اُمید
نئی طرح کی سیاست میں لعنتیں در آئیں
لحاظ اب نہ کسی کا کسی کا پاس نہیں
ہمیں یقین ہے کہ بدلے گا یہ وطیرہ بھی
اُمید اس کے کرم کی ہے اب بھی پاس نہیں!
اس صدی میں انسان نے خلاء کو بھی مسخر کر لیا۔ بحر کو بھی زیر نگیں کر لیا اور اب ستاروں اور سیاروں پر قدم رکھ کر وہاں بستیاں بساناچاہتا ہے۔ پاکستان نے بھی چین کے ساتھ مل کر چاند پر قدم تقریباً جما ہی لئے ہیں اور چاند کی تصاویر دنیا کو دکھانی شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کی اس تکنیکی اور سائنسی ترقی پر ہم دوسرے اہل وطن کی طرح بہت خوش ہیں اور ملنے والوں سے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دیکھو پاکستان بھی تسخیر کائنات میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوا۔ بہت برسوں پہلے جب امریکی ’’آرم اسٹرانگ‘‘ نے چاند پر قدم رکھا تو بی بی سی لندن کے شعبہ اُردو میں یہ خبر نشر کرنے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا۔ اس سے قبل ہم ملول بھی تھے اور شاکی بھی کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خلاء کا سفر کررہے ہیں اور ہم زمین کے مسائل بھی حل نہ کر سکے۔ اس عالمِ محرومی میں ہم نے ایک نظم لکھی تھی جس کے چند مصرعے پیش خدمت ہیں؎
رنگ محل ہم نے سجائے کہ ہوا بحر بھی قید
قمقمے ہم نے جلائے کہ خلا میں پہنچے
تیسری دنیا ابھی صرف تماشائی ہے!
امریکہ کے چاند پر پہنچنے پر پوری دنیا میں خوشی اور فخر کی لہر دوڑ گئی پوری دنیا میں اس کامیابی پر جشن منائے گی اور خلا پر انسان کی فتح کو انسان کا عظیم ترین کارنامہ سمجھا گیا۔ معروف شاعر انجم اعظمی مرحوم نے کہا۔
اب چاند ہے ہاتھوں میں سن اے لیلیٰ ٔآفاق
ہم تیرے لئے تجھ سے بھی آگے نکل آئے!
یقینا ً فطرت پر انسان کی یہ عظیم الشان فتح تھی۔ اب لوگ چاند پر زمین خریدنے کی شروعات کر چکے ہیں۔ اگر ہم نہیں تو شاید ہماری آئندہ نسلیں چاند پر رہائش حاصل کر لیں گی۔ چائنا کی خلائی دوڑ کاایک اہم کھلاڑی امریکہ ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب چاند پر ریلوے سٹیشن قائم کرے گا۔ یہ ریلوے نظام مکمل طور پر کام کرے گا۔ چاند پر چلائی جانے والی ٹرین عام نہیں ہو گی بلکہ فلیکس ایبل تاروں کے ذریعے نصب کی جائے گی اور مقناطیسی طاقت سے کام کرے گی۔ ابھی دنیا میں گزشتہ سال ایک پاکستانی نژ اد تاجر نے اپنے بیٹے کے ساتھ سمندر میں ڈوبے ہوئے تاریخی جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ کا ڈھانچہ دیکھنے کے لئے زر کثیر صرف کر کے سمندر کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے سمندر کی تہہ تک پہنچنے والے مخصوص جہاز تخلیق کیا گیا مگر بدقسمتی سے یہ جہاز سمندر کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ہی سمندر برد ہوگیا اور یہ پاکستانی تاجر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح مغربی ممالک کے بہت سے افراد نے چاند پر پلاٹ لینے کی کوششوں کو اور تیز کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے اور پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بڑے فخرکا مقام ہے وہ دنیا کے ساتھ سائنسی اور تکنیکی دوڑ میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک مگر فیض احمد فیض کی زبان میں ؎
دوڑ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کہئے!
ہمارے ملک میں بھوک، افلاس، تنگ دستی، بیروزگاری، ناانصافی، مہنگائی، لاقانونیت اور دہشت گردی نے اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ تقریباً 3 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ آئے دن خبریں آتی ہیں کہ فلاں مرد ،عورت یا خاندان نے افلاس کے ہاتھوح مجبور ہو کر خودکشی کر لی ہے۔ کاش ہماری حکومت اور ارباب اختیار ادھر کو بھی نظر کرتے۔یہ صحیح ہے کہ مسابقت کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ہمارا پڑوسی ملک بہت پہلے ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور جواباً اپنی حفاظت کے لئے پاکستان نے بھی خود کو محفوظ کرنے کے لئے ایٹمی طاقت کا سہارا لیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ پاکستان اپنی حفاظت کے لئے مخصوص طیارے بنانے میں بھی کامیاب ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ارباب اختیار ’’زمین‘‘ کے حالات پر ’’پہلے‘‘ توجہ دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا دنیا کے جو ممالک خلاء تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے یا کوشاں ہیں انہوں نے پہلے اپنے ملک اپنی زمین اپنے خطے کے مسائل حل کئے اور اپنے لوگوں کو انسانی بنیادی سہولیات فراہم کیں۔ تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی نے ان ممالک کے انسانوں کو آگے بڑھنے اور خلاء کو مسخر کرنے کی ہمت بھی عطا کی۔ ان ممالک نے ’’انصاف‘‘ کو معاشرے کی بنیاد بنایا۔ فلاحی مملکتوں میں تبدیل کیا اور نعرہ لگایا کہ ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ کوئی بیماری سے لڑنے کے لئے دائوں سے محروم نہیں رہے گا۔ کوئی بچہ تعلیم کو تج نہیں سکے گا۔ ایک خاص عمر تک اسے لازماً تعلیم حاصل کرنے پڑے گی اور تعلیم حاصل نہ کرنے کی صورت میں والدین یا بچے کی پرورش کے ذمے داروں کو سزا بھی دی جا سکے گی اور اس سماجی ذمے داری کوپورا کرنے کے بعد ہی ان ممالک نے تسخیر کائنات کا ڈول ڈالا۔ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں۔ معاشرتی کے علاوہ ہمارے اوپر مذہبی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہ رہے ہم رسول اکرم، خلفائے راشدین، آئمہ کرام اور علمائے دین کے نام لیوا ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر میری مملکت میں ایک کتا بھی بھوکا رہ گیا تو مواخذہ مجھ سے ہو گا۔ ہم اپنے ارباب اختیار کو تسخیر کائنات کی اقدام پر مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں اور ان سے درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ آسمان کے ساتھ ساتھ زمین پر بھی نظر رکھیں اور ہمارے اس شعر کو جھٹلا دیں کہ؎
تسخیر کائنات جو فرمارہے ہیں آج
سچ یہ ہے ان کواپنے ہی گھر کی خبر نہیں!