جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر نے چند دن پہلے ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کے تاریخی اور بہت دور رس اثرات ہوں گے۔ جی کو بہت غور سے سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی ایک پٹیشن پر دیا گیا۔ تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو چیلنج کیا تھا۔ جس میں سنی اتحاد یا پی ٹی آئی کے ممبروں کے تناسب سے اکسٹرا سیٹیں الاٹ کرنے کا معاملہ تھا۔ الیکشن کمیشن نے بدمعاشی یا ہوشیار سے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں۔ اس طرح حکومتی اتحاد کو دو تھرڈ مجارٹی ایوان میں حاصل ہو گئی تھی اس طرح وہ آئین میں ترمیم بھی کر سکتے تھے۔ فوجی سربراہ کو مزید ۳ سال کی توسیع بھی دے سکتے تھے۔ سب سے اہم بات وہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں بھی مزید توسیع کر سکتے تھے۔ اس دو تہائی اکثریت سے وہ آئین میں جو چاہے ترمیم کر سکتے تھے وہ اپنی حکومت کو بھی ایک سال کی توسیع دے سکتے تھے۔ حکمران اتحاد جو ایک بھان متی کا کنبہ ہے جس میں مختلف جماعتیں اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور مال بنارہی ہیں ان کو ہر طرح کی آزادی مل جاتی اور اس ملک کی تباہی کو کوئی روک نہیں سکتا تھا۔
ان تین ججوں نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ روک دیا لیکن اس فیصلے کے اثرات کہاں تک جائیں گے سب سے پہلے جو صدارتی الیکشن ہوا اس کا نتیجہ کیا ہو گا وہ دوبارہ ہوگا یا جو الیکشن ہو گیا ہے کیا وہ ایسے ہی برقرار رہے گا۔ دوسرے حکمران اتحاد کی دو تہائی کی اکثریت اگر ختم ہو جائے گی تو پی ٹی آئی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آجائے گی اور وہ حکومت بنانے کا حق کلیم کرے گی کہ وہ حکومت بنائے گی اگر ایم کیو ایم اور دوسری پارٹیاں تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں تو وہ آسانی سے حکومت بنا سکتی ہیں پھر آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی اور فیصل نصیر ڈی جی سی کا کیا ہو گا؟ پھر چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کی ایکسٹینشن کا کیا ہوگا؟ یہ ایک طے شدہ فیصلہ ہے کہ چیف جسٹس ہمیشہ سنیارٹی کی بنیاد پر بنتا ہے۔ ان سب فیصلوں کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ بات کہہ دی ہے کہ اب الیکشن کمیشن پابند ہے کہ یہ 23 سیٹیں پی ٹی آئی کو الاٹ کرےاور حکمران اتحاد کی دو تہائی اکثریت کا دعویٰ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا وہ ایک اکثریتی اتحاد بن کر رہ جائے گا جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی اس سے الگ ہو سکتی ہے۔ آصف زرداری صدر برقرار رہیں گے لیکن ن لیگ کی حکومت ختم ہو جائے گی نائب وزیراعظم غائب ہو جائے گا۔
اس فیصلے سے بہت زیادہ فائدہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی ہو گا۔ اگر دو تہائی اکثریت قائم رہی اور جسٹس قاضی عیسیٰ کو عمر کی یا عہدے کی ایکسٹینشن مل جاتی تو جسٹس منصور علی شاہ آئندہ چند ماہ بعد چیف جسٹس نہ بن پاتے اسی طرح نیچے سے اوپر آنے والے ججز بھی کئی چیف جسٹس کی دوڑ سے باہر ہو جاتے۔ جسٹس منصور علی شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ایماندار اور آئین اور قانون کے مطابق چلنے والے جج ہیں۔ پنجاب ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کا ریکارڈ بہت شاندار ہے۔ ان کے اثاثوں کی تفصیلات ان کی سائٹ پر موجود ہے۔ ان کے فیصلے ہمیشہ قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ قاضی عیسیٰ نے جو تحریک انصاف کا نشان ’’بلا‘‘ چھین کر فیصلہ دیا تھا اس کا مذاق صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کی میڈیا میں بنا بھارت میں ایک اینکر نے یہ تک کہہ دیا کہ جسٹس قاضی کوآئین اور قانون کا پتہ ہی نہیں وہ نقل کر کے پاس ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت ان کی اس میزبانی کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع دے کر انعام دینا چاہتی ہے لیکن اس تین ججوں کے فیصلے نے فی الحال ان سب پر پانی پھیر دیا ہے۔ چیف عاصم منیر اور فوجی حکمرانوں کو بھی اس سے سخت مایوسی ہوئی ہو گی وہ جس انداز سے اپنا اقتدار چاہ رہے تھے عدلیہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتی جارہی ہے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی شکایت چل رہی ہے پوری دنیا کی عدلیہ میں فوج کی مذمت کی جارہی ہے اب یہ نیا فیصلہ آگیا ہے جو فوج کے پر کاٹتا چلا جارہا ہے۔ اس کا انجام کیا ہو گا یہ آئندہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
0