0

کچھ کمی سی ہے !

آج کل سوشل میڈیا پرمختلف بیماریوںاور کئی کمزوریوں کے اتنے چرچے رہتے ہیں کہ لگتا ہے ہر کوئی حکمت کے عروج پر پہنچ کر دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنی عاقبت سنوارنا چاہتا ہے اُن کے جملوں میں ایسا پیار اور ایسا اُنس تو سیاسی فرخندہ مقال قائدین کی باتوں میں نہیں ملتا گویا ایک اور طبقہ بھی وطن ِ عزیز میں موجود ہے جو وعدوں کو متروک کرنے کے ہنر سے اورعوام کی ضعیف الاعتقادی والے لاعلاج مرض سے خوب آگاہی رکھتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اتنے اشتہار اس مردانہ کمزوریوں کے اور ویڈیوز کلپس دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اکثر گماں ہونے لگتا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ مردانہ کمزوری ہے جس کی وجہ سے ملک کمزور ہوتا جارہا ہے مقروض ہوتا جارہا ہے زمانہ اس بات کا قائل ہے کہ ہماری سیاست میں قحط الرجالی ایک عرصے سے پھیلی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ جھوٹ کے پائیدان پر کھڑے ہو کر یا عوامی اجتماع میں بلند بانگ دعوے کرنے والے قائدین اپنی کہی ہوئی باتوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے اور نہ ہی اپنے ہی نظریات کی پیروی کرنے کے متحمل ہو سکے یہ بات بھی سیاست کے پہلوانوں نے اب متفقہ طور پر کسی حد تک اپنا منہ دھونے کے لئے اپنائی ہوئی ہے کہ ہمیں سٹیبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے ناکامی ہوئی ہے کوئی غور کرے تو اسی بات میں ان کی نااہلی کی داستان چھپی ہوتی ہے قحط الرجالی کی کیفیات کے ساتھ ساتھ یہ مردانہ کمزوری والی باتیں ماضی میں ملک کی دیواروں پر لکھی ہوتی تھیں جس میںحکیم صاحب کے ایسے ایسے دعوے کہ عقل دنگ رہ جائے مثال کے طور پر شوگر کا مکمل خاتمہ ،جوڑوں کے درد سے مکمل نجات بواسیر خونی و بادی کا بغیر آپریشن خاتمہ وغیرہ جس میں مردانہ کمزوری کو دور کرنے کے دعوے بھی درج ہوتے تھے ملکی اخبارات میں ان کے اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے حیرانی یہ ہے کہ ماضی سے لے کر حالیہ صورت ِ حال تک نہ ان نیم حکیموں ،غیر مستند ڈاکٹروں سے کسی حکومتی ارباب ِ اختیار نے نہ پہلے باز پُرس کی اور نہ ہی اس جدت کے دور میں انھیں کوئی روکنے والا یا پوچھنے والاہے محاکمہ کرنے والوں کی روش سے ،ادائے بے نیازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی نظر میں کچھ کمی سی ہے کہ ایسے ناہنجار لوگ قوم کی صحت سے کھیل رہے ہیں دنیا کے سائنسدان جن بیماریوں کے لئے تحقیقی مراحل سے گزر رہے ہیں اُن بیماریوں کے علاج بلکہ اُن سے مکمل شفاء دلانے کے دعویدار ہر چوک ہر گلی میں بیٹھے ہیں جگہ جگہ ان کے اشتہار تقسیم ہو رہے ہیں ماتم کناں اس بات پہ ہوں کہ شرح خواندگی بڑھنے کے باوجود بھی ہم شعوری طور پر ناخواندگی کے گرداب میں ہیں حکومتی اداروں کی اس حوالےسے پراسرار خاموشی شریک ِ جُرم ہونے کی دلیل لگتی ہے لگتا ہے کہ کرپشن کے آتش فشاں پھٹنے سے ہر ادارہ اس لاوے کی زد میں آکر اپنی اساس جلا چکا ہے جن میں علامہ کا خواب اور قائد کی عملی تدبیر کی خواہشیں سب خاکستر ہیںقائد کی اُمنگوں کے برعکس ہو گئی ہے ریاست ۔خدمت کے دعوے داروں میں صرف اقتدار کی ہوس اور ذاتی مفادات کی رکھوالی مطمعٔ نظر ہے اور کچھ نہیں !!!۔ سابقہ نسلوں نے جس آزادی کی خاطر ہر جبر پر مزاحمت کی وطن ِ عزیز کے حصول کے لئے قربانیوں کی لازوال داستانیں مرتب کیں فرقانہ تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یگانگت و یکجہتی کی جہدو جہدسے آزادی ممکن کی تا کہ اُن کی نئی نسل خوشحال زندگی میں آنکھ کھولے مگر شومئی قسمت کہ وہ نسل بشمول اپنی نئی نسل کے ہمراہ غربت کی لکیر سے نیچے پسماندگی کی دلدل میں گھرے ہوئے کسی مسیحا کے ابھی تک منتظر ہیں مگر ان وحشتوں کو دور کرنے والا کوئی میلوں دور بھی دکھائی نہیں دیتا نظر انداز کرنے کی یہ طوالت اتنی بڑھی کہ ریاست کی سرزمین پر گندم کی بجائے محرمیوں کی فصل زیادہ اُگنے لگی جس سے محرومیوں کے جنم نے انتقام کے جذبوںکو ہر قانون ،ہر اُصول سے بیگانہ کر دیا ہے ایسی چیخ و پکار کی تصویر بلوچستان میں دیکھی جا سکتی ہے وہاں حکومتی نظر اندازی گر اسی رفتار سے رواں رہی تو ریاست کے استحکام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جو مسلم ممالک کی دشمن قوتوں کا خواب ہے جس کا آغاز غزہ کے نہتے مسلمانوں پر امریکہ کی منشاء سے سے اسرائیل نسل کشی کی وارداتوں میں مصروف ہے اور اُمت ِ مسلمہ اپنے مفادات کے پیش ِ نظر سوائے ایران کے تماشائی ہے یاد رہے کہ اللہ تعالی نے ایسے کرداروں کو حوالہء سقر کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اپنی خامیوں پر نظر ثانی کرنا اہم ہے ہماری ریاست کے معاشی نظم و ضبط کا اسلامی طریقے پہ چلنا انتہائی اہم ہے بصورت دیگر معاشی ماہرین کہتے رہیں گے کہ ’’کچھ کمی سی ہے‘‘ مگر معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ غربت سے اور سود سے کیسے آزادی حاصل کریں ؟ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں