سنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل سے کہا ہے، نہایت مودبانہ طریقہ سے گزارش ہے کہ اگر آپ نے رفاہ پر حملہ کیا تو آپ کی ملٹری امداد بند کر دی جائے گی۔ اب وزیر اعظم نیتین یاہو کا جواب سننے کی ضرورت نہیں۔ اس نے کہا ہو گا میرے جوتے کی نوک پر۔ ہم نے تو وہی کرنا ہے جو ہم نے سوچا ہوا ہے۔ یعنی رفاہ میںنسل کشی کریں گے۔جہاں تک رہا بائیڈن کا تعلق تو اس کو امریکن یہودی لابی ایسے جوت پھیرے گی کہ وہ معافیاں مانگتا پھرے گا۔کچھ با اثر امریکنوں نے بائیڈن انتظامیہ کو یا د دلایا کہ اسرائیلی غزہ پر حملے میں جو بے گناہوں کا قتل کر رہے ہیں وہ ان ہتھیاروں سے کر رہے ہیں جو امریکہ بہادر نے دیئے تھے۔ تو شواہد اتنے مضبوط تھے کہ بائیڈن کو پبلک کو بتانا پڑا کہ ہاں ،سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بتایا ہے کہ غزہ پر حملے میں امریکن ہتھیار استعمال کیے گئے تھے اور اسرائیل نے اس طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ ہمارے بزرگ صدر کا حافظہ کمزور ہے۔ جب ۷ اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کی اطلاع ملی تو صدر صاحب اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ اسرئیل کو فوراً ہر وہ ہتھیار بھیجا جائے جو وہ مانگیں۔ اور اب کہہ رہے ہیں کہ وہ ہتھیار اس لیے نہیں بھیجے تھے کہ غزا کے نہتے فلسطینیوں پر استعمال کیے جائیں۔اسرئیلی فوج کے لیے حماس اور نہتے فلسطینیوں، مردوں، عورتوں اور بچوں میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ کیا مذاق ہے؟ کیا امریکن ٹیکس دہندگان کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہیں ہے؟
ادھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کے۱۹۳ ملکوں میں سے ۱۴۳ ممالک نے اس بات پر اپنا ووٹ اثبات میں دیا کہ کیا فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن تسلیم کر لیا جائے ؟ صرف ۹ ملکوں نے نفی میں ووٹ دیا اور ۲۵ ملکوں نے ووٹ نہیں دیا۔اس طرح اب یہ مسئلہ دوبارہ سیکیورٹی کونسل میں پیش کیا جائے گا اور وہاں پھر وہی ہو گا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ یعنی یو ایس اے ایک دفعہ پھر سیکیورٹی کونسل میں اپنا ویٹو کا حق استعمال کر کے دنیا کو بتا دے گا کہ ساری خدائی ایک طرف، جورو کا بھائی ایک طرف۔جب تک ۱۵ ارکان پر مشتمل سیکیورٹی کونسل متفقہ طور پر منظور نہ کرے، کم از کم اس کے مستقل ارکان، کوئی قرارداد منظور نہیں ہو سکتی۔اور جہاں تک دوریاستی حل کا تعلق ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ دو فریقین کے درمیان ہے جب تک وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیں گے، کچھ نہیں کیا جا سکتا۔آج کا فیصلہ فلسطینیوں کو کچھ مزید حقوق اقوام متحدہ میں دے گا جیسے ستمبر ۲۰۲۴ء سے فلسطینی وفد باقی ارکان کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھ سکے گا اگرچہ اسے ووٹ کا حق نہیں ہو گا۔ایک شخصی بیان کے مطابق اب حالت ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ امریکہ اقوام متحدہ کے اخراجات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ تم روٹھے ہم چھوٹے۔ اگر یو ایس اے اقوام متحدہ کو فنڈز کی فراہمی روک دے تواقوام متحدہ اپنا لام لشکر نیو یارک سے اٹھا کر کسی اور ملک میں جا سکتی ہے۔ یہ منظر کشی نئی نہیں۔ پہلے بھی جب ایسے حالات پیدا ہوئے تھے تو جرمنی نے اقوام متحدہ کو بنے بنائے دفتروں کی پیش کش کی تھی۔ اور بھی بہت سے ملک تیار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس قسم کا پیش منظر امریکی حکومت کے لیے نقصان دہ ہو گا خاص طور پر نیو یارک شہر کی اقتصادی اور سماجی حیثیت کو دھچکا لگے گا۔ لوگ بالآخر اسرائیل کو اس کا ذمہ وارٹہرائیں گے جو یقینا
نیو یارک کی یہودی آبادی کو اچھا نہیں لگے گا؟ اس عمل سے جو یہودیوں کے کاروبار، پراپرٹی رینٹل اور ملازمتوں وغیرہ پر پڑے گا وہ علیحدہ۔ سب سے بڑی بات کہ امریکہ بہادرسفارتی میدان میں سب سے بڑا چوہدری نہیں سمجھا جائے گا، جو سیاسی اور سفارتی سطح پر ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا۔
ایک عرصہ سے سن رہے ہیں کہ تین درجن سے زیادہ امریکی کمپنیاں ہیں جو اسرائیل کی غزہ کےخلاف جنگ میں امدادی کام کر رہی ہیں، لہٰذاان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ان میں مشہور ترین میکڈونلڈ، سٹاربکس، وغیرہ ہیں۔ جب ان کمپنیوں کی گذشتہ ۶ ماہ میں کارگذاری پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ واقعی بائیکاٹ سے ان کے بزنس کو نقصان ہو رہاہے۔ اس کی تفصیل بعد میں۔
راقم نے جب کمپیوٹر سے پوچھا کہ غزہ پر جنگ میں کونسی نجی کمپنیاں اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں؟ تو جانتے ہیں کون سی کمپنیاں سامنے آئیں؟ ایسی کمپنیاں جن کا ہم بائیکاٹ بھی نہیں کر سکتے۔ ان سب کی پشت پر ہے امریکہ بہادر۔جی۔ اس کا صدر جو بائیڈن جو اربوں ڈالر اس نسل کشی کے لیے اسرائیل کو دے رہا ہے کہ وہ اس رقم سے امریکی اسلحہ خریدے۔ کوئی اچنبہ؟ نہیں ۔ ہم سب یہ بات ایک عرصہ سے جانتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صدر کون ہے؟ کوئی بھی ہو وہ سب اسرائیل کی خوشنودی میں بچھے جاتے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ جب امریکہ کسی بھی جنگ میں حصہ لیتا ہے، تو وہ در اصل اپنی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی امداد کے لیے کرتا ہے۔جو بالواسطہ ، ملک کی معیشت کو سنبھالتی ہیں۔ اب ذرا توجہ سے پڑھیے:
’’اکتوبر ۲۰۲۳ء سے، حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر اتنی فضائی بمباری کی اور زمینی حملے کیے جس کی مثال نہیں ملتی۔ہزاروںفلسطینی مارے گئے جن میں زیادہ تر نہتے تھے۔ اور غزا کی بیشتر آبادی گھر بدر ہو چکی ہے۔ عالمی عدالت انصاف اور امریکی وفاقی عدالت کے ابتدائی فیصلوں کے مطابق، اور درجنوں اقوام متحدہ کے ماہرین اور قانونی محققین کے مطابق، اسرائیل کے حملے نسل کشی کے مترادف ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر بھی تشدد کے واقعات ، لبنان کے مسلح گروہوں اور شام پر فضائی حملوں میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔
۷ اکتوبر کے فوری بعد امریکی حکومت نے اسلحہ کی ایک بہت بڑی مقدار اسرائیل روانہ کی ۔دس ہزار ٹن سے زیادہ اسلحہ اور ہتھیار۲۴۴ ہوائی جہازوں میں، اور بیس بحری جہازوں میں اسرائیل بھیجا گیا۔ اس مقدار میں پندرہ ہزار سے زیادہ بم تھے اور پچاس ہزار سے زیادہ توپوں کے گولے تھے۔ یہ صرف پہلے ڈیڑھ مہینے میں بھیجا گیا۔ یہ ارسال کردہ سامان جان بوجھ کر عوام کی نظروں میں نہیں لایا گیا کہ کہیں تنقید نہ ہو۔ اور کانگریس نہ کہیں اپنی کاروائی شروع کر دے۔اکتوبر اور مارچ کے درمیان یو ایس نے ایک سو ملٹری کے سودے اسرائیل کو دیے اور صرف دو کا بتایا۔یہ ہتھیار عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے خریدے گئے تھے۔ اور غیر ملکی ملٹری امدا د کی مد سے۔ کچھ اسرائیل نے اپنے پیسوں سے بھی خریدے۔اور ہتھیاروں کی ایک خفیہ مقدار اسرئیل میں امریکہ کے موجود ہتھیاروں کے ذخیرے سے ٹرانسفر کی گئی۔اس ذخیرہ کا مقصد ہی امریکی عوام کی نظروں سے ہتھیاروں کی فراہمی کو چھپانا تھا۔ کیونکہ ایسے ہتھیاروں کا کوئی عوامی اندراج نہیں ہوتا ہے۔
غزہ میں بے پناہ تباہ کاریاں اور جنگی جرائم ، بغیر امریکی اسلحہ کی مسلسل فراوانی کے ممکن ہی نہیں۔ با وجودبے شمار عوامی احتجاجوں کے، بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کو ۱۴ بلین ڈالر دینے کے منصوبہ پر کام کر رہی ہے جس سے اسرائیل اور ہتھیار خرید سکے گا۔اور یہ رقم اس ۸۳بلین ڈالر کے علاوہ ہے جو اسرائیلی ملٹری کو ہر سال دی جاتی ہے۔اسرائیل کو پابندی ہے کہ وہ اس رقم سے صرف امریکہ سے ہتھیار خرید سکتا ہے۔یہ فی الحقیقت کاروباری کمپنیوں کی فلاحی امداد کے پروگرام کی شکل ہے، نہ صرف سب سے بڑے اسلحہ ساز وں ، جیسے لاک ہیڈ مارٹن، آر ٹی ایکس، بوئینگ اور جنرل ڈائنامکس ، جن کے حصص کی قیمتیں بے اندازہ چڑھ چکی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایسی کمپنیاں بھی مستفید ہوئی ہیں جو اسلحہ سازی میں نہیں بلکہ دوسری صنعتوں سے تعلق رکھتی ہیں، جیسے کیٹر پلر، فورڈ اور ٹویوٹا وغیرہ۔
AFSC ایک ایسا کویکر ادارہ ہے جو ایک طویل عرصہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہے جن میں غزہ بھی شامل ہے، وہ اسرائیل اور غزہ کے لڑاکے گروہوں پر اسلحہ کی فراہمی روکنے کے حق میں ہے۔ یہ فہرست ان ہتھیاروں پر توجہ مذکور کرتی ہے جو اسرائیل استعمال کر رہا ہے جب کہ سب فلسطینی گروہوں پر پہلے ہی پابندیاں ہیں اور انہیںمغربی حکومتوں یا کمپنیوں سے کوئی امداد نہیں مل رہی۔ اس تحقیق کا منبع ایسے ذرائع ہیں جو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔جیسے Who Profits اور Data base of Israeli Military and Security Export جو اسرائیلی ادارے New Profileکا منصوبہ ہے۔اس فہرست کو دیکھنے کے لیے اس رپورٹ کو آن لائن دیکھیے:گوگل سرچ پر لکھیے: US companies supporting Israeli war on Gaza۔
امریکی جریدہ بلومبرگ بزنس ویک کے حالیہ شمارے کے مطابق، اسرائیل جنگ بندی کے لیے حماس سے بات چیت کرنے کے لیے راضی ہے اگر حماس اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار ہو۔ ادھر امریکہ اور اسکے حلیفوں کو ڈر ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کہیں اسرائیلی افسران بشمول وزیر اعظم نیتین یاہو کی گرفتاری کے احکامات نہ صادر کر دے، کیو نکہ اس صورت میں اسرائیل جو جنگ بندی پر مذاکرات پر غور کر رہا ہے، کہیں ان سے پیچھے نہ ہٹ جائے؟ ہائے صدقے جاوں اسرائیل دے۔
اس سارے قضیے میں امریکی صدر جو بائیڈن بڑی مشکل میں پھنسے ہیں۔ اگر انصاف سے کام لے تو اسرئیلی لابی اس کے خلاف اور جس کا مطلب آنے والے انتخابات میں ڈیمو کریٹس کی شکست ہو سکتی ہے جو ناقابل قبول ہو گی۔ اگر وہ اسرائیلی مظالم کا جان کر بھی آنکھیں بند رکھے تو بھی انتخابات میں ہار سکتا ہے۔کیونکہ ملک بھر کے طلباء کے مظاہروں نے فلسطینیوں کی نسل کشی پر امریکنوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔بے چارہ بزرگ سیاستدان کرے تو کیا کرے؟
0