0

غم ِروزگار

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے ،کسی غزل کا یہ مصرعہ اب اُن ریٹائرڈ لوگوں کے لئے وجۂ نوید کی صورت لئے ہوئے ہے جولاڈلے ارباب ِ اختیار کی قربت میں 65سال کی عمر میں بھی ریٹائر ہونے پر خفگی کا اظہارکرتے ہیں ظاہر ہے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ کے ساتھ دیگر لوازمات ِ زندگی سے بھی ہاتھ دھونا اُنھیں کیسے قبول ہو سکتا ہے شاید اسی لئے حکومت نے اپنے چہیتوں کی گزر بسر کے لئے ان اڈھیر عمر رفیقوں کو بیروزگار ی سے بچانے کے لئے انھیں تا حیات برسر ِ روزگاررکھنے کے لئے اپنی وفاقی کابینہ سے بذریعہ قانونی ترامیم منظوری لی ہے یوں ملکی خزانے پر اس بوجھ کا اضافہ بذریعہ قانون کر دیا گیا ہے مگر حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی ہے کہ وہ نوجوان نسل جو ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے کسی روزگار کے منتظر برسوں سے ہیں اُن کی داد رسی کر سکے اُن کے لئے کوئی احسن اقدامات کر سکے ۔اس نظراندازی کے سبب کہنا پڑتا ہے کہ بیروزگاری جو نئی نسل کو ریاست ورثے میں دے رہی ہے اور اُس میں مہنگائی کی طرح اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔یہ عاقل بالغ اڈھیر عمر سیاست دان ،عوامی نمائندے کیوں غیر ضروری اخراجات بڑھا کر بیمار معیشت کی سانسیں دشوار کرنا چاہتے ہیں تو جواب میں مجھے اس موقع پر مشتاق احمد یوسفی کی کہی بات یاد آ گئی کہ ہر بزرگ کی بات میں حکمت مت ڈھونڈیں ،کچھ احمق لوگ بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔یہ رسوائیوں کی دستک سے یاد آیا کہ تاریخ اُس بندے کو سامنے کیوں نہیں لاتی جس نے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے اعلی عہدیداران ،حکومتی امراء ،بیوروکریسی کے افسران ِ بالا کو ہر سہولت سے نوازا یعنی بجلی فری ،پٹرول فری ،گاڑی فری اور ریٹائرمنٹ پر لاکھوں کی ماہانہ پنشن مگر اُسی ادارے سے منسلک ایک پچیس ہزار روپے ماہانہ کا ملازم اور اُسے کوئی سہولت نہیںیہاں ہمیں برہمن اور اچھوت والی ذاتوں کا فرق سمجھ بھی آتا ہے اور نظر بھی ۔ اسے میں طبقاتی جنگ سے تعبیر کرتا ہوں ٹھیک ہے عہدے بڑے چھوٹے ہوتے ہیں تنخواہ بھی اسی تناسب سے ہوتی ہے مگر میرے ملک میں ایک طبقے پر قرضدار خزانے کے منہ کھول دئیے جاتے ہیں جبکہ چھوٹے طبقے کے لئے ہر سہولت شجر ِ ممنوعہ بنا کر اُن سے دور کردی جاتی ہے حکومت یا اُس کی بیورو کریسی کا یہ رویہ احساس دلاتا ہے کہ یزید ابھی بھی زندہ ہے جس نے ریاست کے حقیقی وارثوں کو کھلے آسماں تلے بے آب و گیاہ چھوڑا ہوا ہے اس بات کا کسی کو اندازہ نہیں کہ موجودہ یا آنیوالی حکومتیں کب تک قرضے مانگ مانگ کر افسران ِ بالا کو پُر تعیش زندگی فراہم کریں گی ؟حیرت ہوتی ہے دانش کے ان بتوں پر جو باد ِ فنا کو بادِ بہار جانتے ہیں گلستان ِ وطن سے ادب و حیا کی خوشبو والے پھول تو درکنار اب تو اُن پھولوں سے وابستہ کانٹوں نے بھی جنم لینا چھوڑ دیا ہے ہم نہ جانے کس بات کی عجلت میں اُس جانب گامزن ہیں جو صراط المستقیم کے برعکس ہے ہم معاشی ماہر اُسے کہتے ہیںجو آئی ایم ایف کے مفاد کی زبان بولتا ہو مہنگائی جس انداز سے وطن ِ عزیز کے باسیوں کو پریشان کررہی ہیں اُس کے پس منظر میں آئی ایم ایف کی پالیسیاںہی تو ہیں جن پر حکومتی مسند نشین اور ہمارے معاشی ماہرین بڑی دیدہ دلیری سے عمل پیرا ہیں جس سے وسائل کارخ حاکمانہ طبقات کی جانب اور مسائل کا رُخ چھوٹے بے بس طبقات کی طرف رہنے کی روایت برسوں سے جاری ہے مصیبتوں میں گھرے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی کثیر تعداد اس حیرت میں مبتلا ہے کہ کہ وقت کے کسی قاضی نے ،جمہوریت کے کسی عوامی قائد نے معیشت کی اس غیر منصفانہ تقسیم پر توجہ کیوں نہیں دی ؟کیوں نہیں امراء کو،اعلی عہدوں پر فائز افسران ِ بالا کو دی جانے والی سہولتوں کو وقت کی نزاکت کے لحاظ سے منہا نہیں کیا گیا ؟پھر قرض لیکر ایک طبقے پر ساری سہولیات نچھاور کرنا اور دوسری جانب دو وقت کی روٹی بھی مشکل کر دینا کس اسلامی ریاست کا چلن رہا ہے جانتا ہوں ان کا جواب مجرمانہ شرمندگی والی خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں ماضی کو ہم بہت کوس چکے ہیں مگر اب تو ارباب اختیاراپنی مثبت سوچوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ معاشی پالیسی دیں جن سے قرضوںکی ادائیگی کا بغیر عوام پر غیرضروری ٹیکس لگائے اختتام ِ بخیر ہو ایران اور سعودی عرب کی سرمایہ کاری اس حوالے سے بڑی خوش آئند ہے شرط یہ ہے کہ ان کا مصرف ایماندار ہاتھوں میں ہوں ایران سے دوستانہ تعلقات کے بڑھاوے پر امریکہ کے ناراض ہونے پر حکومت کو لرزہ براندام ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ زمانہ سرحدی جنگوں کا نہیں بلکہ معیشت کے میدان میں آگے نکلنے کا ہے قرضوں کی بیماری سے ملکی معیشت کو نجات دینے کا واحد راستہ دستیاب وسائل سے استفادہ حاصل کرنا اور غیر ضروری اخراجات کا خاتمہ یقینی بنانا ہے نوجوان جو قوم کا اثاثہ ہیں اُن کے ہنر و تعلیمی استبداد سے ملکی مستقبل کی راہیں روشن ہونی ہیں انھیں باعزت روزگار دینا حکومت کی ترجیحات میں ہونا لازمی ہے تا کہ پھیلتی ہوئی بیروزگاری کی شرح میں کمی ہو سکے یوں اس تسلسل سے غم ِ روزگار کا ادراک بھی ممکن ہو سکتا ہے خیال رہے کہ یہ چاہنے والوں پر منحصر ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں