سوشل میڈیا پر دھنا دھن ،اچھی بری خبریں اور چٹکلے آ رہے ہیں کہ قارئین کو ان سے باخبر کرنا توبنتا ہے۔ کچھ میٹھی، کچھ کھٹی اور کچھ عبرت آمیز۔ملا جلا مصالحہ ہے۔ ادھر ہمارے آقا ملک میں فلسطینیوں کے لیے مظاہرے۔ ملاحظہ ہو:
’’نو مئی کے ماتمی جلوس کے لیے وزیر داخلہ محسن نقوی کی ہدایت پر سیکیورٹی پلان تشکیل دے دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ جلوس جاتی امراء سے برآمد ہو گا اور لاہور کے مقامات سے ہوتا ہوا شام کو چار بجے جناح ہائوس پر اختتام پذیر ہو گا۔اس کے حوالے سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ دس ہزار پولیس اور رینجرز کے جوان اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں گے۔ لاہور اور اسکے مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس معطل رہیں گی۔ شام کو وزیر اعلیٰ مریم نواز ہیلی کاپٹر پر فضائی نگرانی بھی کریں گی۔ جلوس کے اختتام پر وزیر داخلہ جناح ہائوس پر چادر چڑھائیں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف مختلف علاقوں کا دورہ کریں گے اور ۹مئی کی یادگاروں پر چادریں چڑھائیں گے۔ اور ۹ مئی کو ۲۱ توپوں کی سلامی سے دن کا آغاز کیا جائے گا۔ ۹ مئی کا روزہ رکھنا لازمی قرار ۔فتویٰ جاری۔‘‘ ’’ضروری اعلان: لوگوں کو اغوا کر کے تشدد کرنا، جعلی پرچے کرنا، ہزاروں گھر توڑنا، سابق وزیر اعظم پر قتل کی ایف آئی آر نہ ہونے دینا، فارم ۴۷ کے ذریعے مینڈ یٹ پر ڈاکا ڈالنا، عدلیہ کو ہراساں کرنا، لوگوں کے بیڈ روم میں کیمرے لگانا۔ یہ سب کچھ آج سے آئینی حدود کے اندر رہنا کہلائے گا‘‘ حماد اظہر ’چلیں آج سے ہم ایک بائیکاٹ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں۔ تمام آرمی کی،نیوی کی، ایر فورس کی ، ججز کی،بیوروکریسی کی ٹیکنو کریسی کی، وزیر اعظم کی ، وزیر اعلیٰ کی، وزیروں کی ، مشیروں کی، تمام جو گاڑیاں ہیں ان کو فروخت کر دیا جائے، وہ اپنے ذاتی پٹرول اور ذاتی گاڑیوں میں دفتروں میں پہنچیں۔ان کی تمام فری بجلی، فری گیس کے بل ختم کیے جائیں۔وہ بھی بجلی کے بل اپنی تنخواہوں سے ادا کریں جس طرح عام تنخواہ دار اور عام شخص ادا کر رہے ہیں۔تمام غیر ملکی پرڈکٹس کو استعمال کرنا بند کردیں۔ایک مہینے کے اندر اربوں روپے کی بچت ہو گی۔ایک سال کے اندر آپ کے اندرونی اور بیرونی قرضے اور خسارے ہیں ختم ہو جائیں گے۔قیمتیں وہی دوبارہ مل جائیں گی جو پچاس سال پہلے موجود تھیں۔او ر سب سے آخری اور ضروری بات ، یہ کسی بھی ایک سیاسی پارٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔آپ نے یہی باتیں پرنٹ کرنی ہیں اور اپنے عزیزوں میں، دوستوں میں اور دوکانوں پر جاکر دینی ہیں۔یہ پوری قوم کا مطالبہ ہو گا ان سے کہ اب ہمارے ٹیکسز پر ان کی بدمعاشیاں اور عیاشیاں برداشت نہیں کر سکتے۔اگر تنگی ہی کاٹنی ہے تو یہ تنگی ان پر شروع ہو گی، ۷۶ سال سے غریب عوام نے بہت تنگی برداشت کر لی۔‘‘ ڈاکٹر حسن۹۲۶۳
روزنامہ ڈان کی خبر:’’حکومت نے مقامی بینکوں سے مہنگے ترین داموں پر قرضہ لیا ہے۔ اور وہ بھی سب سے اونچی ریکارڈ توڑ سود کی شرح پر (۲۱ فیصد)۔ جس کے نتیجہ میں موجود ہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں جتنا مالیہ اکٹھا ہوا تھا اس کا تین چوتھائی اس قرضہ کے سود کی ادائیگی میں چلا گیا۔ آسان لفظوں میں حکومت نے پرانے قرضے کی ادائیگی کے لیے نیا قرضہ لیا۔اور وہ بھی زیادہ کیونکہ آئیندہ بجٹ میں خسارہ جو نظر آ رہا تھا۔سٹیٹ بینک کی خبر کے مطابق ، حکومت نے کل پونے چھ کھرب روپے کا قرضہ لیا جس میں سے ساڑھے پانچ کھرب صرف سود ادا کیا۔ اس خوفناک لین دین میں موجودہ اور گذشتہ عبوری حکومت دونوں کا حصہ ہے۔ڈان کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت نے اس دفعہ سب حدود پھلانگ لی ہیں۔یہ بڑے خطرناک حالات ہیں۔‘‘ اگر اب بھی حکومت نے اللے تللے نہ چھوڑے ، اور اپنی عیاشیاں ختم نہ کیں، سیاستدانوں اور دفاعی محافظوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی مراعات ختم نہ کیں تو عوام پر ایسی بجلی گرے گی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔حکومت قرضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ڈیفالٹ میں چلی جائے گی یعنی دیوالیہ ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی بینک بھی۔ یہ ریت کا محل دھڑام سے گرے گا۔اس کو ہماری بہادر افواج بھی نہیں سنبھال سکیں گی۔ ہماری بہادر افواج بھی آجکل سوشل میڈیا کے نشانے پر ہیں۔
جنرل عاصم منیر کی تصویر پر یہ عبارت دیکھیے:’’سارا دن فوج پر تنقید کرنے والوں، اگر پاک فوج نہ ہوتی تو تمہارا ووٹ کون چوری کرتا؟‘‘۔ (یہ کتنی غلط بات ہے ۔ کیا کسی کے پاس ثبوت ہے کہ جنرل عاصم منیر نے ووٹ چوری کیے؟ ان کے ماتحتوں نے اگر یہ حرکت کی تو ان کا احتساب ہونا چاہیے۔)
’’جنرل ریٹائرڈ عبدل عزیز کو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا چیر مین تعینات کر دیا گیا ہے‘‘۔
اور تو اور، ہمارے پیارے، نون لیگ کے دلارے، جناب حامد میر نے سنا ہے کہ ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے فوج کو ملنے والی مراعات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ پڑھ کر پہلے تو یقین نہیں آتا لیکن جب کرپٹ سیاستدانوں کا سوچتے ہیں تو یقین آجاتا ہے۔ابھی شاہین صہبائی صاحب، ایک بزرگ معتبر صحافی، کا نوٹ دیکھیے:ـ
’’کیسی لمبی پلاننگ، واہ: نوشہرہ کے توپ خانہ سکول میں کیڈٹ کو سٹاک ایکسچینج میں پیسہ لگانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ خاص استادوں کو بلوا کر ۔ یہ کورس اسٹاک ایکسچینج والے کروا رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے یہ بچے جب میجر، کرنل بنیں گے تو ان کے پاس اتنا مال ہو گا وہ بڑی بڑی کمپنیوں کے شیر خریدیں گے اور امیر سے امیر تر ہوتے رہیں گے۔ جب وہ جرنیل بن گئے تو پورے پاکستان کے شیئران کے پاس ہو نگے۔ اور وہ مالک ہونگے۔ فوج میں اگلے ۵۰ سال مال بنانے اور حکومت کرنے کا پروگرام بنا ہوا ہے۔اگر پاکستان بچ گیا تو۔ورنہ سندھو دیش، یا آزاد خیبر یا متحدہ پنجاب میں بھی تو اسٹاک ایکسچینج ہوں گے۔اگر چوری کرتے پکڑے گئے تو بھی یہ ٹریننگ بہت کام آے گی۔بیکار تو نہیں رہیں گے۔ واہ!!! توپ خانہ تو کوئی بھی سپاہی چلا سکتا ہے۔ ۲۱ یا ۳۱ توپوں کی سلامی ہی تو دینی ہے، کونسی جنگ پر جانا ہے؟۔‘‘ اب بیچارے فلسطینیوں کی بھی سنیئے، جن کی حمایت میں امریکہ بہادر کی تقریباً ہر یونورسٹی میں طالبان نے مظاہرے کیے۔ ایک رپورٹ ملاحظہ ہو:
نیو یورک ٹائمز کی خبر کے مطابق، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس انجیلس میں جب فلسطینیوں کے حامی اور مخالف گروہوں میں تصادم بڑھ گیا تویونیورسٹی نے پولیس کو بلایا۔بدھ سے ایسے تصادم ملک کی بہت سی یونیورسٹیز میں بڑھ رہے تھے۔ احتجاجیوں نے یونیورسٹیز کے احاطے میں قبضہ جما لیا تھا ور خیمے گاڑ دیے تھے۔اور انتظامیہ کی عمارات میں قابض ہو گئے تھے۔نیو یورک کے مئیر ایرک ایڈم نے بتایا کہ کولمبیا یونیورسٹی اورنیو یورک سٹی کالج سے منگل کی رات تک تین سو احتجاجیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اور احتجاجیوں سے ایک بلڈنگ خالی کروا لی گئی جہاں غزا میں اسرئیلی جنگ کے خلاف احتجاج جاری تھا۔پولیس کا کہنا تھا کہ احتجاجی سٹوڈنٹ نہیں بلکہ باہر سے آئے ہوئے نوجوان تھے۔لیکن یہ نہیں بتایا کہ طلباء کتنے تھے اور باہر سے کتنے آئے ہوئے تھے۔’’ یہ شر پسند ہمارے شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں اور ہم یہ نہیں کرنے دیں گے۔‘‘ مئیر ایڈم نے کہا۔کولمبیا یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ (مصری نژاد) نعمت شفیق نے پولیس کو خط میں یہ لکھ کر کہ ’’ کیمپس میں ہونے والے واقعات نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم پولیس کی مدد مانگیں۔‘‘ بلایا۔ پولیس کے افسر ۱۷ مئی تک کیمپس پر رہیں گے۔جس دوران میں گریجوائشن کی رسم ادا کی جائے گی۔یاد رہے کہ آخری مرتبہ جب طلباء نے بلڈنگ پر قبضہ کیا تھا تو وہ اپریل 1968 میں تھا جب کہ ویت نام کی جنگ کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے تھے۔ ٹائمز کی خبر میں جو مظاہروں کا نقشہ دیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر کے ملک کے طو ل و عرض میں طلباء نے ، اور اکثربشمول ان کے پروفیسروں کے،فلسطینیوں پر ہونے والے تشدد اور غزا پر اسرائیلی محاذ آرائی کے خلاف مظاہروں کا تانتا باندھ دیا ہے ۔ دلچسپ امریہ ہے کہ زیادہ مظاہرے ایسی یونیورسٹیز میں ہوئے ہیں جنہیں آئی وی لیگ کہتے ہیں ، یعنی ملک کی اعلیٰ ترین درس گاہیں۔راقم کو یاد ہے کہ 1965میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے برکلے کیمپس میں ویت نام کی جنگ کے خلاف ایک طلباء کی تحریک چلی۔ جب ان طلباء کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ آزادی گفتار جس کا تحفظ امریکی آئین دیتا ہے ، وہ کہاں گئی؟ تو اس پر ایک اور تحریک شروع کی گئی جسے فری سپیچ موومنٹ کا نام دیا گیا۔جس کا مقصد آزادی تقریر کا حق منوانا تھا۔برکلے کی اینٹی ویت نام جنگ کی تحریک آہستہ آہستہ پورے امریکہ میں پھیل گئی۔ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ امریکہ نے ویت نام کی جنگ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا پتہ کہ یہ موجودہ طلباء کی مہم فلسطینیوں پر اسرائیلی جنگ کے خاتمہ کا پیش خیمہ بن جائے؟ ایسے مظاہرے حکمرانوں کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔راقم کو موجودہ تحریک میںوہی منظر نظر آتے ہیں جو کہ ویت نام کی جنگ کے خلاف مظاہروں میں نظر آتے تھے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کو آنے والے انتخابات میں موجودہ حکومت اپنے لیے ایک منفی تاثر سمجھے؟ اور اسرائیل پر حقیقی دبائو بڑھائے کہ وہ غزا ءمیں انسانی حقوق کی پائمالی ختم کر کے اپنے جبر و تشدد کا خاتمہ کرے اور فلسطینیوں کو غزاء سے نکالنے کے خواب دیکھنا بند کر دے۔امریکہ کی بد قسمتی سے یہاں کی حکومتیں جن لوگوں کے اشاروں پر ناچتی ہیں، وہی فلسطینیوں کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔دوسرے لفظوں میں جب تک امریکن اسرائیلی پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کی اجازت نہیں ملے گی ، بے چارہ جو بائیڈن شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان میں اٹکا رہے گا۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کہا کہ غزاء پر امریکن عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ جنگی ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور اسلحہ سے حملے کیے جارہے ہیں ۔ اس کا حساب ہونا چاہیے۔ اور جو کولمبیا یونیورسٹی کے صدر اور اسکی کابینہ نے پولیس کوبلوا کر طلباء کو گرفتار کروایا ایک نہایت قابل شرم بات ہے۔ اس نے کہا کہ ۱۹۶۸ میں بھی ایسا ہوا تھا جس پر اس وقت کے صدر کو معافی مانگنی پڑی تھی۔ شرم شرم کے نعرے لگائے گئے۔ امریکی حکام ، اور دنیا کے سیاستدانوں کی طرح طلباء کے مظاہروں کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ وقتی بلبلے ہوتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں اور طلباء سوائے کچھ اہم معاملات پر بیداری پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں کرتے، اوربس اپئے کلاس روموں اور امتحانات میں گم ہو جاتے ہیں۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ کو ویت نام میں جنگ بند کرنی ہی پڑی جس میں طلباء کا کردار چھپایا نہیں جا سکتا۔اس وقت غزا ءکی حمایت میں طلباء کا احتجاج بھی ضرور رنگ لائے گا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اسرائیل کے سامنے امریکی حکومتوں کی بے بسی کا مظاہرہ تو ہو ہی گیا۔در پردہ ممکن ہے کہ نیتین یاہو پر دبائو بڑھ رہا ہو کہ وہ غزاء پر ہاتھ ہولا رکھے۔اگرچہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو ہر قسم کا مہلک ترین ہتھیار مہیا کیا ہے، جو اسرائیل نے بے دریغ غزا ءپر استعمال کیے اور کرر ہا ہے۔اگر دنیا میں انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم پر کسی عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکے تو اس میںاسرائیل کے ساتھ ریاستہائے متحدہ بھی برابر کا شریک ہو گا۔اور طلباء کے مظاہروں میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔
0