وہ گندم کا دانہ ہی تو تھا جس نے آدم کو جنت سے نکلوایا تھا !
آدم کا گناہ یہ تھا کہ اس نے اللہ کی حکم عدولی کی تھی اور وہ منصفِ ازل کا انصاف تھا جس میں کسی کے ساتھ رو رعایت نہیں ہوتی۔ اس عادل و خالق کی عدالت کا یہی دستور ہے کہ رائی کے برابر بھی نیکی ہے تو اس کا اجر ہے اور رائی کے برابر بھی گناہ ہے تو اس کا حساب ہے!
لیکن اس مملکت میں جو اللہ کے نام پر حاصل کی گئی عدل کی تعریف یوں ہے کہ کمزور اور بے آسرا تو اگر ایک روٹی بھی چراتا ہوا پکڑا جائے تو اس کیلئے قانون کی گرفت بہت سخت ہے لیکن امیر اور با اثر اگر اربوں روپے کی گندم کا گھپلا کرلے تو اس کا کوئی مواخذہ نہ حساب!
پاکستان کا نیوز میڈیا تو اب صرف نمائش کیلئے ہے لہٰذا اس کی بات پر تو کوئی ذی ہوش پاکستانی نہ متاثر ہوتا ہے نہ پریشان لیکن سوشل میڈیا نے اپنا جو معیار بنالیا ہے وہ صاحبانِ فہم و دانش کیلئے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہے لیکن پاکستان کو نوچ نوچ کر کھانے والی اشرافیہ کیلئے وہ درد سر بن گیا ہے۔
تو پاکستان میں جو ان دونوں سب سے بڑی خبر ہے وہ گندم کا اسکینڈل ہے جس سے طاقتور اشرافیہ اور اس کے سرپرست اور سہولت کار بہت پریشان ہیں۔ سوشل میڈیا میں اس کو یوں سہولت سے بیان کیا گیا کہ گندم کا ایک دانہ آدم کو جنت سے نکلوانے کیلئے کافی تھا لیکن پاکستان میں اربوں کی گندم کا فراڈ کرنے والے اپنے اقتدار کی جنت میں کمال اطمینان سے رہیں گے کیونکہ اول تو احتساب نام کی کسی چیز کا طاقتور اشرافیہ کیلئے کوئی وجود نہیں ہے اورعوام کو سبز باغ دکھانے کیلئے اگر احتساب کا ڈرامہ رچایا بھی جائے تو سزا کا مستحق ان کھلاڑیوں یا اداکاروں، بلکہ کلاکاروں، میں کوئی نہیں ہوگا جنہوں نے اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے، اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے ایک ایسے ملک کے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر (1۔1 ارب ڈالر) یوکرین سے وہ سڑی ہوئی گندم درآمد کرنے پر بہادئیے جسے جانور بھی کھائیں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں!
گندم اسکینڈل کی شروعات اسی کٹھ پتلی وزیر اعظم کے دور اقتدار میں ہوئی جسے پاکستان کے وردی پوش فراعین نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے بعد اقتدار کی مسند پہ بٹھا یا تھا۔ اور وہی کٹھ پتلی اب 8 فروری کو قوم کے ساتھ بھیانک مذاق کرنے کے بعد، اور عوام کا وہ مینڈیٹ چرانے کے بعد جو انہوں نے عمران خان اور عمران کی سیاسی جماعت، تحریکِ انصاف کے حق میں واشگاف انداز میں دیا تھا پھر سے وزیر اعظم بنا کر قوم پر مسلط کردیا گیا ہے !
شہباز شریف حکومت نے اپنے پہلے دورِ اقتدار میں گندم کی درآمد کا معاملہ جولائی 2023ء تک التوا میں رکھا۔ کیوں رکھا؟ اس راز پر سے تا حال پردہ نہیں اٹھا ہے اور شاید کبھی نہ اٹھے لیکن غالب امکان یہ ہے کہ وہ چور جو جرنیلوں کی مہربانی سے مختلف وزارتوں میں بٹھا دئیے گئے تھے آپس میں دست و گریباں تھے کہ گندم درآمد کرنے کا قرعہء فال کس کے حق میں نکلے۔
لیکن وہ جو نگران حکومت مسلط کی گئی تھی اس کے کھلاڑی یا کلاکار اپنا کام بہت تیزی سے دکھا گئے۔ ملک میں گندم کی قلت کا پہلے شوشہ چھوڑا گیا جبکہ زراعت کے ماہرین کا یہ کہنا تھا، جو سو فیصد درست ثابت ہوا کہ وہ فصل جو 2023ء کے خریف یا خزاں میں بوئی گئی تھی اور جو اس سال بہار یا ربیع کے دور میں ابھی چند ہفتے پہلے کاٹی گئی بہت بار آور فصل ہوگی جسے عام زبان میں بمپر کروپ کہا جاتا ہے۔
لیکن نگران حکومت کے چور اور اٹھائی گیرے تو مال بنانے کیلئے آئے تھے اور انہیں یہ احساس تھا کہ ان کے پاس کام دکھانے کیلئے چند مہینے ہی تھے جس میں انہیں اپنی تجوریاں بھرنے کا کام کرنا تھا۔ تو ہوا یہ کہ وہ جو کاکڑ نام کا ایک نگراں وزیر اعظم جرنیلوں نے قوم کے سروں پہ بٹھایا تھا اس کی سرپرستی اور ایماء سے طے ہوا کہ پاکستان میں گندم کی قلت ہونے والی ہے اور عوام کی ہمدردی کے نام پر فیصلہ ہوا کہ ممکنہ قلت سے بچنے کیلئے یوکرین سے گندم منگوائی جائے گی۔
یوکرین سے سامراج کے غلام جرنیلوں کی سرپرستی میں تعلقات کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں ۔ یوکرین پر عمران حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی نے ہی تو امریکی سامراج کو عمران کا دشمن بنایا تھا اور ملت فروش قمر باجوہ نے اپنے امریکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے رسوائے زمانہ چور سیاستدانوں کی منڈلی جمع کرکے عمران حکومت کا تختہ الٹوایا تھا۔ اس کے بعد سے مغربی میڈیا یہ اطلاعات دیتا آیا ہے (پاکستان کا نیوش میڈیا تو جرنیلوں نے اپنے تابع فرمان کرلیا ہے ) کہ پاکستان سے بڑی مقدار میں اسلحہ یوکرین کو برآمد کیا جارہا ہے جسمیں جرنیلوں کی ساجھے داری ہے کیونکہ امریکی سامراج ان کرپٹ جرنیلوں کی مدد سے ہی پاکستان کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے اور عمران سے عناد کی بنیاد یہی تھی کہ وہ غلامی کیلئے آمادہ نہیں تھا!
سو نگران حکومت نے اکتوبر کے وسط میں فیصلہ کیا کہ یوکرین سے گندم منگوائی جائیگی۔ کلاکار پہلے ہی اپنا کام کرچکے تھے اور گندم نگران حکومت کے فیصلے سے پہلے ہی جہازوں پر پاکستان کیلئے روانہ ہوچکی تھی ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حکومت کے فیصلہ کے سات دن بعد گندم سے لدا جہاز کراچی کی بندرگاہ پہ لنگر انداز بھی ہوگیا جبکہ تیز سے تیز بحری جہاز بھی یوکرین سے کراچی تک کا بحری سفر کم از کم تین سے چار ہفتے میں طے کرتا ہے۔
اعداد و شمار کے بموجب نگراں چور حکومت نے 28 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جس کی قیمت 250 ارب روپے تھی۔ لیکن ملک کے خزانے کو گندم کی درآمد کے نام پر لوٹنے کا سلسلہ نگران حکومت کے ختم ہوجانے کے بعد بھی جاری رہا اور چور شہباز کی موجودہ حکومت نے مزید سات لاکھ ٹن گندم درآمد کی جس کی قیمت اسی (80) ارب روپے تھی۔
یوں کل ملاکے 35 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے منگوائی گئی جس پر ملک کے 1۔1 ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ خرچ ہوا اور یہ ایسے وقت ہوا جب اسی رقم کیلئے حکومت آئی ایم ایٖف کی منت سماجت کررہی تھی ، اس کے سامنے بھیک کا پیالہ لئے کھڑی تھی اور التجائیں کر رہی تھی کہ یہ رقم ، جو بہر حال قرض ہے، اسے نہ ملی تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا اوراس بہانے سے عوام پر اس حوالے سے مزید مہنگائی کا بوجھ لاد رہی تھی!
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ درآمد کردہ یوکرینی گندم میں سے کم از کم آدھی گندم اس قابل بھی نہیں کہ جانور بھی اسے کھاسکیں چہ جائیکہ انسانوں کی وہ خوراک بنے۔
عوام تو خیر اشرافیہ اور اس کے سہولت کار جرنیلوں کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں اور کسے پرواہ ہے کہ وہ جو کھا رہے ہیں وہ ان کے بدن اور صحت کا کیا حشر کرے گا۔
لیکن قدرت نے اپنا جلوہ یوں دکھایا کہ گندم کی پاکستانی فصل جو اس ربیع میں کاٹی گئی وہ اندازوں سے کہیں زیادہ نکلی۔ لیکن حکومت اپنی پاکستانی گندم جو پاکستان کی زرخیز مٹی نے اور پاکستان کے محنت کش کسانوں نے اپنا پسینہ بہاکر اُگائی ہے اب خریدنے کو تیار نہیں۔
عذر یہ ہے کہ غلہ رکھنے کیلئے جو کھلیان ہیں وہ تو یوکرین کی ناقص گندم سے بھرے ہوئے ہیں تو حکومت مزید گندم اپنے کاشتکاروں سے خریدے تو اسے رکھے گی کہاں؟
لیکن غریب کسان اگر اپنی فصل حکومت کو نہ بیچے تو کہاں جائے؟ کیسے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالے؟ کہاں سے اگلی فصل اُگانے کیلئے بیج حاصل کرے؟ اس غریب کے پاس الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ جسے جلائے اور جو چاہے حاصل کرلے۔
کسان حکومت کے انکار پر احتجاج کیلئے باہر سڑکوں پر آئے تو پنجاب پولیس، جس کیلئے عوام پر تشدد کرنا اس کا مرغوب کھیل بن چکا ہے، نے ان پر لاٹھیاں برسائیں۔ پنجاب پولیس کو اپنی غنڈہ گردی کرنے کیلئے یزید عاصم منیر اور اس کے ماتحت جرنیلوں کی آشیر واد میسر ہے اور تحریکِ انصاف کے کارکنان، بشمول خواتین، پر ظلم کرتے کرتے اب پنجاب پولیس کا رویہ بھی پاکستانی عوام کے ساتھ من و عن وہی ہے جو اسرائیل کی صیہونی حکومت کی فوج اور پولیس کا اپنے مقبوضہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے!
شہباز شریف کا زیادہ وقت تو سعودی حکمرانوں اور اپنے باوردی مربیوں کی چاپلوسی کرنے میں لگ جاتا ہے لیکن اب جب کسانوں نے یہ اعلان کردیا کہ وہ 10 مئی سے پورے ملک میں احتجاج کی مہم چلائینگے تو شہباز کو بھی ہوش آیا ہے۔
لیکن پاکستانی اشرافیہ کو جب کسی معاملہ کو التوا میں ڈالنا مقصود ہو تو اس کے پاس ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے اور شہباز نے بھی وہی لکیر کی فقیری دکھاتے ہوئے گندم اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی بنادی ہے۔ کمیٹی کتنی با اثر ہوگی یا کس نیک نیتی یا بد دیانتی سے اپنا فریضہ نبھائے گی اس کا اندازہ تو اسی سے ہورہا ہے کہ کمیٹی کا سربراہ ایک سرکاری اہلکار ہے، وفاقی حکومت کی ایک وزارت کا سیکریٹری۔
پاکستانی بیوروکریسی ویسے ہی اپنی کرپشن کیلئے عالمی شہرت رکھتی ہے اور ویسے بھی گذشتہ چار دہائیوں سے یہ جو دوسیاسی شعبدہ گر خاندان، بھٹو (یا اب زرداری) اور نام کے شریف، پاکستانی سیاست سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں انہوں نے نوکر شاہی کو بھی اپنی کرپشن کے رنگ میں رنگ لیا ہے۔ سو کمیٹی سے یہ توقع رکھنا بےسود ہوگا کہ وہ اس بڑے اسکینڈل کو بے نقاب کرسکے گی یا ان کلاکاروں کا مواخذہ کرنے کی جسارت کرسکے گی جنہوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے کہ بقول کسانوں کے چھ کڑوڑ کسانوں کو بے یار و مددگار کردیا ہے اور ایک مفلوک الحال ملک کے خزانے کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا ، بقول شخصے، ٹیکہ لگایا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ دانہء گندم آدم کو جنت سے نکلوا سکتا ہے لیکن پاکستان کے تالاب میں جو مگر مچھ منہ پھاڑے ملک کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں ان کا یہ گندم کا اسکینڈل بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
جرنیلوں کے مقبوضہ پاکستان میں بولنے کا حق صرف انہیں حاصل ہے جو یزیدی جرنیلوں کے منظورِ نظر ہیں اور آنکھ کے تارے وہی ہیں جو گذشتہ دو برس سے پاکستانی عوام کے سینوں پر مونگ دلتے آئے ہیں۔ سو گندم اسکینڈل کی تحقیقات کا انجام بھی وہی ہوگا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا!
چلتے چلتے اس صدی کا سب سے بڑا اور بھونڈا مذاق بھی سنتے جائیے۔ عاصم منیر کا یہ کہنا ہے کہ ’’ہم آئین کی پاسداری جانتے ہیں!‘‘
الامان و الحفیظ ! یہ دعوی اس قبیلہ کا موجودہ سربراہ کررہا ہے جو پچھلے ستر برس سے آئین کی دھجیاں بکھیرتا آیا ہے اور اسی عمل کے نتیجہ میں پاکستان کا مشرقی بازو اس کے تن سے جدا ہوچکا ہے!
ایک اور بہت ہی بھونڈا مذاق: ڈکیت زرداری نے سندھ کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ کراچی میں بڑھتے ہوئے کرائمز کا سد باب کیا جائے! یہ فرمان، یہ مذاق ، اس کا ہے جس نے اندرونِ سندھ کو تو قرونِ وسطیٰ کا نمونہ بنادیا ہے اور کراچی کو لوٹنے اور تاراج کرنے کیلئے اس نے اندرون سندھ سے اپنے ڈکیت کراچی کی سڑکوں پر چھوڑ دئیے ہیں جنہیں کھلی چھٹی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں کراچی کے بے بس شہریوں کولوٹیں ان کو نہ پکڑا جائے گا نہ ان سے کوئی حساب لے گا!
حساب کیلئے تو کراچی کیا پاکستان کے ہر بے طاقت فرد کو یومِ حساب کا انتظار کرنا ہوگا اس لئے کہ پاکستان میں تو انہیں انصاف ملنے سے رہا!
0