد سے امریکہ تباہ اور روس تباہ کی باتیں آج بھی سماعتوں میں محفوظ ہیں اور بد نصیبی یہ بھی کہ بنیادی تعلیم کے تاریخی حوالے سے کبھی سچائی کی واضح صورت ہمیں نہ پڑھائی گئی اور نہ ہی آزمودہ کرائی گئی یوں نسل در نسل قوم بھٹکتی ہوئی آج بھی بے شعوری کے گرداب میں پھنس کر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ماننے کے درپے ہے پھر مسلمان ہونے کے ناطے بندہ قرآن پاک کو صرف پڑھے اور اُن آیات ِ کریمہ کا ترجمہ نہ پڑھے نہ سمجھے تو وہ فرمان ِ الہٰی کی سمجھ سے عاری رہ گیا تو دین و دنیا دونوں کے علم سے بے بہرہ ہو گیااسلام کے نام پہ بنی یہ ریاست جسے دو قومی نظریہ کی تکمیل کہا جاتا ہے اسلامی ترجیحات سے کوسوں دور ہے ریاست کی اس نظراندازی سے انسان کی ایسی بیحرمتی کی مثال شاید ہی کسی دوسری جگہ پر ملے مذہبی بیحرمتی کے بھی کئی واقعات صفحات ِ وقت پر زیب ِ قرطاس ہیںمگر ایسے واقعات کسی قانونی گرفت کی وجہ سے نہیں بلکہ عوامی احتجاج سے تاریخ میں درج ہوئے بار بار کسی بھی مذہبی توہین کا بیحرمتی کا سرزد ہونا یقین دلاتا ہے کہ قانون کی آنکھوں پر واعی پٹی بندھی ہوئی ہے جو دیکھنے جاننے سے قاصر ہے ابھی ابھی گزشتہ ہفتے سرگودھا میں مذہبی بیحرمتی کا ایک واقعہ رونما ہوا جس کا الزام مسیحی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد پر عائد کیا گیا ہے مگر قانونی کاروائی سے پہلے مشتعل ہجوم نے مبینہ ملزم پر تشدد کے ساتھ ساتھ اُس کا گھر نذر ِ آتش کرنے کی کوشش کی ہجوم نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے پر مسیحی شخص سلطان کے گھر دھاوا بولا مگر پولیس نے اُنھیں محفوظ مقام پر منتقل کر دیا سوال یہ ہے کہ ہمارے مذہب کے حوالے سے دیگر مذاہب کو ایسا کیا خطرہ ہے کہ وہ ہر بار قرآن پاک کی بیحرمتی یا توہین رسالت ﷺ کے مرتکب ہوتے ہیں پاکستان میں تو ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت ہے میرے خیال میں ان مختلف مذاہب کے لوگوں کو کبھی کسی بھی حکومت نے سمجھانے کی کوشش نہیں کی یا کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنے پر اُسے سبق آموز قانونی سزا نہیں دی جو دیگر لوگوں کے لئے مثال بنتی اسی لئے ایسے واقعات کا بار بار ہونا روایت بن چکا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے پُر سکون و امن پسند معاشرے میں مذہبی آزادی اگر میسر کی جاتی ہے تو اس بات کا شعور بھی تمام مذاہب کے لوگوں کو دینا چائیے کہ وہ عدم برادشت کی روش کو ترک کرنا سیکھیں اس میں اہم کردار تو ہر مذہب سے وابستہ اُن مذہبی رہنماوں کا بنتا ہے کہ وہ وسعت ِ مشاہدہ کو کشاد نظروں سے مہمیز کر کے مذہبی آئینے کو صیقل کریں میرا تو اس بات پر ایمان ِ کامل ہے کہ معبود ِ برحق نے جس کا کوئی شریک نہیں دین اسلام کا ذمہ خود لیا ہوا ہے اور اُسی کی برکات سے آج بھی زمین و آسماں میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں اور گونجتی رہے گیں۔عصر ِ حاضر کے اس اتار چڑھاو میں ہم مذہبی حوالے مذہب کی بیحرمتی پر مشتعل تو ہوتے ہیں مگر انسانی بیحرمتی کو ہم اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے کارن نظر انداز کرتے ہیں جو کہ وجہ بنتی دیگر بیحرمتیوں کی ۔اب غریب کو دو وقت کا عام سا کھانا دیگر لوازمات چھوڑ کر بھی میسر نہ ہو مہنگائی اُس کی مہینے کی کمائی کو صرف بجلی کی نذر کردے تو اس بحران میں پھنسے لوگ اپنے بچے بیچنے بھی دریغ نہیں کرتے بچوں سمیت خودکشی کے کئی واقعات بھی نوشتہء دیوار ہیںجوکہ دھائیاں گزرنے کے بعد بھی ابھی تک ارباب ِ اختیار حکمرانوں کی نظر ثانی کے منتظر ہیں موجودہ حکومت نے مہنگائی کو کم کرنے میں چند ایک قدم اُٹھائے تو ہیں مگر اس کے مثبت اثرات عام آدمی کے بجٹ کو سہل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں دوسرے لفظوں میں حکومتی رٹ کو قبول کرنے کی بجائے مخصوص مافیا اپنی من مانی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ فراہم کرنے پر قائم ہے حکومت کی یہ بے حرمتی اگر اسی طرح جاری رہی تو پھر ملک غزہ کی مثال بن جائے گا جہاں عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود بھی اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے سے منہ نہیں موڑ رہا کربلا کے بعد ہم مسلمانوں کو انسانیت کی ایسی بیحرمتی دیکھنے کو مل رہی ہے جانے کب مسلم ممالک میں جذبہ جہاد پیدا ہو گا ؟کب وہ اس نخل ِ گماں سے نکلیں گے کہ اقوام ِ متحدہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی میں مسلمانوں کے ہم رکاب ہے جس دن یہ سحر ٹوٹا توپھر توہین ِ رسالت ﷺ اور اُمت ِ محمدی ﷺ کی بیحرمتی کرنے والا کوئی نہیں رہے گا بس اُمت ِ مسلمہ کی یکجہتی درکار ہے اور کچھ نہیں !!!!۔
0