0

پاکستان کی قسمت ایسی کیوں؟

ایک بڑا سوال جس کا جواب کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے، یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کیوں پاکستان کے خلاف ہیں؟ در اصل یہ ملک پاکستان کے خلاف نہیں ہیں، ان کا باپ اسرائیل پاکستان کے خلاف ہے ۔ ان ملکوں کو وہی کرنا پڑتا ہے جو باوا انکو کہتا ہے۔وہ اس کے سامنے بھیگی بلی سے بھی زیادہ فرماں بردار ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جو کسی اور وقت کے لیے چھوڑے دیتے ہیں۔اس وقت یہ جاننا ضروری ہے کہ اسرائیل کیوں پاکستان کے خلاف ہے؟ کئی وجوحات ہیں۔ یہ یہودی ریاست روزاول سے پاکستان کو اس لیے پسند نہیں کرتی تھی کہ پاکستان نے اسرئیل کو پہلے دن سے ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔پھر یہ اسلام کے نام پر بنایا گیا ملک تھا۔لیکن اپنی ریاستی ترجیحات کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کو گود لے لیا۔ اس کو برسوں دودھ پلایا۔ لیکن پاکستان نے امریکہ کی شفقت کا جواب شفقت سے نہیں دیا۔ اس کی امداد میں کیڑے نکالے۔جلوس نکالے اور کارٹون چھاپے۔ لیکن علاقائی مجبوریاں ایسی تھیں کہ امریکہ اگر کبھی ناراض بھی ہوا تو ہمارے رہنما بدل دیئے گئے اور پھر امداد کا سلسلہ چلتا رہا۔اسرائیل کو سب سے زیادہ تکلیف تب ہوئی جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے۔ اور اس کے بعد جب عمران خان نے یو این میں جا کر مسلمانوں کے حق میں تقریر کی۔ یہ اب واضح ہو گیا تھا کہ عمران خان جلد ہی اسلامی دنیا کا سب سے محبوب قائد بن جائے گا۔
عمران خان اپنے اقتدارمیں آنے سے پہلے اور بعد میں، کچھ ایسے بیان دے چکا تھا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ طالبان کا حامی ہے اور ان کی جد و جہد کے حق میں ہے۔ اس سے یہ خدشہ پیدا ہونا لازمی تھا کہ کپتان کسی دن چپکے سے دہشت گردوں کو ایٹمی ہتھیار دے سکتا ہے، جو اسرائیل پر استعمال ہو سکتے ہیں۔اور یہ ایک ایسا خدشہ تھا کہ اسرائیلی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسکے علاوہ، اسرئیلیوں نے بہت پہلے ایک قسم کھائی تھی کہ کسی بھی ایسے اسلامی قائد کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا جو امت مسلمہ میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی قسم کے نتیجہ میں ناصر، سادات، اور خصوصاً قذافی اور عراق کے صدر صدام حسین کو ان کی ریاستوں سمیت خس و خاشاک میں ملا دیا گیا تھا۔اب خان کی باری تھی۔لیکن امریکہ اور برطانیہ کو خان پسند تھا۔ اس کی پہلی بیوی اور اس کے بچوں کی ماں برطانیہ کے ایک دولتمند یہودی خاندان کی لڑکی تھی۔ اس کو مارنا نہیں بنتا تھا ۔ اس لیے اسے اقتدار سے ہٹانا بھی کافی تھا۔یہ تھا وہ پس منظر جس میں ایشین پریس کی یہ رپورٹ سامنے آئی، جو اسلام آباد میں خان کی حکومت گرانے سے چند روز پہلے کی تاریخ کی تھی۔ملاحظہ ہو:
کچھ روز پہلے، سوشل میڈیا پر ایشین پریس کی 9مارچ 2022 کی رپورٹ دیکھنے کو ملی جس کی سرخی تھی:’’ سی آئی اے، موساد اور را کو عمران خان کو قتل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے۔تفصیل یہ تھی کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے، اسرائیل کی ایجنسی موساد اور بھارت کی را، کو ان کی اپنی حکومتوں نے حکم دیا تھا کہ عمران خان کو ہلاک کر دیا جائے۔اس خبر کے مطابق ان تینوں ملکوں کے سربراہان اس بات پر متفق تھے کہ عمران خان کو کسی بھی صورت حکومت سے علیحدہ کر دیا جائے خواہ اس کے لیے اسے جان سے ہی مارنا پڑے۔یہ بات شہزادہ حیات، صدر، یو آئی سی ایف یو کے اور بین الاقوامی کمیونٹی کے مہم باز، نے ان تین خفیہ ایجنسیوں کو جن کے ساتھ دو اور یوروپین ایجنسی بھی شامل تھیں، ملنے والی ہدایات کے حوالے سے بتائی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اب ان ملکوں کی کوئی بات ماننے پر تیار نہیں تھا۔یہ فیصلہ اس لیے کرنا پڑا کہ پاکستان نے ان ملکوں سے ناطہ توڑ دیا ہے اور وہ اپنی خود مختار حکمت عملی بنا چکا ہے۔یہ نام نہاد پاکستان کے دوست ممالک بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ یہ ہمیشہ ہی سے پاکستان کے دشمن رہے ہیں۔ان دشمنوں نے بالآخر یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ پاکستان کو زیادہ دیر تک ان ہتھکنڈوں کے اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔جب کہ پاکستان نے کہہ دیا ہے کہ بس بہت ہو گئی۔اور اس نے نئی آزادخارجہ حکمت عملی بھی بنا لی ہے۔
شہزادہ حیات نے مزید کہا کہ پاکستان میں اپنے خود غرضانہ، جھوٹ فریب کے مقاصد رکھنے والوں نے پاکستان کے وزیر اعظم کو ہٹانے اور ملک میں انتشار پھیلانے کا فیصلہ کر لیا۔اس کاروائی کا مقصد بد امنی اور لا قانونیت پھیلا کر وزیر اعظم کو ہٹاناتھا۔اور فتنہ فساد پھیلا کر، ملک دشمن اور کرپٹ سیاستدانوں کی مدد سے، ملک کے حصے بخرے کرنا تھا۔یہ وہی کرپٹ سیاستدان تھے جنہوں نے ہمیشہ ملک کے بجائے دشمنوں کے مفادات کا ساتھ دیا۔ غیر ملکی ایجنسیوں نے بے شمار رقوم ملک کے حکام کو اور خصوصاً کرپٹ سیاستدانوں کو خریدنے کے لیےلگانی شروع کر دی ہیں۔میڈیا مالکان کو علیحدہ بڑی بڑی رقوم دی گئی ہیں کہ وہ اس سازشی عمل میں ساتھ دیں۔پاکستان کے فوجی ادارے آئی ایس آئی جس کا سربراہ جنرل ندیم انجم تھا، اس کو اس سارے منصوبہ کی خبر تھی۔اس سے پہلے یہ پاکستانی ادارہ کئی بیرونی سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنا چکا تھا۔ اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ آئی ایس آئی چپ بیٹھ کر یہ تماشا دیکھتا رہے گا تو یہ ان کی غلط فہمی ہو گی۔شہزادہ حیات نے کہا کہ پاکستان کے دشمن ایک عرصہ سے پاکستان کو لیبیا، شام، عراق اور یمن بنانا چاہتے ہیں۔
اس لیے یہ منصوبہ جنرل ندیم انجم، جو دنیا کا ایک عظیم ترین خفیہ ایجنسی کا قائد ہے، ان کے ہوتے ہوئے ایک نا ممکن خواب ہو گا۔پاکستان انتہائی خطرناک حالات سے دوچار ہے اور اس پر حملے کی تیاریاں مکمل ہیں۔عالمی طاقتیں اس وقت روس اور یو کرائین کی جنگ میں الجھی ہوئی ہیں۔یہ وہ وقت نہیں کہ پاکستانی سیاستدان اندرونی رسہ کشی میں الجھیں، بجائے اس کے کہ پاکستان جن خطرات سے دو چار ہے ان پر توجہ دیں۔‘‘
پاکستان کے دشمنوں نے پاکستان کو کچھ ایسی حکمت عملی سے چلایا کہ اس کی آبادی تعلیم سے مالا مال نہ ہو۔ اگر اس کے بچوں کو تعلیم ملے بھی تو ایسی کہ نہ اس میں کوئی ہنر سکھایا جائے اور نہ کوئی علم کا تجسس ہی پیدا ہو۔اس حکمت عملی کا بڑا مقصد امیر ملکوں کو سستے مزدور مہیا کرنا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں ایک نہایت طاقتور فوج کو پالا پوسا جائے جو ان کی مٹھی میں ہو، اگرچہ پاکستان کی آمدنی اتنی بڑی فوج کا بوجھ نہیں سہار سکتی تھی۔پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں سے اس فوج کو پالتا رہا اور فوج پاکستان کے دوست نما دشمنوں کے اشاروں پر ناچتی رہی۔اور کبھی بظاہر اور کبھی پس منظر میں ، اپنے پروردہ حکمرا ن مہروں کی مدد سے ہر وہ کام کرتی رہی جو غیر معمولی یا نا جائز بھی تھے۔
عام پاکستانی جن کی اکثریت نہ تعلیم یافتہ تھی اور نہ خوش حال، وہ دن رات کی چکی پیسنے میں مصروف رہتی تھی۔ان کے بچے دو تین سال سکول میں گذارنے کے بعد محنت مزدوری پر لگا دیئے جاتے تھے۔یو این کی ایک تازہ رپور ٹ کے مطابق ، پاکستان کی صرف ایک چوتھائی سے کم آبادی نے کچھ ثانوی تعلیم حاصل کی ۔سیاستدانوں کو پوری طرح کرپشن میں الجھا دیا گیا۔ انہوں نے مقامی حکومتوں کے ضروری نظام کو چلنے نہ دیا ۔ فیلڈ مارشل ایوب کے زمانے میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام لایا گیا اور اس کے تحت تعلیم بالغاں بھی لیکن جب یہ پتہ چلا کہ دونوں پروگرام کامیاب ہو رہے ہیں تو امریکنوں نے دونوں کی امداد بند کر دی۔