0

معیشت

گندم کے حالیہ بحران نے جہاں نگراں حکومت کی کار کردگی پر بہت سے سوال اٹھا دیئے وہاں بیورو کریسی کو بھی ایک بار پھر EXPOSE کر دیا، یوکرین سے گندم کیوں خریدی گئی، جب کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود تھے اس بحران کی تہہ تک جانے کے لئے حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادی ہے جو تفتیش کر رہی ہے اس اسکینڈل میں انوار الحق کاکڑ کا نام بھی آرہا ہے، انوار کاکڑ نگراں وزیر اعظم تھے ان کا تعلق بلوچستان سے ہے خاصے با رسوخ سیاست دان ہیں، جب نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کے لئے مختلف نام گردش کر رہے تھے اس وقت راجہ ریاض نے انوار کاکڑ کا نام تجویز کیا اور اس نام پر بلا تامل اتفاق کر لیا گیا ، کہا جاتا ہے یہ نام دراصل فوج کی طرف سے آیا تھا، اگر انوار کاکڑ فوج کے آدمی ہیں تو گندم اسکینڈل میں جو تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے گی اور معاملہ رفع دفع ہو جائیگا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا یہ بات ایک بات پھر ESTABLISH ہو جائیگی کہ وہ افراد جو فوج کے قریب ہیں ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا اور ان افراد کو بھی گزند نہیں پہنچے گا جس کا تعلق جاگیر دار گھرانوں سے ہے ان کا بال بھی بیکا نہیں ہو سکے گا، مگر ایک بڑا شبہ یہ بھی ہے کہ گندم امریکہ کے ایما پر یوکرین کی مدد کرنے کے لئے بلا ضرورت درآمد کی گئی کیا اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہے ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ اعلیٰ حکام ہی کر سکتے ہیں اور ان تک جاتے ہوئے ہر کسی کے پَر جلتے ہیں، سو میری دانست میں تحقیقات کا کوئی فائدہ نہیں ہے پاکستان کی 74 فیصد دولت پاکستان کے 1270 خاندانوں کے پاس ہے اور وہی پاکستان کے تمام وسائل پر قابض ہیں یا ان وسائل کے بارے میں تمام فیصلے بھی و ہی کرتے ہیں، اس طبقے کا تعلق وڈیروں، سرمایہ داروں، سرداروں اور مافیاز سے ہے اس میں اسمگلرز بھی شامل ہیں انہوں نے اپنا نام سیاست دان رکھ لیا ہے یہ سب کے سب کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں جب بھی ان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے سیاسی جماعت انتقامی کاروائی کا شور مچا دیتے ہیں اور بکے ہوئے نام نہاد صحافی ان کی مدد کو آجاتے ہیں، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا، اس پر مستزاد کہ فوج بھی انہی عناصر پر انحصار کرتی ہے اس مجرم طبقے میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور مذہب کو استعمال کرکے عوام کو ورغلا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے جلسوں میں ان پڑھ عوام دوڑی چلی آتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد ایک سائنس بن چکا ہے سیاسی کارکن کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، مذہبی رہنما کوئی بھی مذہبی نعرہ دے کر لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں اور بڑی ریلیاں اور جلسے کرنے میں قادر ہیں عوام ان کو ہی اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، یہ کام میڈیا کا تھا کہ وہ عوام کو EDUCATE کرتے کہ یہی لوگ ہیں جو ان کی غربت اور افلاس کے ذمہ دار ہیں اور ملک کے سارے وسائل پر قابض ہیں،اس صورت میں عوام کو روٹی نہیں مل سکتی، بلوچستان میں پچھلے پچاس سالوں سے بلوچ سرداروں کی حکومت ہے جن کو حکومت بنانے اور گرانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے سردار اس کام کے لئے حکومت سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے ہیں، باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ سردار ریاست کی کمزوری ہیں اگر ان کی کرپشن اور سیاسی کار کردگی پر ہاتھ ڈالا جائیگا تو یہ بلوچستان میں بغاوت جیسی صورت پیدا کر سکتے ہیں سردار بگٹی کی طرح یہ پہاڑوں میں جا سکتے ہیں اور پھر فوج کو اس صورتحال سے نمٹنا مشکل ہوگا، بلوچستان کے ان سرداروں کے افغانستان سے بھی تعلقات ہیں اور ملک میں بد امنی پھیلانے کے لئے شر پسندوں سے مدد لی جا سکتی ہے، ان سرداروں کی نجی جیلیں ہیں اور ہر علاقے کے لوگ ان کی رعیت ہیں یہ کبھی سرداروں کے خلاف نہیں جا سکتے ، خوف ہی اتنا ہے، مسنگ پرسن کے نام پر بلوچ یکجہتی کونسل نے بھی ایک تحریک شروع کر رکھی جس کی باگ ڈور دو خواتین کو دی گئی ہے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کو ہمدردی حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ان خواتین نے کبھی ان دہشت گردوں کی مذمت نہیں کی جو بلوچستان کی آزادی کے لئے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ایک بار شہباز شریف نے بلاول سے پوچھا تھا کہ سندھ میں نجی جیلیں ختم کر دی گئیں یا نہیں، بلاول اور زرداری نے چپ سادھ لی کوئی جواب نہیں دیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نے مل کر حکومت بنا لی، نہ کوئی شکوہ نہ شکائیت میڈیا نے بھی سنی ان سنی کر دی، یہی وہ طاقت ور عناصر ہیں جو سیاست پر بھی قابض ہیں اور وسائل پر بھی
جب تک ملک میں دولت کی تقسیم مساوی نہیں ہوگی، ملک کے معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے ان سیاست دانوں کے وہ بیانات جو ترقی کے حوالے سے ہیں، محض دلاسے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو سپر ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں زرعی ٹیکس دیتے ہوئے جن کی جان نکلتی ہے یہ لوگ اتنے طاقت ور ہیں کہ ان سے بات چیت کے جنرل باجوہ کو کراچی جانا پڑا اس وقت عمران وزیر اعظم تھے، سیاست، وسائل اور طاقت ان کو میسر ہیں، ہم کہتے رہے ہیں کہ یہی لوگ جو معاشی بدحالی کے ذمہ دار ہیں وہ عوام کی معاشی حالت کیسے سدھار سکتے ہیں موجودہ حکومت کی جو بھی کاوشیں ہیں ملک میں سرمایہ کاری کی ہر چند کہ اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی مگر وہ طاقتیں موجود ہیں جو نہیں چاہتیں کہ ملک میں معاشی سرگرمی میں تیزی آئے وہ بد امنی پھیلانے کے درپے ہیں وہ جانتے کہ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے وہ جانتے ہیں کہ معاشی سرگرمی شروع ہو گئی تو عوام اپنے روزگار کو چھوڑ کر اس کی سیاست کا شکار نہیں ہونگے اسی لئے ملک میں جگہ جگہ دھماکے ہو رہے ہیں، ریلیاں جلوس جلسے ہونگے تو امن تباہ ہوگا اور سرمایہ کار اس جگہ سرمایہ سرمایہ کاری نہیں کرتا جہاں بد امنی ہے تکلف برطرف،اس وقت فضل الرحمن ، جماعت اسلامی، سنی اتحاد، پی ٹی آئی معیشت کی بحالی کے خلاف صف آرا ہیں ، جماعتِ اسلامی نے اپنی بغل بچہ تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کو متحرک کر دیا ہے فتنہ فساد کے لئے اور کوئی معاملہ نہیں تو غزہ پر ہی احتجاج کرنے کی سوجھ رہی ہے یہ ساری قوتیں ایک نظریہ ایک مزاج ایک عمل کی قائل ہیں ، ان سب کا رجحان مذہب کی جانب ہے اور ان کو خوف ہے کہ پاکستان میں معاشی ترقی ہوئی تو دینی جماعتوں کو کوئی نہیں پوچھے گا، اور ان کی طاقت کم ہو جائے گی چندہ مافیا یہ نہیں چاہتی اس لئے یہ یقین کیا جا سکتا ہے پاکستان کے عوام کی بدحالی کی ذمہ داری انہی دینی قوتوں پر عائد ہوتی ہے حالانکہ کہا تو یہی جاتا ہے کہ دین کا پہلا کلمہ روٹی ہے آج کل جیو نیوز نے ایک مہم شروع کی ہے جس کا عنوان ہے کر ڈالو، اس اشتہار میں تمام سیاست دانوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں اور کہا گیا کہ شائد یہ آپ کے لئے آخری موقع ہو اگر آپ نے معیشت بحال نہ کی، اس اشتہار میں مختلف تجاویز دی گئی ہیں کہ ملکی خسارہ کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے ان میں سے کچھ تجاویز قابل عمل ہیں اس میں زرعی ٹیکس پر بھی بات کی گئی ہے، سب سے پہلے معاشی مسئلے کا جائزہ لینا ضروری ہے ہم بتا چکے ہیں ملک کی دولت کا 72 فیصد اشرافیہ کے پاس ہے وسائل پر انہی کا قبضہ ہے اور انہی سے کہا جا رہا ہے کر ڈالو، یہ ممکن نہیں اس اشتہار میں نہ یہ کہا گیا ہے کہ وڈیرہ شاہی کو ختم ہو نا چاہیے اور نہ ملائیت کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے آپ کچھ بھی کر لیں وڈیرہ شاہی کو ختم کئے بغیر ملکی معیشت پٹڑی پر نہیں چڑھ سکتی اور ملائیت کے ہاتھ بھی کاٹنے ہونگے جو معیشت کے پاؤں میں چکی کے پاٹ باندھ چکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں