0

میجر جنرل احمد شریف کی جھوٹ کا پلندہ پریس کانفرنس نے 9 مئی کو مزید متنازعہ بنا دیا اور خود کو مزید ذلیل کرا دیا!

پچھلے دو سالوں کے دوران پاکستانی فوج کے چند گنے چنے جرنیلوں کے کرتوتوں کے جو تھوڑے بہت حامی رہ گئے تھے، اس ہفتے پاکستانی فوج کے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کے ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی جھوٹ پر مبنی پریس کانفرنس کے بعد وہ بھی بدک گئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فوج بھی ایک سیاسی جماعت ہے اور بقول شیر افضل مروت اس سے تو بہتر تھا کہ ن لیگ کے ڈنٹونک جوکر عطا تارڑ سے پریس کانفرنس کرا دیتے اور واقعی یوں لگ رہا تھا کہ جیسے عطا تارڑ کو فوجی یونیفارم پہنا کر بٹھا دیا ہو۔ سب سے بڑا جھوٹ چوہدری شریف صاحب نے یہ بولا کہ پاکستان تحریک انصاف کو سات فیصد پاکستانیوں کی حمایت حاصل ہے وہاں پر تو اپنے پسندیدہ غیر معروف لفافہ صحافیوں کو بلا کر بٹھایا گیا تھا، اگر ہم خدانخواستہ وہاں موجود ہوتے تو یقیناً ہمارے منہ سے ہنسی کا ایک فوارہ پھوٹ جاتا۔ جنرل صاحب شاید اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ فوج کی تمام تر بے ایمانیوں اور امیدواروں کی سیٹوں کی خریداری کے باوجود جو نتائج سامنے آئے آٹھ فروری کو ،باالفاظ دیگر وہ ان کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے تھے مگر ہمارے خیال میں فوج کے یہ تمام جرنیل ایک بیماری کا شکار ہیں جسے میڈیکل کی دنیا میں آٹزم کہا جاتا ہے۔ طبی دنیا کے تجزئیے کے مطابق آٹزم کا شکار مریض بس خود اپنی ہی دنیا میں اپنی ہی سوچوں میں اور اپنے ہی نظریات میں مگن رہتا ہے یا مبتلا رہتا ہے۔ آٹزم کی کئی سٹیجز ہوتی ہیں، آخری سٹیج والا مریض بلند آواز میں خود سے ہی باتیں کرتا ہے اور باہر کی دنیا سے اس کا تعلق بالکل نہیں ہوتا۔ گزشتہ ہفتے جنرل عاصم منیر نے پاسنگ آئوٹ پریڈ میں بھی اسی نوعیت کی تقریر کی تھی جس میں کہا تھا کہ مجھے اور میری افواج کو اپنی حدود معلوم ہیں مگر شاید نان آرمی کے لوگوں کو ان کی اپنی حدود کا علم نہیں ہے۔ آئین کی شق نمبر 19کا حوالہ دیتے ہوئے شاید وہ یہ بھول گئے کہ آئین میں شق نمبر 6 میں کہا گیا ہے کہ جو بھی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سویلین معاملات میں فوجی عمل دخل کو لائے گاتوہ وہ غداری کا مرتکب ہو گا جس کی سزا سزائے موت ہو گی۔ اس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ ہر ادارے میں آرمی کا بندہ بیٹھا ہوا ہے جو اسے کنٹرول کررہا ہے۔ یہاں تک کہ ہر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے آفس میں بھی ایک ایک فوجی بندہ بیٹھا ہوا ہے۔ عدلیہ کے چھ ججوں کا خط تو اس وقت بھی زیر سماعت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے مسلسل عدلیہ کے فیصلے اپنی مرضی کے کرانے کیلئے دبائو ڈالا گیا، بصورت دیگر بیڈرومز میں کیمرے اور رشتہ داروں کے جسم میں کرنٹ دوڑایا گیا۔ اس وقت اس ملک کے تین چیفس نے مل کر عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف ایکا کیا ہوا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان تینوں مل کر ایک ہی جیسی باتیں کرتے ہیں مثلاً اس وقت تینوں چیفس سوشل میڈیا پر وار کررہے ہیں کیونکہ وہ ان سب کو ننگا کررہا ہے۔ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پہلے تحریک انصاف اور عمران خان فوج سے معافی مانگیں تو پھر ان سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات تھی، کبھی ایک مظلوم بھی ظلم کرنے والے سے معافی مانگتا ہے۔ البتہ یہ فوج کے جرنیلوں کا وطیرہ ضرور ہے کہ 1971ء میں انڈین جنرل اروڑہ سے جنرل نیازی نے معافی مانگتے ہوئے اپنا ریوالور اس کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعد اردو میں ایک نئے محاورے کا اضافہ ہوا تھا کہ مرے تو شہید، جیے تو غازی، بھاگے تو نیازی۔ ہمیں اس پریس کانفرنس میں جنرل چوہدری کو سفید جھوٹ بولتے ہوئے دیکھ کر بھی ترس آیا کہ اپنے باس کے کہنے پر جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے مگر زبان چہرے کا ساتھ نہیں دے رہی بس کرو دو جنرلو! اور کتنا میری فوج اور اس کے جوانوں کو رسوا کروگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں