تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ یہ پچھلی صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، قرار داد پاکستان کو پڑھ لیجیے اس دستاویز میں MUSLIM STATE کا ذکر ہے اس دستاویز میں کہیں بھی ISLAMIC STATE کا ذکر نہیں ہے، اس بات کو چھوڑ دیجیے کہ اس قراداد میں ہندوستان سے علیحدگی کی بات نہیں تھی، پاکستان اسلام کے نام پر بنا اس جھوٹ کے بہت بڑے ADVOCATE ڈاکٹر صفدر محمود ہیں مگر ان کے اس دعوے کی ڈاکٹر منظور علی نے قلعی کھول دی ہے پھر ولی خان کی کتاب جو جنرل ضیا الحق کے دور میں جرمنی سے شائع ہوئی کیونکہ اس کی اشاعت کی اجازت پاکستان میں نہ مل سکی، اس کتاب کا نام THE FACTS ARE FACTSہے اس کاترجمہ اُردو میں ہو چکا ہے اس کتاب میں تشکیل پاکستان کے حوالے سے متعدد دستاویزات پیش کئے گئے ہیں ان دستاویزات کی روشنی میں پاکستان کی تشکیل پر بہت سنجیدہ سوالات کھڑے ہوتے ہیں، اس کتاب کے جواب میں ڈاکٹر صفدر محمود کچھ نہ کہہ سکے البتہ اصغر سودائی کی نظم پھیل گئی اور اسی کو تحریک پاکستان کی بنیاد بنا لیا گیا، اس نظم میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس نظم کو قیام پاکستان سے قبل ہونے والے انتخابات میں پڑھا گیا، اصغر سودائی نے جب قائد کو یہ نظم سنائی تو قائد نے کہا تھا کہ یہ ہمارا منشور نہیں مگر شر پسندوں نے اس نظم کو خوب پھیلایا، مگر قیام پاکستان کے بعد 1947 OCTOBER 26 کی وہ تقریر دانستہ چھپا لی گئی جس میں قائد نے کہا کہ آپ آزاد ہیں آپ آزاد ہیں اپنے گرجا گھروں میں جانے کے لئے آپ آزاد ہیں مسجدوں اور مندروں میں جانے کے لئے اور آپ اس نئے ملک کے شہری ہیں اور آپ سب برابر ہیں مگر اس کے برخلاف لیاقت علی خان نے ڈاکٹر اشتیاق حسین سے قرار داد پاکستان لکھوائی اور منظور کرائی، میں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت کے جبرلز کا اس میں NOD شامل تھا یا نہیں مگر بعد میں جس انداز سے فوج کے جزلز نے بہت تندہی کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے فوج نے ہی نظریۂ پاکستان کا فلسفہ گھڑا، MARCH 23 یوم جمہوریہ تھا اس کو یوم پاکستان بنایا، مودودی نے جھوٹا شوکت ِاسلام منایا اور عوام کو گمراہ کیا، یہ مودوی ہی تھے جنہوں نے 1954 کے فسادات کرائے جس میں دو سو افراد مارے گئے اس کے بعد سے آج تک یہ قوم کبھی متحد نہ ہو سکی، جماعت اسلامی جنرل ضیا کے دور میں پہچان لی گئی یہ دہشت گردی کی ماں ہے، ہر چند کہ عوام جماعت اسلامی کو مسترد کرتے چلے آئے ہیں مگر اس کی فتنہ طرازی میں کمی نہیں آئی، اسی جماعت کے امیر کے ہاتھوں فرقہ واریت کا بیج بویا گیا جو آج ستر سال کے بعد زہر آلود پھل دے رہا ہے جنرل ضیا کے دور میں فرقہ واریت نے بہت سے انڈے بچے دئے سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے درمیان جنگ دس سال جاری رہی، پھر جس نے بھی طالبان کی مخالفت کی وہ قابل گردن زدنی ٹھہرا،جنرلز نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا حکومتوں کو ڈرانے کے لبیک کی بنیاد رکھی اور ایک معذور عالم کو قوم کا مسیحا بنا کے پیش کر دیا اس جماعت کے حوصلے اتنے بڑھے کہ اس نے ایک ریلی کے دوران کچھ پولیس افسران کو قتل کر دیا اور ریاست ان کا بال بھی بیکا نہ کر سکی، ناموس رسالت کا جھوٹا الزام بار بار لگایا گیا اور بار بار سر عام لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا، چند ماہ قبل جڑانوالہ میں ایسا ہی الزام لگا کر مسیحوں کی بستی ان کے گرجا گھر کو نذر آتش کیا گیا اس خاکستر بستی اور گرجا گھر کی جلی ہوئی اینٹوں کو دیکھنے ہمارے چیف جسٹس بھی گئے تھے چند دن قبل اسی بے لگام جماعت کے بے قابو، بے لگام ہجوم نے ایک کرسچین کے گھر کو نذر آتش کیا اس کے کارخانے کو آگ لگائی، کارخانہ لوٹا چھوٹے بچوں کو اس کارخانے میں بننے والے جوتوں کے ڈبوں کو لوٹتے اور چراتے دیکھا گیا، پہلے اہل حدیث نے احمدیوں کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا اب لبیک کہتے ہوئے ہجوم نے پر امن کرسچینز کوآگ لگانے کا کام سنبھال لیا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ خبریں سوشل میڈیا دیتا ہےMAIN STREAM MEDIA یہ خبریں نشر نہیں کرتا، اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ پیمرا نے کوئی پابندی لگائی ہوئی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہےمیڈیا ان مذہبی عناصر سے خوف زدہ ہے اور نہیں چاہتا کہ یہ ہجوم ان کے دفتروں پر حملے کرے اور ان کے ملازمین کو قتل کر سے کبھی یہ دہشت ایم کیو ایم کی تھی، جیو نے ارشاد بھٹی کو ایک پروگرام دے دیا تھا ارشاد بھٹی نے سندھی قوم کو ننگی بھوکی قوم کہا تو جیو نیوز کے دفتر پر حملہ ہوا اور توڑ پھوڑ ہوئی جیو نیوز جیسے بڑے طاقتور چینل نے اس واقعے کی ایک خبر چلائی دوسری بار یہ خبر نشر کرنے کی ہمت نہ ہوئی، جنرل ضیا نے اسلام کے نام پر جو MONSTERS تخلیق کر دیئے وہ کسی کے قبضے میں آ نہیں رہے، جہالت اس روش کو آگ فراہم کرتی ہے، بہت کوشش کی گئی کہ اہل تشیع کو بھی کافر قرار دے دیا جائے مگر بس نہ چلا سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور بار بار کیوں ہوتا ہے، اس کے پیچھے بہت سے سیاسی اسباب ہیں پہلی بات تو یہ اس روش سے جاہل عوام کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں، یہ احساس ان کی اپنی غربت اور افلاس پر غالب آجاتا ہے، اور وہ نفسیاتی طور پر مطمئن سے ہو جاتے ہیں یہ ایک قسم کا نشہ ہے کارل مارکس نے درست کہا تھا کہ مذہب افیم کا نشہ ہے، جہل کی یہ طاقت فوج کے بہت کام آئی فیوڈل سوسائٹی نے بھی اس جہل کا پورا پورا فائدہ اٹھایا دہشت گردوں کے سامنے کچھ ہڈیاں ڈالیں اور ان سے کام لیا اپنے مطلب کے فتوے لئے جب ضرورت پڑی مولوی وڈیرے کی مدد کو پہنچا مگر پھر یہ مذہبی جماعتیں مسلح اور منظم ہو گئیں تو انہوں نے سیاست میں اپنا پورا پورا حصہ لیا، ان عناصر کو بہت بڑی کامیابی خیبر پختون خواہ میں ملی ، عمران نے بھی اس جہل سے خوب فائدہ اٹھایا اور اب عمران کی تمام طاقت اسی علاقے میں ہے اور اسی علاقے کے لوگوں کو پہلی بار لا الہ الا اللہ کا مطلب سمجھ میں آیا ہے، اسی جہل کو ملک میں روشن خیالی اور سائنسی سوچ کو روکنےکے لئے استعمال کیاگیا، مذہبی جماعتیں صنعت کاری سے ڈرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ صنعت کاری اپنی تہذیب لے کر آتی ہے جو مذہب سے متصادم ہے، نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا سائنس سے رابطہ نہیں ہو پاتا، ان کی سوچ پنپ نہیں پاتی اور پوری قوم اس روش کے نتیجے میں دولہ شاہ کے چوہے ہو کر رہ گئی ہے اس کا علاج کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے مگر حل موجود ہے جس کو تاریخ میں تلاش کیاجا سکتا ہے یہ حل تاریخ میں موٹے موٹے حروف سے لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ سیاست سے مذہب کو الگ کیا جائے ، مذہب کی پوری آزادی ہونی چاہیے مذہب کوئی سیاسی نظام تو ہے نہیں، نظام اسلام اور نظام مصطفے کی بات ہوتی رہی ہے مگر اس کے خد و خال کبھی متعین نہیں ہو سکے ، اب مذہب کچھ RITUALS کے سوا کچھ نہیں، اہل مذہب میں اخلاق نام کی کوئی چیز رہ نہیں گئی حال ان عاشقان رسول اور عاشقان خدا کا یہ ہے کہ یہ مسجدوں اور مدرسوں میں بدکاری اور بد فعلی کو برا نہیں سمجھتے اور مولوی کی طاقت اتنی ہے کہ
ریاست ان کو سزا نہیں دے سکتی یہ دین دار لوگ احرام باندھ کر قینچیاں چھپا کر ساتھ لے جاتے ہیں اور غلاف کعبہ کے ٹکڑے کاٹ کر لے جاتے ہیں، دوسری بات یہ کہ روزگار ملنے لگے تو انسان زندگی کے مفہوم سے واقف ہونے لگتا ہے روزگار بھی INDIRECTLY کچھ طریقے سکھاتا ہے جو بلا آخر انسان کو مثبت سوچ کی طرف لے جاتے ہیں تو اس جہل کا علاج علم ہی ہے ، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں THOUGHT PROVOKING MATERIAL اس پوری بازی کو پلٹ سکتا ہے ہم کہتے رہے ہیں کہ مذہب کو مسجد میں بند کریں، مدارس بند کریں، سیاست کو دس سال کے لئے ایک ڈبے میں ڈالیں، بلدیاتی نمائندوں سے ترقیاتی کام کرائیں، ملک دس ٹیکنو کریٹ چلائیں پاکستان میں اگر غیر سیاسی ٹیکنو کریٹ نہیں ملتے تو بنگلہ دیش سے مانگ لیں چین سے لے لیں، مذہب کے جن کو بوتل میں بند کئے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
0