ہفتہ وار کالمز

پاک افغان تنازع

جنگِ عظیم دُوم کے بعد نو آبادیاتی نظام تیزی سے شکست و ریخت کا شکار ہو گیاملک تیزی سے آزاد ہوتے چلے گئے کہاجاتا ہے کہ یہ سب کچھ آزادی کی تحاریک کے سبب ہوا،1950 کے قریب ایک کتاب منظرِ عام پر آئی تھی اس کے مصنف Arthor Wilson تھے آرتھر ولسن نے جنگ عظیم دُوم کے بعد تباہ شدہ یورپ کا بہت سفر کیا،ان کی ملاقاتیں بہت سے بڑے سیاست دانوں سے ہوئیںان کا مکالمہ بڑے دانشوروں سے ہوا،جرمنی میں ان کا قیام طویل تھا وہ روس اور یوگوسلاویہ بھی گئے،مختصر وقت استنبول میں بھی گزارا،آرتھر ولسن کا کہنا ہے کہ جنگ عظیم کے بعد یورپ کی معاشی حالت بہت پتلی تھی برطانیہ تباہ ہو چکا تھا اس میں بھی اتنی سکت نہ تھی کہ وہ نو آبادیات کا بوجھ سہار سکتا،اسی دوران برطانوی پارلیمنٹ میں لارڈ ایٹلی کے ایک دیرینہ دوست نے تقریر کی تھی کہ ہمیں ایشیاء اور افریقہ کی ذہنی صلاحیتوں کا علم ہے لہٰذا ایشیاء اور افریقہ کو آزادی دے دی جائے تب بھی یہ خطے ہماری وزڈم کا مقابلہ نہ کر پائیں گے اور اپنی معاشی ترقی کے لئے ہمارے ہی محتاج رہیں گے ،اگر ان ممالک کے بیچ تنازعات میں رنگ بھرا جائے تو ہم ان کی عسکری ضروریات پوری کرکے ان کی دولت اپنے ملک میں لا سکتے ہیںاور ہماری اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں سونا اگلیں گی لارڈ ایٹلی کے اس دوست کا نام لارڈ میلارڈ تھا یہ تقریر سارے یورپ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی یورپی اقوام کو یہ آئیڈیا پسند آیا سنتے ہیں کہ برٹرینڈ رسل نے کچھ پس و پیش کے بعد اس خیال سے اتفاق کیا تھااسی دوران ایک اور کتاب لکھی گئی جس میں آزاد ہونے والی ریاستوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی پولیس اور فوج کے ذریعے اپنے اپنے ملک میں امن و امان کو بہتر بنا سکتے ہیں شنید یہ ہے کہ اس وقت کے ایک سکریٹری انور قدوائی نے وہ کتاب دولتانہ کو تحفے میں دی تھی دولتانہ کو یہ کتاب پسند آئی تھی اور انہوں نے ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کی، کہا جاتا ہے کہ پورے مغربی پاکستان میں اس وقت پنجاب کے جوانوں کو بے دریغ پولیس میں بھرتی کر دیا گیابہت بعد میں پنجاب کو پنجابی پولیس کا طعنہ بھی سننے کو ملا،پنجابی فوج کو اپنی عمل داری کی جانب قدم بڑھانے میں کچھ وقت لگا،آرتھر ولسن نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ سلطنت عثمانیہ جس کی عمل داری تین بر اعظموں پر تھی صرف
ساٹھ سال کے عرصے میں بنا مزاحمت کے زمیں بوس ہو گئی اور وہاں سے Natioalism کا آسیب نمودار ہواNationalismنے پوری مسلم امہ کو آسانی سے نگل لیا،اب دینی عالم اور کچھ مسلم سیاست دان مسلم امہ کی بات کرتے ہیں یہ تاریخ سے ناواقفیت کے سبب ہے یا اس میں منافقت موجود ہے دراصل ایسا نہیں ہے اُمت کی تدفین بہت خاموشی سے ہوگئی،راتوں رات بھارت اور پاکستان بھی Nationalism کی آغوش میں آبیٹھے برطانیہ نے افغانستان کے حالات دیکھ کر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیاشائد یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو پتہ نہ چل سکا کہ ساری مسلم دنیاNationalism کا نیا سیاسی مذہب اختیار کر چکی ہے گزشتہ دو سو سالوں میں افغانستان میں قوم پرستی کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں مسلم دنیا کے بڑے مفکرین نے قوم پرستی کو شریعت کے خلاف قرار دیا ،ان میں مصر کے حسن البنی بھی شامل ہیں مودودی صاحب نے بھی دبے دبے لہجے میں قوم پرستی سے اختلاف کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button