عوام کو لکھنے پڑھنے کا شعور ہی نہیں دیا گیا ۔ ان کو جو خبر ملتی تھی وہ یا تو مقامی ذرائع سے یا ٹیلی ویژن سے۔ ٹیلی ویژن پر پی ٹی وی کا قبضہ تھا، جو سوائے حکومتی پراپیگنڈے کے یا تفریحی پروگراموں کے، کوئی ایسی خبر نہیں دیتا تھا جو کہ عوام کو شعور دیتی اور اصل حقائق سے آگاہ کرتی۔ جب ٹی وی کو سہولت نجی شعبہ کو دی گئی تو ان کو خبروں کے علاوہ ہر چیز نشر کرنے کی آزادی دی گئی۔ خبریں نشر کرنے کی آزادی بہت دیر کے بعد دی گئی۔ لیکن اس میں بھی میڈیا مالکان سیاستدانوں سے مالی امداد لیکر ان کی مرضی کے گیت گاتے تھے اور گاتے ہیں۔گذشتہ دو سال سے تو اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ سیاستدانوں کی مرضی سے سب کچھ ہورہا ہے۔ٹی وی اور موبائل فون کی مقبولیت کے بعد سے اخبارات تو نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں۔ صرف اشتہارات کی وجہ سے اخبار شائع کیے جاتے ہیں۔خبریں اور تبصرے شائع ہوتے ہیں پڑھے نہیں جاتے۔ اس لیے عوام کیا اور خواص کیا ؟ ما سوائے چند کے یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ خان ان کا سچا لیڈر ہے اور ان کی بھلائی چاہتا ہے، لیکن یہ نہیں کہ اس کو جیل میں ڈالا ہوا ہے ، اس کا قصور کیا ہے اور اس کو کیسے چھڑائیں؟ دوسرے صوبوں کے لوگ کہتے ہیں کہ سب قصور پنجابیوں کا ہے۔ پنجابی سب سے زیادہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی پنجابیوں کا زور ہے۔ حکومتیں بھی پنجابی چلاتے ہیں۔ اس لیے اگر پنجابی نہیں اٹھیں گے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ 1960کے اوائیل میں جب ملک میں کچھ کیمونسٹوں کی تحریکیں چل رہی تھیں تو انہوں نے لاہور کے وائی ایم سی اے میں جلسہ کیا جس کے بینرپر لکھا تھا، پنجابی ظالم ہیں۔مجھے آج بھی یہ یاد آتا ہے کہ کتنا سچ تھا۔ پنجابیوں نے اپنی اکثریت کو استعمال کر کے کبھی پاکستان اور دوسرے صوبوں کی بہتر ی کے لیے قدم نہیں اٹھایا۔ اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔
اب جب کہ پاکستان کی قسمتوں کے سودے ہو رہے ہیں، اس کے قدرتی وسائل کو وقتی مفاد کے لیے کوڑیوں کے دام بیچا جا رہا ہے، اور اسمبلیوں میں بیٹھے دھوکے باز نمائندے بغیر توقف کے، کرپٹ حکومت کے ہر فیصلے پر آمنا صدقنا کر رہے ہیں، تو قوم کو اس وقت ہوش آئےگا،جب بقول شخصے، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اسی طرح ہم نے اپنی جہالت، بے خبری اور سوئے ہوئے ضمیر کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دیا تھا۔اور اب پاکستان کے حصے بخرے ہو رہے ہیں اور ہم ہنوز خواب غفلت میں مدہوش پڑے ہیں۔
پاکستانیو! پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بیرون ملک کے دشمنوں کا ہاتھ ہے ،اپنے تو شامل ہیں ہی۔ ان میں سب سے بڑا امریکہ ہے، جو بذات خود تو اتنا برا نہیں، لیکن اسرائیل کے آگے مجبور ہے۔ اس لیے جب تک پاکستان اسرائیل کی طرف صلح کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا، اس سے سفارتی تعلقات نہیں بنائے گا، اسرائیل اس کو معاف نہیں کرے گا۔ اس کا ممکن طریق کار یہ ہو گا کہ اسرائیل غزا کے فلسطینیوں کو بخش دے، اور سعودی عرب اسرائیل سے سفارتی تعلقات بنائے۔ پھر پاکستا ن کچھ اسلامی ممالک کے ساتھ ملکر اسرائیل کو تسلیم کر لے۔یہ سب ممکن ہے اگر اسرائیل دو قومی نظریہ قبول کر کے فلسطینیوں کی الگ ریاست بننے دے۔ورنہ شاید یہ کشمکش کبھی ختم نہ ہو۔ یہ تبھی ممکن ہو گا کہ دائیں بازو کا انتہا پسند نتین یاہو اقتدار سے علیحدہ ہو جائے اور کوئی امن پسند وزیر اعظم اسکی جگہ لے لے۔ فی الحال اس امر کے امکانات تو نظر نہیں آتے لیکن دنیا میں جو اسرائیل کے رویہ کے خلاف اور فلسطینیوں کی مظلومیت کے حق میں فضا بن رہی ہے، یہ نا ممکن بھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں