0

مدارس

میں مذہب یا دین کو ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں میرا عقیدہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے اور کوئی بھی اس تعلق کے درمیان نہیں ہر چند کہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا مگر اسکول کے زمانے سے ہی سمجھنا چاہا کہ عقیدہ ہے کیا، آٹھویں جماعت میں ہی مجھے سرسید کو پڑھنے کا موقع مل گیا، افق وسیع ہوتے گئے، شوق نے پر کھولے، کالج میں سبط حسن کو پڑھا، مودودی صاحب کو بالا استعیاب پڑھا، مودودی کی تفہیم القرآن دیکھی تو اندازہ ہوا کہ مودودی صاحب کو بات بنانے کا ہنر ہے، میرے ایک استاد نے مودوی کے بارے میں مجھ سے پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ اُردو اچھی لکھتے ہیں کشمیر والے مولانا وحید الدین بھی مطالعے میں رہے، شیعہ علماء میں ترابی صاحب کے ساتھ لکھنو کے نقن صاحب کے کیسٹ بھی سنے، مجھے شیعہ علماء کے ہاں دلیل ملی اور تقاریر میں اشارے اور کنائے کا استعمال کمال مہارت سے ملا، مولانا حسن مثنیٰ اور غامدی کو بھی پڑھا، کتاب سے شغف رہا تو کردار کو بھی سمجھنے میں آسانی ہوئی شائد اسی وجہ سے ملا اشرف علی تھانوی اور احمد رضا خان بچ نہ سکے ، مسجد کے مولوی پر ہنسی ہی آتی تھی خطبہ کبھی دل لگا کر نہیں سنا مولوی کا خاکہ شاعروں نے اڑایا تو یہ قبیلہ مسخرہ ہی لگا، مولوی کی وضع قطع سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ عربی کلچر کو بھی اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں، آپ انگریزی لباس میں ہوں تو ان کے ماتھے پر شکن پڑ جائیگی، یہ بتائیں گے کہ رسول عربی کیا لباس پہنتے تھے مگر کبھی رسول کے اتباع میں مونجھ کی چپل پہنے نہیں دیکھا اور عموماً تہمد کا استعمال، سماجیات اور نفسیات آپ کو مولوی کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں، مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب ہم شام کو امام مسجد اور موذن کا کھانا لے کر مسجد جایا کرتے تھے اور یہ حضرات اپنا سارا کام چھوڑ کر یہ دیکھا کرتے تھے کہ کھانے میں کیا ہے، عید بقرہ عید پر ان دونوں صاحبان کے لئے کپڑوں کے جوڑے بھی جاتے تھے ، گھر کے بزرگوں سے اگر پوچھ لیا جائے کہ امام اور موذن کوئی کام کیوں نہیں کرتے تو جواب ملتا کہ یہ دین کا کام کرتے ہیں اس لئے ان کی کفالت ہم پر فرض ہے، مگر ہم نے دین کو کام کو نماز پڑھانے یا اذان دینے کے سوا کچھ نہ پایا کچھ ناولوں میں امام مسجد کا خاکہ اڑایا گیا ہے اقبال نے ان اماموں کو دو رکعت کا امام کہا ہے، ویسے تو مولوی یا امام کو اَن پڑھ ہی سمجھا جاتا کہ ان کی اپنے عہد کے علوم پر دسترس نہیں اور یہ بھی کہ انہوں نے سائنسی علوم امت پر حرام کر رکھے ہیں تقسیم سے قبل مساجد کے اماموں میں پھر کسی حد تک متانت اور شرافت تھی ، مگر 1947 کے بعد ایک نیا سیاسی اسلام ایجاد کیا گیا، جس میں متانت اور شرافت کی بدیہی کمی تھی، تکلف بر طرف یہ رویہ بہت حد تک کلچر کے زیر اثر تھا اور ہے بھی اس رویہ میں شدت ایوب خان کے زمانے سے آنے لگی تھی جب مولویوں نے ایوب خان کے عائلی قوانین کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور پکی پکائی روٹی پروگرام کو اس بنا پر مسترد کر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوں کہ خواتین معاشی جدوجہد میں شامل نہ ہو جائیں جنرل ضیاء نے مولویوں کو معاشرے میں بہت متحرک رول دے دیا جو ان کے اندازوں سے زیادہ تھا اس اختیار کے ساتھ مولویوں کو جبر کی بھی اجازت دے دی گئی، ہتھیاروں کا استعمال عام ہوا تو ان مولویوں کی آنکھوں میں وحشت اتر آئی جنرل ضیا نے دینی جماعتوں کی طاقت بڑھانے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل، اسلامی فقہ بورڈ اسلامی شرعیہ کورٹ، شرعی عدالت، جیسے ادارے بنا دئے جو حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے کافی ہیں، ایک روئیت ہلال کمیٹی جس کے 3400 ملازمین ہیں اربوں کا بجٹ ہے اور اس کا کام صرف چاند دیکھنا ہے، جنرل ضیا کے دور سے ہی سرکاری اسکولوں پر توجہ کم ہوتی چلی گئی اور تیزی سے مدارس بننے لگے ، یہ مدارس چندے، خیرات ، زکوۃ اور صدقات پر چلتے ہیں غریب خاندان اپنے بچوں کو امام مدارس کے حوالے کر جاتے ہیں، چونکہ یہاں بچوں کےٹھہرنے کا انتظام بھی ہے بورڈنگ کی وجہ سے ان مدارس کی سرکاری فنڈنگ بھی فیاضی سے ہوتی ہے ان مدارس پر کسی ادارے کا کنٹرول نہیں وفاق المدارس نام کی ایک چیز ہے مگر اس پر بھی کنٹرول مولویوں کا ہی ہے لہٰذا مدارس پر نگرانی کسی ادارے کی ہے نہیں،جب کوئی نگرانی نہیں ہے تو مدارس میں ان پڑھ مدرسوں کو آزادی ہے جو چاہیں کریں ان کو کوئی روکنے والا نہیں اور نہ ہی قانون ان پر لاگو ہوتا ہے۔
یوں تو مدارس میں بچوں کا جنسی استحصال ہوتا رہتا ہے، وہ نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے لاحقے اور سابقے میں شیخ الحدیث اور مفسر القرآن لکھا جاتا ہے جب یہ جنسی استحصال کے واقعات سامنے آتے ہیں تو درجنوں علماء ان کی حمائیت پر کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ قاری عبد الرشید نے قرآن کے صفحات خود گارپیچ میں ڈالے اور الزام ایک معذور بچی پر لگا دیا تھا، مفتی قوی کا تعلق قندیل کے قتل سے جوڑا گیا مگر قانون قوی کا کچھ نہ بگاڑ سکا، جنرل ضیا الحق نے سپاہ صحابہ کی خوب سر پرستی کی تھی اور اس جماعت کو اہل تشیع کو قتل کرنے کا لائسنس ملا ہوا تھا، بعد میں یہ جماعت کالعدم ہو گئی اسی جماعت کا ایک کمانڈر ابوبکر معاویہ پچھلے دنوں ایک بارہ سال کے بچے کے ساتھ بدکاری کے الزام میں گرفتار ہوا مگر اہل حدیث کے سربراہ ابتسام الہی ظہیر ابو بکر معاویہ کو پولیس سے چھڑا کر لے گئے بچے کے والد نے ابوبکر معاویہ کے خلاف ایک FIR درج کرائی تھی مگر ابتسام الہی ظہیر کے دباؤ پر FIR واپس لے لی ہے بچے کے والد کا بیان ہے کہ علماء کی محبت میں FIR واپس لی جبکہ ابتسام الہی ظہیر کا کہنا ہے کہ اس نے دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرائی ہے کون سمجھائے کہ CHILD MOLESTATION ایک جرم ہے کوئی گلی کا جھگڑا نہیں جس میں صلح کرکے معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے، اب تواتر سے مساجد اور مدارس میں بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی تفضیل نہیں لکھی جا سکتی، حتی کہ مساجد میں اعتکاف کے دوران بھی اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں ،ایک عالم دین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے مگر دینی حلقوں کو اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ کچھ مولوی احادیث سے لواطت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ان کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن سے گمراہی پھیل رہی ہے، یہ بتایا جا رہا ہے کہ مری ہوئی عورت کے ساتھ اگر زنا کیا جائے تو اس پر حد جاری نہیں ہوتی ان عناصر کا تعلق زیادہ تر صوبہ پختون خواہ سے بتایا جاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ بہت چھوٹے بچوں پر تشدد کی ویڈیوز بھی نیٹ پر موجود ہیں، ہر چند کہ چند گرفتاریاں ہوئی ہیں مگر حسب معمول پولیس ان کو چھوڑ دے گی ان حالات میں بڑے علماء کی خاموشی معنی خیز ہے وہ اس قسم کے واقعات کی مذمت نہیں کر رہے CHILD MOLESTATION ایک جرم ہے ، ہماری نظر میں یہ مذہبی جماعتوں اور ان سے منسلک مولویوں کی بد معاشیاں ہیں جن پر پولیس کا بس نہیں چلتا اور وہ قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں، یہ سنگین مسئلہ ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس کو حکومت فی الفور اپنی تحویل میں لے اور بدکار مولویوں کو خواہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، ان مدارس کی کار کردگی پر ہزار سوال ہیں مگر اس وقت مسئلہ بچوں کی حفاظت کا ہے اور اس بات کا کہ یہ بچے بدکاری کا شکار ہو کر ساری عمر نفسیاتی مسائل کا شکار رہیں گے ، مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کیا جائے ،ان کے ہوسٹلز بند کئے جائیں، اور بچوں کو پڑھانے کے لئے تربیت یافتہ ٹیچرز بھرتی کئے جائیں حکومت عوام کو یقین دلائے کہ دینی جماعتیں اور مولوی قانون سے بالاتر نہیں ہیں ، میڈیا ان کے ڈر سے بول نہیں رہا اور این جی اوز بھی خاموش۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں