مئی کا مہینہ سید ضمیر جعفری کی یادوں سے معمور مہینہ ہے ۔اس مہینے کے وسط میں چک عبدالخالق کا فرزند اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گیا تھا۔سید ضمیر جعفری نے جدوجہد ، محنت ، کمال فن ، اعتراف عظمت اور تکریم اجتماعی سے بھرپور زندگی گزاری۔ اب تو وہ اللہ میاں کے پاس ہیں۔جہاں نہ مکان کا کرایہ دینا پڑتا ہے ،نہ بجلی ،گیس اور پانی کے بل ادا کرنے پڑتے ہیں ۔یقینا اللہ میاں کے ہاں رہنے سہنے کا بہت اچھا انتظام ہوتا ہو گا۔مولوی تو نہیں بتاتا مگر میرا خیال ہے کہ وہاں مطالعہ کرنے کے لیے بہت بڑا کتب خانہ اور لکھنے کا سامان اور سہولیات بھی دستیاب ہوتی ہوں گی۔ لیکن تب وہ سیکٹر جی نائن ون کی گلی نمبر 33 کے مکان نمبر 23 میں رہتے تھے۔مکان کے باہر یعنی گیٹ کے ستون پر جلی حروف میں “کاشانۂ بلبل” لکھا ہوا تھا .یہ مکان برطانیہ میں مقیم معروف شاعر بلبل کاشمیری کا تھا،اور سید ضمیر جعفری اس میں رہتے تھے۔ایک بار مجھے رخصت کرنے اپنے مکان کے گیٹ تک آئے،اور دیر تک کھڑے باتیں کرتے رہے ،پھر اچانک کاشانۂ بلبل پر نظر پڑی،پہلے مسکرائے ،پھر کھلکھلا کر ہنس پڑے اور زوردار ہنسی کے ساتھ ہلتے ہوئے کہنے لگے دیکھو یہ دیکھو کاشانۂ بلبل میں ہاتھی رہتا ہے۔سید ضمیر جعفری سے میری پہلی ملاقات اور تعارف بھی اسی سیکٹر جی نائن ون میں ہوا تھا۔ میں ان دنوں علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اقبالیات میں لیکچرار تھا، اور اسی سیکٹر میں رہائش پذیر تھا۔سید ضمیر جعفری ان دنوں سیکٹر جی نائن ون میں رہائش پذیر تھے، اور میرے ہمسائے تھے ، وہ ہر روز ، علی الصبح پھولدار گاؤن پہن کر گھر کے سامنے سڑک پر واک کیا کرتے تھے ۔میں صبح ساڑھے سات پونے آٹھ بجے یونیورسٹی جانے کے لیے گھر سے نکلتا تھا سڑک کے کونے پر یونیورسٹی کی کوسٹر آیا کرتی تھی ۔بس اسی سڑک پر پہلی بار سید ضمیر جعفری صاحب سے ملتے جلتے ایک حضرت محوِ خرام نظر آئے ،گمان گزرا کہ کہیں دیکھے ہوئے ہیں، کوئی معروف شخصیت ہیں ؟ کون ہیں؟ اگلی صبح جب واک کرتے ہوئے پاس سے گزرے تو میں نے سلام کر کے پوچھا کہ حضور کہیں آپ سید ضمیر جعفری صاحب تو نہیں؟ حیران ہوئے، پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے ہنسنے لگے ، آپ نے پہچاننے میں دو دن لگا دیئے ،ہاہاہاہا۔پھر میں نے اپنا تعارف کرایا۔کہنے لگے یہ صبح صبح کہاں جاتے ہو؟ کہا کہ یونیورسٹی جاتا ہوں ۔مگر یونیورسٹی تو کئی روز سے بند پڑی ہے (ان کا اشارا قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف تھا جو ان دنوں بھی کسی قضییے کی وجہ سے بند تھی۔) میں نے وضاحت کی کہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں جو ہر حالت میں اوپن رہتی ہے۔سید ضمیر جعفری اکادمی ادبیات پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے ۔ان دنوں اکادمی ادبیات پاکستان کا دفتر سیکٹر ایف ایٹ فور کے اسکول روڈ پر، مکان نمبر 35 میں ہوا کرتا تھا۔مکان اتنا بڑا ضرور تھا کہ اس میں ایک نوزائیدہ ادارے کے دفاتر جملہ اہل کاروں سمیت سما سکیں۔ہماری یونیورسٹی البتہ اس وقت بھی سیکٹر ایچ ایٹ میں ہوا کرتی تھی۔ان دنوں یونیورسٹی صرف چار بلاکس پر مشتمل تھی اور ہمارا شعبہ دوسرے بلاک کی پہلی منزل پر ہوتا تھا۔
سید ضمیر جعفری ڈائری بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔کبھی تھوڑا ،کبھی زیادہ لیکن ہر روز لکھتے ضرور تھے۔اشعار لکھنے کے لیے بڑے سائز کے رجسٹر اپنے پاس رکھتے،گتے کی جلد والے رجسٹر میں نیلے یا کالے رنگ کے باریک چونچ والے مارکر سے لکھتے۔ لکھتے ذرا جلی حروف میں تھے ،اس طرح لکھنے اور پڑھنے دونوں میں آسانی رہتی تھی۔ایک بار میں ان کے کاشانۂ بلبل والے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔حضرت حکومت وقت کے چال چلن سے خوش نہیں تھے۔اور اسی حوالے سے گفتگو بھی ہو رہی تھی ۔ڈرائنگ روم کا گھر کے اندر کی طرف کھلنے والا دروازہ پورا کھلا ہوا تھا۔اچانک ایک بزرگ خاتون سامنے آئیں اور ضمیر جعفری صاحب سے کچھ بات کی ۔یہ اٹھ کر بات سننے کے لیے اندر چلے گئے اور وہیں کھڑے کھڑے باتیں کر کے واپس آگئے ۔میں نے پوچھا خیریت؟
ہاں خیریت
آپ کی بیگم ہیں؟
ہاں ہیں تو ، پر اس عمر میں بیگم بہن بن جاتی ہے۔
کچھ ناراض لگتی ہیں
او ہاں، اور کیا ہوں گی اب۔۔۔ناراض ہی ہوں گی۔۔۔بس کیا ہے، آسیب کی طرح پھرتی رہتی ہیں گھر میں ،اور میں بھی بھوت بن کر یہاں بیٹھا رہتا ہوں
ہم ہنس پڑے۔ضمیر جعفری یک دم سنجیدہ ہو گئے ” اس عمر کی رفاقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ میاں بیوی جوانی میں تو شاید ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے ہوں،بڑھاپے میں ایک دوسرے کے بغیر جی نہیں سکتے پھر تھوڑا توقف کر کے بولے اس عمر میں دونوں کو ایک دوسرے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے پھر بات بدلنے کے لیے پوچھنے لگے تم سناؤ تمہاری بیگم کیسی ہیں؟ میں نے جواب دیا۔ وہی ہیں خوب ہنسے اور کہنے لگے اچھا اچھا ،بس اسی سے گزارا کرو
اوطاق ہماری یونیورسٹی کا ایک ادبی فورم تھا۔بڑی دھوم دھام سے شروع کیا گیا یہ فورم واقعتاً اسلام آباد کی نیم خوابیدہ زندگی میں ایک ہلچل کی طرح سے تھا۔ایک روز وائس چانسلر ڈاکٹر جی اے الانا کہنے لگے کہ بھئی کسی بہت بڑی ادبی شخصیت کے ساتھ پروگرام کرو۔سید ضمیر جعفری تب میرے ہمسائے تھے، شخصیت ان کی معروف بھی تھی اور واقعتاً بہت بڑی بھی ۔ان کا نام تجویز ہوا ،منظور ہوا ، ان سے درخواست کی گئی وہ از راہ کرم مان گئے۔پروگرام بن گیا ،کارڈ چھپ گئے ۔پورے شہر میں “ضمیر جعفری اوطاق میں ” عنوان کی اس تقریب کی دھوم تھی۔ اس سے پہلے اوطاق کے پروگرام یونیورسٹی کے کمیٹی روم،یا ایف سیون میں واقع یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس کے ہال میں ہوتے تھے ۔پہلی بار ہم نے یہ تقریب یونیورسٹی آڈیٹوریم میں رکھی ۔جعفری صاحب کے لیے یہ معمول کی بات تھی ،لیکن میں بڑا پرجوش تھا۔تقریبا ہر روز ان سے یوم ضمیر جعفری کے بارےمیں گفتگو ہوتی۔اس تقریب کے انعقاد میں صرف دو روز باقی تھے کہ اس وقت یونیورسٹی کی رجسٹرار محترمہ مسز مظفری قریشی وفات پا گئیں،اور تقریب التوا کا شکار ہو گئی۔
راولپنڈی اسلام آباد سے سید ضمیر جعفری کا رشتہ بڑا گہرا تھا۔لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اسلام آباد شہر کے ابتدائی آباد کاروں میں شامل باکمال شاعر کے نام پر اس شہر کی کوئی ایک سڑک بھی منسوب نہیں کی گئی ۔نام لینا مناسب نہیں ،لیکن اس شہر میں بڑی بڑی سڑکیں بعض ایسے ادباء و شعراء کے نام سے منسوب کی گئی ہیں ،جن کا کوئی معقول جواز نظر نہیں آتا ۔بس اگر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خفتہ دماغ پیشہ ور ماہرین کے مخمور ذہن میں آج تک کوئی نام نہیں آیا تو وہ اُردو کے نامور مزاح نگار، کالم نگار اور ترانہ نویس سید ضمیر جعفری کا نام ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ سیکٹر جی نائن ون کے کسی بڑے راستے کو سید ضمیر جعفری روڈ بنا دیا جائے۔ سید ضمیر جعفری مہربان طبیعت اور صاف نیت کے سیر چشم دانشور تھے۔کسی کی بھی مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتے تھے۔ایک بار میں نے عصر حاضر کے بزعم خود ایک بڑے شاعر کو ان کے ڈرائنگ روم میں اپنی غیر واضح شباہت سمیت اپنے ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلے کے لیے درخواست اور اصرار کرتے دیکھا تھا۔وہ کاریگر ضمیر جعفری صاحب سے مطلوبہ سفارشی فون کروا کر ہی رخصت ہوا تھا۔ سید ضمیر جعفری اُردو مزاح نگاری کے واقعتاً سالار تھے، اسلام آباد میں ادب و صحافت اور تہذیب و ثقافت کے جبل جبار مرزا کے بقول سید ضمیر جعفری اُردو مزاح نگاری کے کمانڈر ان چیف تھے ۔ان کے جانے کے بعد اُردو مزاح نگاری میں کوئی کمانڈر تو سامنے نہ آ سکا البتہ خالی میدان کو لانس نائیک ، سپاہی ، اردلی اور چند ڈرائیور سطح کے لوگوں نے پر کرنے کی کوشش کی ، یہ جوکر نما مزاحیہ تُک بندی سے اپنا سکہ جماتے اور چلاتے رہے۔وہ جو قادر الکلامی سید ضمیر جعفری کے ہاں نظر آتی ہے ،اس کے عوض بےترتیب مزاحیہ تُک بند مشاعروں پر قابض اور ادبی اداروں پر متصرف ہو گئے۔یہ سارا کباڑ خانہ کہاں سے سامنے آگیا؟ سچ ہی ہے کہ اگر جنگل سے شیر کہیں اور چلا جائے ،تو لگڑبگر، گیدڑ، لومڑ،لدھڑ اور انواع و اقسام کے کتورے ادھر اودھر چلنے پھرنے اور بھونکنے ،ڈکرانے لگ جاتے ہیں۔شیر کی موجودگی میں یہ ایسے چھپے رہتے تھے ،جیسے جنگل کی آبادی کا حصہ ہی نہ ہوں۔سید ضمیر جعفری کے جاتے ہی بیشہ مزاح نگاری اور شگفتہ گوئی کا معیار ، مقدار اور چلن بالکل بدل گیا۔وہ چک عبدالخالق سے گوجرانولہ چھاؤنی اور پھر وہاں سے سیدھے امریکہ چلے گئے۔اسلام آباد میں طوطے تو نہیں پائے جاتے ،لیکن اس شہر کی طوطا چشمی کمال کی ہے ۔ سید ضمیر جعفری سے ملاقات کے منتظر اور سفارشی ٹیلیفون کرانے پر مصر منظر سے ایسے غائب ہوئے کہ جیسے وہ تھے ہی نہیں ۔جب تک ان کے فرزندعلی عسکری ذمہ داریوں پر فائز رہے، شہر کے ادبی اُداروں میں گاہے ان کا ذکر ، ان کی یاد کا محل بنا لیا جاتا تھا۔ بعد میں یہ تکلف بھی جاتا رہا۔ سید ضمیر جعفری کی غزل گوئی پر وہ توجہ نہیں دی گئی ،جس کی وہ مستحق تھی۔شاید ان کی مزاحیہ شاعری سے پھوٹنے والے قہقہوں میں غزل کی آواز دب گئی ہو ،لیکن سید ضمیر جعفری کا یہ المیہ رہا کہ ان کے مداح اور قارئین مزاح کی تہہ میں چھپے الم کو دیکھنے پہچاننے سے بھی غافل رہے۔سید ضمیر جعفری سادات کے اسلوب حیات والے تحمل ، درگزر اور صبر کی دولت سے مالامال تھے۔گلہ نہیں کرتے تھے ۔بھلے بڑھاپے کے ریشمی غلاف میں چھپی آنکھ کا کونہ نم ہی کیوں نہ ہو جائے، آنسو تو ہنستے ہنستے بھی نکل آتے ہیں۔
0