بھارتیوں کی یہ جسارت اور جرأت ہوگئی کہ وہ، بقول ان کی ڈینگوں کے، اب پاکستان کے گھر میں گھس کر پاکستانی شہریوں کو مار رہے ہیں اور چن چن کے مار رہے ہیں !
یہ دعوی بھارتیوں نے تو بعد میں کیا ہے لیکن اس سے پہلے برطانیہ کے معروف اخبار، “گارجین” نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں تحقیق کے بعد یہ انکشاف کیا کہ گزشتہ چار برس میں، 2020ء سے لیکر آجتک، بھارتی خفیہ ایجنسیاں اور ادارے پاکستان میں کم از کم بیس (20) پاکستانیوں کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنا کر انہیں ہلاک کرچکے ہیں۔ ان ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر وہ پاکستانی شہری تھے جن کا تعلق کشمیر یا مقبوضہ کشمیر سے تھا !
گارجین کی اس رپورٹ نے جہاں محب وطن پاکستانیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں تو پاکستان اور پاکستانیوں کی جانی دشمن ہیں یہ سب کو معلوم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، اور ہر پاکستانی کے ذہن میں سر اٹھاتا ہے کہ ہماری اپنی وہ ایجنسیاں اور ادارے جن کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پاکستان دشمن ملک میں داخل نہ ہونے پائیں، اپنی تخریبی کاروائیوں کو سر انجام نہ دینے پائیں، وہ کہاں سوئے ہوئے تھے، کس خوابِ غفلت کے شکار تھے کہ دشمن بہ سہولت ملک میں داخل ہوکر پاکستانی شہریوں کو اپنی کارروائی کا نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا؟
جہاں یہ سوال ہر اس پاکستانی کے ذہن میں سر ابھارتا ہے جسے وطن سے محبت ہے وہیں اس کا جواب بھی ہر محبِ وطن پاکستانی کو معلوم ہے !
جواب یہ ہے کہ ہمارے منہ بولے محافظ تو اپنے فرائضِ منصبی کے سوا ہر وہ کام کررہے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہئے۔ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں، جن میں سرِ فہرست وہ ہے جو دنیا بھر میں بدنام ہے اور پاکستان کی رسوائی کا سبب ہے، یعنی آئی ایس آئی، تو اپنے سیاستدانوں کے خلاف تخریبی کارروائیوں میں ایسی مصروف ہیں کہ ان کے پاس اور کسی کام کیلئے وقت ہی نہیں بچتا !اسلام آباد ہائی کورٹ کے جن چھ ججوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق جو خط پاکستانی عدالتی انصاف کے سربراہ کے نام تحریر کیا ہے اس کا سب سے نمایاں پہلو تو یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف ان کو ڈرانے دھمکانے کا قبیح فعل کرتے آئے ہیں بلکہ ان کی جسارت ، یا بے شرمی، اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ ججوں کے بیڈ روم تک میں خفیہ کیمرے لگاکر فلمیں بنا رہے ہیں اور خفیہ آلات سماعت کے ذریعہ ان کی نجی گفتگو ریکارڈ کرتے رہے ہیں۔یہ سارے شیطانی حربے ججوں کو بلیک میل کرنے اور اس کے ذریعہ ان کے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ 8 فروری کے عام انتخابات سے چند دن پہلے ہی ججوں کو ڈرا دھمکا کے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف تین مقدمات میں سزا دلوائی گئی اسلئے کہ خود کو پاکستان کا مالک و مختار سمجھنے والے فرعون صفت جرنیل یہ چاہتے تھے کہ عمران الیکشن میں حصہ لینے سے نا اہل ہوجائے اور پاکستانی عوام کی نظروں میں اس کی عزت و توقیر میں کمی آجائے۔
عمران کی عزت و توقیر میں تو کوئی کمی آنے کے بجائے اس کی مقبولیت اور عوامی پذیرائی میں ہزار گنا اضافہ ہوگیا جس کا منہ بولتا ثبوت انتخابی عمل کے نتائج کی صورت میں سامنے آیا جس کے بعد یزیدی ٹولہ نے، جس نے پاکستانی فوج کے ادارے کو یرغمال بنایا ہوا ہے، تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کی اور اس بے شرمی اور بے حیائی سے کی کہ دنیا بھر میں اس پر لعنت و پھٹکار کی گئی اور پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان دنیا کے کونے کونے کو مہیا ہوگیا۔
لیکن پاکستان کے جسدِ قوم سے جونکوں کی طرح چمٹے اور خون پیتے ہوئے یزیدی جرنیل، جن کی قیادت عاصم منیر جیسے جعلی حافظ کے ہاتھ میں ہے، اتنے بے شرم اور بے حیا ہوچکے ہیں کہ دنیا بھر میں اپنی رسوائی کے باوجود انہیں اپنے ابلیسی اعمال پر نہ کوئی تاسف ہے نہ ملال بلکہ لگتا یوں ہے کہ وہ اس تمغہء رسوائی کو بھی اپنی توقیر سمجھتے ہیں اور اپنے شیطانی ہتھکنڈوں میں اور زیادہ بے حیائی سے کام لینے لگے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جائز شکایات پر کوئی ٹھوس اور مثبت کارروائی کرنا تو درکنار، ملک کی عدالتِ عالیہ کے سربراہ، جسے سرغنہ کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے، فائز عیسیٰ نے ایک دن اپنی مرضی کے چھ ججوں کا منڈل سجاکے اور ٹیلی وژن پر اپنی کارروائی کا ڈرامہ رچانے کے بعد مزید کارروائی کو 29 اپریل تک موخر کردیا ہے۔
فائز عیسی، جیسا کے پاکستان کا ہر عام شہری بھی جانتا ہے، اسی شیطانی جرنیلی ٹولہ کا عدالتی گماشتہ ہے جس نے پاکستان کی ریاست اور قوم کو یرغمالی بنایا ہوا ہے۔ جو گٹھ جوڑ فائز عیسیٰ اور یزیدی جرنیلی ٹولہ میں ہے ویسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی پہلے نہ ہوا تھا نہ دیکھنے میں آیا تھا۔ تو فائز عیسیٰ نےججوں کی شکایات پر مزیدکارروائی اسلئے موخر کی ہے تاکہ اس طویل وقفہ میں ان شیطانی چیلوں کو وقت مل جائے کہ وہ اس کا تریاق جو لیکر آئینگے اور فائز عیسی کیسے اسے عدالت کا لبادہ اوڑھائے گا۔
پاکستان میں یہ دو، جرنیل اور فائز عیسیٰ تیسرے ابلیسی چیلے، یعنی چیف الیکشن کمشنر، سکندر راجہ کی شمولیت سے وہ تثلیث بناتے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کا قتل بھی کررہی ہے، پاکستانی عوام کے منشور کا گلا گھونٹ رہی ہے اور پاکستان کے بیرونی دشمنوں کا کام آسان کررہی ہے کہ وہ جب چاہیں، جس طرح چاہیں، ملک کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے، دندناتے ہوئے اس میں داخل ہوجائیں اور پاکستانی شہریوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بناکے بے خطر، کسی نقصان کے بغیر، ملک سے فرار ہوجائیں۔
کیا وقت آپڑا ہے بد نصیب پاکستان پر کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج شنوائی کیلئے ترس رہے ہیں انہیں انصاف ملنا تو کجا۔
اور وہ جو کہاوت ہے ناں کہ زخموں پر نمک چھڑکنا وہ زخم خوردہ ججوں پر صادق آرہی ہے!
تازہ ترین واردات یہ ہوئی ہے کہ اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹوں کے ججوں کو ایسے خطوط ارسال ہوئے ہیں جن کے لفافوں میں زہریلا پاؤڈر تھا اور کاغذ پر کھوپڑی کی علامت بنی ہوئی تھی!
کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید ڈرامائی عنصر شامل یوں کیا گیا کہ ایسے ہی زہر آلود لفافے اور خطوط سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی بھیجے گئے ہیں۔ یہ البتہ معلوم نہیں ہوسکا، نیوز میڈیا پر ایسا کوئی اشارہ تاحال تو نہیں ملا، کہ فائز عیسی کو بھی یہ زہرآلود خط یا لفافہ ملا ہے کہ نہیں؟اب اگر دو جمع دو کیا جائے تو اس کا احتمال کم ہی لگتا ہے کہ فائز عیسیٰ کو بھی اس قسم کا کوئی خط ملے گا جو قیامت کے نامے کے زمرے میں شمارکیا جائے اور اس کی وجہ کیا ہوگی یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں رہتی اسلئے اور بھی کہ جو سسپنس سے لبریز ڈرامہ ان دنوں پاکستان کے اسٹیج پر کھیلا جارہا ہے اس میں فائز عیسی کا کردار اس قسم کا ہے جسے فلم کے ولن سے منسوب کیا جاتا ہے۔
اب ان قیامت کے ناموں کی ترسیل کے بعد سوال یہ ہے کہ ایسے زہر میں بجھے خط کون بھیج رہا ہےِ یا کون بھیج سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب بھی کوئی ایسا مشکل نہیں ہے، کوئی پیچیدگی یا معمہ اس میں نہیں ہے اسلئے کہ پاکستان کا ہر صاحب، فہم و شعور یہ جانتا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی تخریبی کاروائیوں کا سہرا کس کے سر پر باندھا جاسکتا ہے!
ایک ہی تو ادارہ ہے ملک میں جس کے پاس ہر وہ ذریعہ مہیا ہے، اسے وہ ساز و سامان میسر ہے ہر قسم کا، جو ایسے تخریبی کاموں کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
اے میاں، اس میں کوئی پہیلی نہیں ہے، کوئی معمہ نہیں ہے، کہ یہ قیامت کے نامے بھیجنے کی شیطانی صلاحیت ان ہی کو حاصل ہوسکتی ہے جو ججوں کے بیڈ روم میں کیمرے لگاسکتے ہیں، ان کو بلیک میل کرسکتے ہیں اورجن کو دھونس اور دھاندلی کے کاموں میں ملکہ حاصل ہے، ید طولیٰ رکھتے ہیں وہ ایسی تخریبی کارروائیوں میں۔
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان اپنے پر قابض شیطانی ٹولہ کی مذموم حرکتوں کے ہاتھوں کیسے دنیا بھر میں رسوا ہورہا ہے، جگ ہنسائی کا سامان بنا ہوا ہے۔ چوبیس پچیس کڑوڑ انسانوں کا ملک جو دنیا میں مسلمان ممالک کی صفوں میں دوسرے نمبر پر ہے اور جسے اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے وہ اپنے نام کے ساتھ وہ شہرت منسلک کررہا ہے جو رسوائے زمانہ مافیا کی ہوتی ہے !
پوری قوم کیلئے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ ہم اور کہاں اور کس حد تک گرینگے یا گر سکتے ہیں؟
صاف ظاہر ہے کہ وہ شیطانی ٹولہ جو پاکستان پر اپنے پنجے گاڑے بیٹھا ہے اور اس کی بیخ کنی کررہا ہے وہ آسانی سے پاکستان کی جان چھوڑنے والا نہیں ہے۔ عمران خان نے جو تازہ ترین باتیں اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے کی ہیں وہ چشم کشا ہیں۔ ہمیں اس نتیجہ سے سو فیصد اتفاق ہے جو عمران نے اخذ کیا ہے۔ جو ٹولہ پاکستان پر مسلط ہے اس سے خیر کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی اور یہ بھی کہ جب تک فائز عیسی پاکستان کی عدالتِ عالیہ پر براجمان ہے تو ملک میں انصاف اور قانون کی حکمرنی کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہوگا۔
آخری فیصلہ پاکستان کے عوام کو ہی کرنا ہوگا۔ خدا کی عدالت تو جب لگے گی سو لگے گی لیکن پاکستان کو فوری اور اشد ضرورت ہے اس عوامی عدالت کی جو پاکستان کو اس موجودہ کوڑے کرکٹ سے پاک کرسکے۔ اس کام کا وقت آچکا ہے اور عوامی کارروائی میں تاخیر پاکستان کے مسائل میں صرف اور صرف اضافہ ہی کرسکتی ہے!
یہ سطور جب تک آپ کے نظر نواز ہونگی عید ہوچکی ہوگی سو آپ سب کو عید کی دلی مبارکباد۔ مجھ گنہگار کیلئے یہ عید نہیں ہے اسلئے کہ ابھی چند روز پہلے میری بڑی ہمشیرہ اپنے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آپ بھی ان کی مغفرت کیلئے فاتحہ پڑھ لیجئے۔ یہ میری آپ سے گذارش ہے !
0