0

تاثیر شعر اور ظلم کا دست بہانہ جو!

ستم ظریف تو یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتا رہتا ہے کہ آج کل کسی بھی شاعر کے لیے فوری طور پر مقبول ہونے کا واحد راستہ اور طریقہ مزاحمتی شاعری کا رہ گیا ہے۔ کہتا ہے کہ حالیہ دنوں ایک غیر معروف شاعر احمد فرہاد نے اپنی ایک نظم اور جبری گرفتاری کے سبب بے پناہ توجہ اور مقبولیت حاصل کر لی ہے ۔یہ بات سن کر ستم ظریف کے احمق ہونے پر میرا یقین مزید پختہ ہوگیا۔ میں نے اسے پاس بٹھا کر سمجھانے کو کوشش کی اور کہا کہ؛ بھئی دیکھو ستم ظریف ! بات یہ ہے کہ شعراء اور ادباء کسی بھی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی آواز ہوا کرتے ہیں۔ایسی آوازوں کو سننا ،سمجھنا اور برداشت کرنا ہی بالغ نظری کی محکم دلیل ہے۔ کسی نظم سے خوف کھانا بہادروں کا شیوہ نہیں ہوتا۔احمد فرہاد کو بغیر کسی دیگر جرم کے ،محض نظم لکھنے پر گھر کے باہر سے اٹھا لینا یقینی طور پر دہشت گردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے ۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ریاستی ادارہ ایسی نامناسب حرکت کر سکتا ہے ۔یقینا یہ کسی قسم کے شرپسند عناصر کی شرارت ہو سکتی ہے۔امید کی جانی چاہیئے کہ ملک کی چوکس پولیس اور باخبر پرچہ نویس جبری طور پر گم کئے گئے شاعر کو فوراً تلاش کرکے گھر پہنچانے کا بندوست کریں گے۔اور اگر احمد فرہاد پر کوئی دیگر الزام ہے تو پھر ملکی قانون کے مطابق اسے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کر کے اور اپنے دفاع کا حق دیتے ہوئے اس پر مقدمہ چلایا جانا چاہیئے ، یہ اچانک گم کر دینا کوہ قاف کے جنوں کا شیوہ تو ہو سکتا ہے ،کسی مہذب انسانی بستی کا دستور نہیں۔ستم ظریف یہ سب سن کر مسکرایا اور کہنے لگا کہ کیا جنات کسی دستور کو مانتے ہیں؟ مجھے کیا پتہ؟ میں کبھی بھی “جن ” نہیں رہا۔اور تم یہ بات مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔؟اور جہاں تک فوری مقبولیت اور توجہ حاصل کرنے کے لیے جبری طور پر گرفتار ہوکر کسی سیلن زدہ تہہ خانے میں تشدد “انجوائے” کرنے والی بات ہے ،یہ سراسر مریضانہ سوچ ہے۔میں ذاتی طور پر نہیں جانتا کہ کیوں، لیکن عموماً مارشل لاء کے دور میں ڈکٹیٹر آئین ، قانون اور عامتہ الناس سے تو قطعاً نہیں ڈرتے تھے ، لیکن ہاں شعر سے ان کا تراہ نکل جاتا تھا۔ ماضی کا ایک قصہ سنو ، اسی شہر کا قصہ ہے۔ستر کی دہائی کے اواخر کی بات ہے ۔ ان دنوں معروف و مقبول شاعر اور اسلام آباد شہر کی دانش و شاعرانہ فراست کی حقیقی علامت حسن عباس رضا احمد فراز کے ساتھ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز میں کام کیا کرتے تھے. ملک میں ضیاء الحق نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ باور کراتی ہے کہ ؛ خوفزدہ ڈکٹیٹر کسی اور سے ڈرے نہ ڈرے ،شاعروں سے ضرور ڈرتا ہے۔مزاحمتی شاعری ظلم کے دست بہانہ جو کے دل و دماغ کو مزاحمت، مدافعت اور انقلاب کے خوف سے بھر دیتی ہے ۔لہٰذا احمد فراز کو اٹک قلعے میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔جبکہ حسن عباس رضا کو شامل تفتیش کرتے ہوئے تین دن جی ایچ کیو میں طلب کرکے وہاں بنے مختلف دفاتر کے روبرو برائے تفتیش پیش کیا جاتا رہا، جب بات نہ بنتی تو شام کو گھر بھیج دیتے۔ان دنوں ملازمت کے علاؤہ حسن عباس رضا ’’خیابان ‘‘ کے نام سے ایک ادبی مجلہ بھی نکالتے تھے ۔ شاعری تو غیر اختیاری فعل تھا ، سو وہ بھی جاری رہی ۔ مارشل لا کے تاریک دور میں حسن عباس رضا کے ادبی مجلہ ’’خیابان‘‘ کا تیسرا شمارہ منظرِ عام پر آ گیا۔ حسن عباس رضا کی شاعری کے علاؤہ اس کے جملہ مندرجات مارشل لاء کی پیدا کردہ فضا کے لیے قابل قبول خیال نہیں کئے گئے۔ وہ احمد فراز کی غزل ہو یا ڈاکٹر اعجاز راہی کا مضمون یا پھر احمد داؤد کا افسانہ غرض کچھ بھی تو قابل برداشت نہیں ٹھہرا ۔وقت کے عقلمندوں نے رسالے کو سرخ لکیروں سے بھر دیا۔نتیجے کے طور پر خیابان پر پابندی اور مجلےکی ضبطی کا حکم جاری ہو گیا۔ الزامات کے مطابق مجلہ ملکی افواج ، پاکستان اور اسلام کے خلاف مواد سے بھرا پڑا تھا ۔ ایک الزام فحاشی کا بھی لگایا گیا، ابھی تک کوئی محقق اس ادبی مجلے میں سے فحاشی دریافت نہیں کر سکا ۔گویا ایم فل یا پی ایچ ڈی اُردو کے لیے ایک موضوع یہ بھی دستیاب اور تشنہ تحقیق ہے ۔پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کے خفیہ شعبہ ہائے اُردو متوجہ ہوں۔ یہ ویسے بھی مستقبل کے ادبی محققین کے لیے یہ ایک موجود اور منتظر عنوان ہے۔فوج اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کر کے حسن عباس رضا کے گھر کا محاصرہ کیا ، اس کی تلاشی لی،حسن عباس رضا تو گھر پر نہ ملا ،لیکن مجلہ خیابان کے نئے پرانے شمارے بہت سارے مل گئے ، انہیں ضبط کر کے اور حسن عباس رضا کے محترم والد کو اس شرط پر ساتھ لے گئے کہ اصل ملزم کی گرفتاری کے بعد والد کو رہا کر دیا جائے گا۔حسن عباس رضا کو علم ہوا تو روپوش ہونے کے مشوروں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے گرفتاری دے کر اپنے محترم والد کو پولیس کے چنگل سے آزاد کرایا ۔ضیاء الحق کے بدترین دور میں حسن عباس رضا کی گرفتاری اور ہتھکڑیاں پہنا کر صدر راولپنڈی کے بازاروں میں گھمایا پھرایا جانا اس ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب خیال کرنا چاہیئے ۔حسن عباس رضا کو کتابوں کی مختلف دکانوں پر لے جا کر ان کی کتابیں اور خیابان کے شمارے ضبط کئے گئے۔یہ شرمناک منظر بھی راولپنڈی شہر کی تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔حسن عباس رضا کی ایک نظم ان دنوں بڑی مقبول ہوئی تھی۔ان کی گرفتاری کا ایک باعث اس نظم کو بھی قرار دیا جاتا ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ ایک ننھی سی نظم نے کس طرح بہادر اور جری جرنیلوں کے اعصاب توڑ دیئے تھے۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ وہ جنہیں قوم دشمن کی توپ و تفنگ کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتی ہے ،وہ چھوٹی چھوٹی نظموں سے ڈر جاتے ہیں۔
حسن عباس رضا کی گرفتاری کا باعث بننے والی نظم کا عنوان تھا “گھناؤنا جرم ”
نظم اس طرح سے ہے:
ہمارا جرم اتنا تھا
کہ جس دن شہر بھر میں
سگ شماری ہو رہی تھی،
ہم نے اپنا نام
فہرستِ سگاں میں
کیوں نہ لکھوایا
ہمارا جرم اتنا تھا!
(حسن عباس رضا)
فیض احمد فیض اور احمد فراز تک مرشد کہلا کر خوش ہونے والے اٹھائی گیرے غصیلے ضرور تھے لیکن اتنے بے حجاب نہیں ہوتے تھے۔ فیض احمد فیض نے اپنی عمر عزیز کے سینتیس برس پاکستانی شہری کے طور پر بسر کئے ، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پاکستانی نے بیشتر وقت جلاوطنی میں ہی گزارہ ۔احمد فراز بھی جلاوطنی کی اذیت سے گزرے ۔ جلاوطن شاعر ، سیاسی کارکن اور سیاسی لیڈرز لندن میں جمع ہوتے تھے۔ ان سیاسی جلاوطنوں کی مخبری کے لیے اُردو مرکز بنا کر وہاں افتخار عارف کو پرچہ نویسی کی ملازمت دی گئی تھی۔موصوف نے یہ ذمہ داری اس خوبی اور سلیقے سے نبھائی تھی کہ اب تک بھائی لوگ ان کی خدمات کے معترف اور قدم بوسی کی خواہش والے ٹیلی فون کے منتظر رہتے ہیں۔لیکن آج کل موسم کچھ بدل گیا ہے، رسم و رواج اور طریقہ واردات بھی تبدیل ہو چکے ۔ اب تو اپنا ہی تیار کردہ ایک بت توڑنے کے لیے انہوں نے جبری اغواہ اور جسمانی تشدد کو اپنی طاقت اور دہشت کا عنوان بنا لیا ہے اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید سب کو ڈرا لیا ہے۔انہیں علم نہیں کہ ڈر اور خوف کے ملبے کے نیچے سے مزاحمت اور بغاوت کے پودے سر نکالتے اور درخت بن جاتے ہیں۔ آج کل تو چلن یہ بن گیا ہے کہ؛ اگر جبری طور پر لاپتہ فرد میری مخالف یا ناپسندیدہ سیاسی پارٹی سے ہمدردی رکھتا ہے تو پھر یقیناً وہ قصور وار اور مجرم ہو گا۔لیکن اگر اپنا ہم خیال دھر لیا جائے تو پھر باں باں کی غیر مختتم آوازوں کا شوراور انسانی حقوق کی دہائی کے ساتھ ساتھ مجھے کیوں اٹھایا ، مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں بھگایا اور مجھے کیوں بلایا کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ اس ملک کا ایک آئین ہے ،قانون ہے ، نظام عدل و انصاف ہے۔جو جرم کرے ،یا کوئی ضابطہ توڑے یا اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرے اسے جبری طور پر اٹھا کر کسی تہہ خانے میں مارنا پیٹنا درست عمل نہیں ہے۔ اس پر لگے الزامات کے تحت کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیئے۔اور جرم ثابت ہونے پر قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے۔لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نالائق و ناہنجار مرشدبھی اپنا چلن بدلنے پر تیار نہیں ہیں۔یاد رکھنا چاہیے کہ ماورائے عدالت حرکات و سکنات کا فیشن تادیر نہیں چل سکتا۔اسی نے اچھی یا کمزور مزاحمتی شاعری کی گنجائش پیدا کر رکھی ہے۔اور یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ، فیض احمد فیض نے تو بروقت آگاہ کر دیا تھا کہ :؎
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں