اندھیر نگری چوپٹ راج کی کہاوت کس نے نہیں سنی۔ یزیدی جرنیلوں کے مقبوضہ پاکستان میں ملک اندھیر نگری تو بن چکا ہے لیکن چوپٹ راج کا نام چھٹ بھیئوں کا راج ہے اور وہ اسلئے کہ عاصم منیر نے اپنی انا کو تسکین دینے کیلئے جن پِٹے ہوئے مہروں کو کٹھ پتلیوں کی طرح اقتدار کی مسندوں پر بٹھایا ہے وہ نیچ ذات تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ فطرت کے لحاظ سے وہ ہیں جنہیں ہماری ٹکسالی میں چھٹ بھیئے کہا جاتا ہے۔
چھٹ بھیئے بے ضمیر اور بے غیرت ہوتے ہیں اور شریف برادران جن سے سازباز کرکے عاصم منیر سپہ سالار بنا وہ تو اپنی بے غیرتی میں پاکستان میں اگر جواب رکھتے ہیں تو صرف اور صرف ڈکیت زرداری اور وہ رسوائے زمانہ ڈکیت ملک کا صدر بن کر ویسے ہی دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی کا سامان بنا ہوا ہے۔
چھٹ بھیئوں کی ایک خاص صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اندھوں کی طرح ریوڑیاں بانٹتے ہیں اور پھر شریف برادران تو اس کیلئے خاص شہرت رکھتے ہیں کہ بساط کے ہر خانے میں ان کا مہرہ بیٹھا ہوتا ہے۔
سو نابینا بلکہ کور مادر زاد اندھے شہباز شریف نے نواز شریف کے سمدھی جاہل منشی اسحاق ڈار کو پاکستان کے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بہ یک جنبشِ قلم نائب وزیر اعظم نامزد کردیا ہے۔ یزید عاصم منیر اس جاہل ڈار کو، جس کی امورِ خارجہ سے دور دور کی شناسائی بھی نہیں تھی، ملک کا وزیرِ خارجہ مقرر کرکے ویسے ہی جگ ہنسائی کا وافر سامان کرچکا تھا۔ اب عاصم منیر کے جوتے پالش کرنے والے شہباز نے اس سے سو ہاتھ اور آگے نکل کر ڈار کو نائب وزیر اعظم بنادیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین میں نائب وزیر اعظم کیلئے کوئی آسامی نہیں ہے، کوئی قانونی گنجائش نہیں ہے لیکن فسطائیت کے اس دور میں قانون کو پوچھتا کون ہے۔ یزیدی جرنیلوں کے قبضہ شدہ پاکستان میں دن رات آئین پامال ہورہا ہے اور قانون کا وہ حشرخراب ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
ڈار کو کس کارکردگی کی بنیاد پر یہ نیا منصب سونپا گیا ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے اور موجودہ حکومتی ٹولہ اپنے آپ کو اگر جوابدہ سمجھتا ہے تو صرف یزیدی جرنیلوں کے سامنے جن کی منشاء اور رضا کے بغیر ظاہر ہے کہ شہباز ایسی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔
اسحاق ڈار کی کارکردگی کا معیار تو یہ ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی جس دن پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے اس سے پہلے ہی یہ منشی ڈار چین روانہ ہوگیا اور رئیسی کے پاکستان سے رخصت ہونے کے بعد واپس آیا۔ مقصد ایران کو یہ جتانا تھا کہ تمہارے صدرِ مملکت کی توقیر ہماری نظر میں دو کوڑی کی ہے سو ہمیں اس سے غرض نہیں کہ وہ کب آتے ہیں کب جاتے ہیں ہم تو وہی کرینگے جس کا حکم ہمارے وردی والے فرعون دیتے ہیں اور وہ وہی کرتے ہیں جس کی ہدایت ان کے آقائے نامدار، یعنی انکل سام، کی جانب سے صادر ہوتی ہے۔
ایرانی صدر کی پاکستان پر قابض سامراجی غلام جس حد تک بے عزتی کرسکتے تھے وہ انہوں نے کی۔ یزیدی جرنیلوں اور ان کے کتھ پتلی سیاسی گماشتوں کی تمام تر توجہ اس پر تھی کہ کہیں انکل سام ناراض نہ ہوجائیں کہ ان کے غیرت مند دشمن کو پاکستان میں پلکوں پر بٹھایا گیا یا ان کی وہ آؤ بھگت ہوئی جو ایک پڑوسی برادر اسلامی ملک کے سربراہ کی ہونی چاہئے تھی!
سو صدر ابراہیم رئیسی کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر خوش آمدید کہنے کیلئے نہ ان کا ہم منصب صدرموجود تھا نہ وزیر اعظم اور نہ ہی وزیرِ خارجہ۔ ایک جونئیر وزیر کو ہوائی اڈے پر استقبال کرنے کیلئے بھیجا گیا۔ ابراہیم رئیسی اسلام آباد کے علاوہ لاہور اور کراچی بھی گئے لیکن کہیں بھی ان کا عوام نے خیر مقدم نہیں کیا اسلئے نہیں کہ عوام اپنے برادر پڑوسی ملک کے رہنما کو دل سے لگانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اسلئے بھی کہ غاصب حکومتی ٹولہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے آقاؤں کی ناراضگی مول لی جائے۔
پاکستان کے منہ پر تو طمانچہ اس وقت پڑا جب ابراہیم رئیسی پاکستان سے سری لنکا گئے اور وہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ سری لنکا نہ ایران کا پڑوسی ہے نہ ہی وہ اسلامی ملک ہے لیکن وہاں کی حکومت شرفاء کی ہے رذیلوں اور چھٹ بھیئوں کی نہیں لہٰذا اس نے موجودہ تناظر میں ایران کی اہمیت اور اس کے بین الاقوامی برادری میں مقام کو سمجھتے ہوئے ایرانی صدر کا پرتپاک استقبال کیا اور دنیا نے دیکھا کہ حکومت نے جو پروٹوکول انہیں دیا سو دیا اس کے علاوہ کولمبو کی سڑکوں پر جہاں جہاں سے ان کا قافلہ گذرا لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ نے تالیاں بجاکر اور پر جوش نعرے لگاکر اپنے معزز مہمان کا استقبال کیا۔
سری لنکا کی حکومت اور عوام نے اپنے آزاد ہونے کا مظاہرہ کیا اور فسطائیت کے شکار پاکستان کی غلام حکومت نے اپنے بدیسی آقاؤں کی خوشنودی کو ایک برادر پڑوسی ملک پر فوقیت اور ترجیح دیتے ہوئے اس کے صدرِ مملکت سے سرد مہری کا سلوک کیا۔ آزاد انسانوں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے محکوموں میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے جو دنیا نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔
یزید عاصم منیر اور اس کے ساتھی غنڈے جرنیلوں کے ٹولے کو فکر صرف اس کی ہے کہ ملک پر اپنا فسطائی شکنجہ کسے رہیں جس کیلئے لازمی ہے کہ فرد کی بنیادی آزدیاں سلب رہیں اور عوام کی آواز کو ان کے حلق میں بند رکھا جائے۔
پاکستان کا وہ نیوز میڈیا جسے پہلے اپنی آزادی پر ناز تھا اب مکمل طور پر یزیدی ٹولے کی گرفت میں ہے اور عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا ضرور فی الوقت ان فراعین کے چنگل سے آزاد ہے لیکن کوشش یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی ہر ممکنہ طور پہ قدغن لگائی جائے کیونکہ اس کی آزادی فراعنہ کے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی ہے جو نہ اگلتے بنتی ہے نہ نگلتے۔ ٹوئٹر یا ایکس پر گذشتہ تین مہینے سے مسلسل پابندی لگی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا کیلئے اس تک رسائی پر ہر طرح کی پابندی ہے اور یہ فسطائی کام ملک کی سلامتی کے نام پر ہورہا ہے لیکن سلامتی نام کی کوئی شئے پاکستان میں نہیں پائی جاتی۔ تخریب کاروں کی چیرہ دستیاں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں اور دہشت گردی کے واقعات تواترسے ہورہے ہیں لیکن وہ فوج جس کا بنیادی فریضہ ملک اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے وہ ان مشاغل میں مصروف ہے جس کی اجازت پاکستان کا دستور اور قانون نہیں دیتا لیکن قانون کے رکھوالوں کی نظر میں نہ آئین کی کوئی وقعت ہے نہ قانون کا کوئی احترام۔
اسلام آباد کے چھ ججوں کا معاملہ دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سازش میں بے ضمیر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا گھناؤنا کردار ملک کے بچے بچے کو معلوم ہے لیکن انصاف اور عدل کے ماتھے پر یہ کلنک کا ٹیکہ اتنا ہی بے غیرت اور بے شرم ہے جتنے اس کے ساتھی فرعونی جرنیل۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سربراہ عامر فاروق بھی اس مذموم مہم میں برابر کا شریک ہے۔
سو چھ ججوں کو بلیک میل کرنے کی کارروائی زور شور سے ہورہی ہے اس رسوائے زمانہ آئی ایس آئی کی سربراہی میں جو شاید دنیا کی سب سے بدنام مافیا ہے۔
جسٹس بابر ستار اس وقت اس بلیک میلنگ مہم کے خصوصی نشانے پر ہیں۔ انہیں بلیک میل کرنے اور بدنام کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آئی ایس آئی نے اپنے گماشتوں کو سوشل میڈیا میں اسمگل کردیا ہے۔ بابر ستار کو ہم ذاتی طور پہ جانتے ہیں ۔ وہ بہت لائق اور فاضل انسان ہیں۔ امریکہ کی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ نیویارک میں 2005ء تک ایک امریکی قانونی فرم کے ساتھ منسلک رہے تھے اس کے بعد وطن کی محبت میں وہ ایک اچھی ملازمت کو خیر باد کہہ کے پاکستان چلے گئے اس یقین کے ساتھ کہ ان کے وطنِ عزیز کو ان کی لیاقت کی زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن وہ بھول گئے تھے کہ پاکستان میں چھٹ بھیئوں کے راج میں لیاقت اور قابلیت یا شرافت اور نجابت کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان میں تو جنگل کا قانون ہے اور بزدل جرنیل جو دشمن کے سامنے گیدڑ ہوجاتے ہیں اپنے نہتے عوام کے سامنے شیر بن جاتے ہیں۔
سو جسٹس بابر ستار کو مطعون کرنے کیلئے یہ مذموم مہم چلائی جارہی ہے کہ ان کے اثاثے اور جائیداد امریکہ میں ہے۔
چھوٹے لوگ، چھٹ بھیئے، بے ایمان دنیا کو اپنی ہی طرح بے ضمیر اور بکاؤ سمجھتے ہیں۔ یزیدی ٹولہ کی دانست میں ستار بابر ان کی بلیک میلنگ سے مرعوب ہوجائینگے یا فرار ہونے کی کوشش کرینگے لیکن یہ چھٹ بھیئےبابر ستار یا عمران خان جیسے با اصول اور بیدار ضمیر افراد کو نہیں جانتے جن کی نظر میں ان کا کردار اور اخلاقی قد و قامت دنیاوی منصب یا ساز و سامان سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت است
تو بااصول اور دیانت دار لوگ چھٹ بھیوں کی شیطانیت سے نہ مرعوب ہوتے ہیں نہ ان کی غیر اخلاقی اور پست سوچ کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ جس طرح عمران یزیدی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے یا اس کے ساتھ مذاکرات کرنے کیلئے آمادہ نہیں اسی طرح بابر ستار یا ان جیسا کوئی اور اصول پرست جج ان چھٹ بھیوں کے ہتھکنڈوں سے متاثر ہونے والا نہیں ہے۔ یہ جنگ اصولوں کی جنگ ہے جو نہ یزید عاصم منیر جیت سکتا ہے نہ ہی شہباز یا ڈار جیسے گماشتے!
0