دو کشتیوں کے مسافر!

آج میں نے ٹورنٹو میں اس فلم کے پریمئیر میں شرکت کی جسے ہمارے شہر کی ایک معروف ادیبہ اور کالم نگار روبینہ فیصل نے بہت محنت سے پروڈیوس کیا ہے۔ اس فلم کا عنوان ہے "کلیسا میرے آگے” جو مرزا غالب کے اس شہرہء آفاق شعر کے مصرعہ ثانی کا آخری ٹکڑا ہے ۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے!
اردو ادب اور تاریخ کے طالبعلم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ غالب نے، جنہیں مجھ جیسا ادب اور شاعری کا ایک معمولی طالبعلم بھی جانتا ہے یہ شعر اس تاریخ ساز پیش رفت کے پس منظر میں کہا تھا جسے ہم فرنگی راج کے خلاف اپنی طویل جنگِ آزادی کا نقطہء آغاز کہتے ہیں اور جسے فرنگی نے "غدر” کے نام سے منسوب کیا۔ وہ سطحی نظر رکھنے والے لوگ جو اُردو شاعری کو اور اس کے روشن میناروں کومحض تضیع ٔاوقات سمجھتے ہیں مرزا کے اس ایک شعر سے ہی اپنے نظریہء پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک شعر اس پورے تاریخی دور کا عکاس ہے جس میں برِصغیر پاک و ہند میں ہزار سالہ مسلم اقتدار کاسورج غروب ہورہا ہے، مسلمانانِ ہند کی مسلمہ حکمراں حیثیت معدوم ہو چکی تھی اور فرنگی راج برِ صغیر پر ہر طور سے اپنی گرفت مضبوط کرتا جارہا تھا۔غالب نے اپنے اس ایک شعر میں اس نفسیاتی اور ذہنی کشمکش کا نقشہ کھینچا تھا جس سے ہند کے مسلمان دوچار تھے۔ کعبہ ان کے اقتدار اور حکمرانی کی علامت تھا اور کلیسا اس تیزی سے پھیلتے ہوئے نئے کلچر کی جو فرنگی اپنے سب سےبڑے مقبوضہ میں رائج کرنا چاہ رہے تھے اور وہ رائج ہو بھی رہا تھا۔یعنی، بہ الفاظ، دیگر مسلمانانِ ہند دو کشتیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہورہے تھے جن میں سے ایک کشتی انہیں ماضی کی لہر سے چمٹے رہنے کی ترغیب دے رہی تھی اور دوسری کشتی انہیں مخالف سمت کے دھارے میں بہا لیجانا چاہ رہی تھی!
روبینہ فیصل نے غالب کے اس تاریخی مصرعہ کو آج کے پاکستانی تارکینِ وطن کی اس کشمکش کا کینوس بنانے کی کوشش کی ہے جو اپنے وطن اور اس سے منسلک تہذیب و ثقافت کو خیرباد کہکر ایک نئی دنیا کو اپنا گھر، اپنا وطنِ ثانی، بنانے کیلئے نقلِ وطن کرتے ہیں۔ نئی دنیا، نیا اور اجنبی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی ماحول عام طور سے نئےتارکینِ وطن کو دو کشتیوں کے مسافر بنادیتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پہ تو ایک نئی دنیا، ایک نئے ماحول میں بسنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے سامانِ سفر میں وہ جو اپنا پیدائشی کلچر، تہذیب اور ثقافت اور ان کے تقاضوں کو باندھ لاتے ہیں وہی ان کو دو کشتیوں میں سفر کرنے کا باعث بن جاتا ہے!
روبینہ نے بہت چابکدستی اور مہارت سے اس کشکمش کو سلور اسکرین پر پیش کیا ہے۔ ان کی فلم کی سب سے نمایاں بات ہمارے دیسی کلچر میں مذہب کا وہ تصور اور عنصر ہے جو نئے وطن میں ایک تارکِ وطن کا سب سے کٹھن امتحان بن جاتا ہے۔ ہماری معاشرت میں مذہب سے جڑےہوئے جو تقاضے ہیں ان میں مولوی کا کردار نمایاں ہے۔ مولوی نے بھی نئی دنیا کو اپنی آماجگاہ اسی طرح سے بنالیا ہے جیسے معاش کی مجبوریوں کے ہاتھوں نقلِ وطن کرنے والے پاکستانی! گویا یہ کہنا بجا ہوگا کہ مولوی بھی ایک عام تارکِ وطن کے پیچھے پیچھے چلا آیا ہے اور اس کا جادو یہاں، نئی دنیا میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ روبینہ کی فلم میں بھی یہ کردار ایک اعتبار سے مرکزی ہے اور اتفاق سے ان کی فلم میں مولوی کا کردار میرے ہنرمند بیٹے، عبداللہ غوری نے ادا کیا ہے اور اس خوبی سے ادا کیا ہے کہ اپنے باپ کا سر فخر سے بلند کردیا ہے!اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہنا چاہئے کہ روبینہ فیصل کی یہ فلم اس سنگم پر آئی ہے جب ہمارے وطنِ اول، جسے میں وطنِ مرحوم کہتا ہوں، حالات من و عن ویسے ہی ہیں جیسے اس شورش زدہ تاریخی سنگِ میل پر تھے جس کے تناظر میں غالب نے اپنا یہ آفاقی شعر کہا تھا۔
قائدِ اعظم کا پاکستان، جسے عسکری طالع آزماؤں کی ہوسِ اقتدار آج سے نصف صدی پہلے دو لخت کرچکی تھی، آج پھر اسی طرح کے عذاب میں مبتلا ہے جیسے 1857ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ہند کے مسلمانوں نے جھیلا تھا۔ اور تاریخ کا ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ آج کے پاکستان کو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی اور کٹھن آزمائش میں مبتلا کرنے والےعسکری یزید ان ہی ملت فروش اور مسلمان دشمن کرائے کے فوجیوں کی نسل سے ہیں جن کی مدد سے فرنگی نے مسلمانوں کی جنگ آزادی کی بساط اپنے حق میں پلٹی تھی اور برِ صغیر پر ہزار سال مسلم راج کی بازی لپیٹ دی تھی!
آج پاکستان پر مسلط عسکری یزیدی ٹولہ، جس کا سرخیل خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہے، وطنِ مرحوم کے ساتھ وہی سلوک کر رہا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فرنگی فوج نے اپنے مقبوضہ ہندوستان کے ساتھ کیا تھا!پاکستانی تاریخ کے عسکری آمروں اور طالع آزماؤں کا یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہماری بدنصیب تاریخ کا سب سے نمایاں اور تکلیف دہ پہلو یہی ہے کہ ہر طالع آزما نے پاکستان کے عوام کو اسی طرح کیڑے مکوڑے سمجھا ہے جیسے فرنگی راج میں غیر ملکی قابض فوج کا ہوا کرتا تھا!اس پر مستزاد یہ حقیقت بھی رہی ہے کہ ہر طالع آزما نے اپنے آپ کو جمہور پسند منوانے کی کوشش کی ہے اور اس کاوش میں ان ملک دشمنوں اور ملت فروشوں نے اپنی سہولت کیلئے ان سیاسی گماشتوں کو دریافت یا تخلیق کیا ہے جنہیں ریاستی حکمرانی کی بساط پر مہروں کی طرح سے چلایا جاسکے۔پہلےعسکری آمر، ایوب خان کی تخلیق بھٹو خاندان تھا جو آج رسوائے زمانہ ڈکیت زرداری کی تحویل میں ہے اور اپنے مقبوضہ صوبہء سندھ کے عوام کا خون چوس رہا ہے اور اس کے وسائل سے اپنی تجوریاں بھر رہا ہے !دوسرے عسکری طالع آزما ، جنرل یحیی نے ایوب کی طرح کوئی گماشتہ خاندان تو تخلیق نہیں کیا لیکن اس کا سیاہ کارنامہ پاکستان کو دولخت کرنے کا تھا جس میں اس کی ہر ممکن مدد اور معاونت کرنے والا ذوالفقار بھٹو، ایوب کا ایجادِ بندہ تھا!تیسرے عسکری طالع آزما، جنرل ضیاالحق کی ایجاد بندہ وہ نام کا شریف خاندان تھا جو آج کے طالع آزما، عاصم منیر کی بساط پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچ رہے ہیں۔ یہ مفلوک الحال لوہاروں کا کنبہ تھا جو آج، اپنے عسکری سرپرستوں کے بھرپور تعاون سے ارب پتی بلکہ کھرب پتی ہوچکا ہے!
عالمی مالیاتی ادارہ، آئی ایم ایف، جس کے سامنے کشکولِ گدائی لیکر کھڑے ہونے والے ممالک کی صف میں پاکستان کا پہلا نمبر ہے، آجتک پاکستان اس سے 27 بارقرضہ مانگ چکا ہے، اس کی پاکستان کے ضمن میں تازہ ترین رپورٹ، جو 186 صفحات پر مشتمل ہے، اسے پاکستان پر مسلط نظام کا سیاہ اعمالنامہ کہنا چاہئے۔ اس رپورٹ کے اعتبار سے پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ ہر سال کم از کم بیس ارب، جی ہاں، بیس ارب ڈالر کی خردبرد کرتی ہے جب کہ حکومت ایک ایک ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی منت سماجت کرتی ہے اور ہر شرط قبول کرنے کیلئے آمادہ رہتی ہے!
کرپشن کے اس کھیل میں بھی یزیدی جرنیل، جو پاکستان کو اپنے باپ دادا کی میراث سمجھتے ہیں، سرخیل ہیں۔ ان کے اسی (80) سے زائد صنعتی اور تجارتی ادارے ناسور بن چکے ہیں پاکستان کی مقید معیشت کیلئے۔ عاصم منیر کا تسلط پاکستان کی معیشت پر بھی ایسا ہی جان لیوا ہے جیسا اس کی سیاست اور ریاستی نظام پر!عاصم منیر نے جب نام نہاد اسپیشل انویسٹمنٹ چیل کا فراڈ شروع کیا ہے تو اس یزید کا دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کی معیشت میں ایک سو ارب ، جی ہاں، ایک سو ارب ڈالر کا بیرونی سرمایہ لیکر آئے گا ۔ اس سو ارب ڈالر کا تو ایک فیصد بھی ملک میں نہیں آیا اسلئے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اندھے بہرے نہیں ہوتے جو ایک طالع آزما کی باتوں میں آجائیں۔ عالم یہ ہے کہ غیر ملکی نامی ادارے پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی دیکھ کر یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہے ہیں اور یزیدی ٹولہ نے اسلام آباد کا ہوائی اڈہ متحدہ عرب امارات کے حوالے کردیا ہے، کراچی کی کلیدی بندرگاہ، جو پاکستانی معیشت کی شہ رگ ہے بیچ دی ہے اور اب پی آئی اے کے حصے بخرے ہونے کی باری آگئی ہے !یہ زوالِ معیشت ایک طرف لیکن یزید ہے کہ اس نے پورے ملک کو اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع کی سولی پہ لٹکایا ہوا ہے!
ستائیسویں (27ویں) آئینی ترمیم کے ذریعہ اپنی تابع فرمان قومی اسمبلی اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کی کلائی مڑوڑ کے عاصم منیر نے اپنے لئے ، بظاہراگلے کم از کم سات برس کا انتظام کرلیا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم نے آرمی ایکٹ میں بھی یزید کی سہولت کیلئے راہ ہموار کردی ہے۔اوروہ شخص جو سپہ سالار کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ریٹائر ہوچکا تھا اب وہ جونک کی طرح پاکستان کی مسلح افواج کا اس کے حساب سے 2032ء تک خون چوستا رہے گا!
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں!
دنیا سے چمگاڈر کی طرح چمٹا ہوا ہر ہوس گزیدہ اپنے لئے اس طرح کا بندوبست کرتا ہے لیکن وہ جو کائنات کا مالک ہے وہ اپنی کتابِ مبین میں کہہ چکا ہے کہ یہ سب شیطان اپنی اپنی کارروائی کرتے ہیں، منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن اللہ سب سے بڑا منصوبہ ساز ہے۔ وہ ان زمینی خداؤں کے بنائے ہوئے بظاہر ناقابلِ تسخیر قلعوں کو ریت کے ٹیلے بنانے میں پل کی دیر بھی نہیں کرتا!
لیکن قدرت کی یہ تنبیہ، یہ وارننگ تو وہ یاد رکھتے ہیں جنہیں حیات بعد الموت پر اعتبار اور ایمان ہوتا ہے۔ عاصم منیر جیسے زمینی خدا تو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ ان کے سیاہ کرتوت تو یہی بتاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو یقین دلانے کیلئے یہی کافی ہے کہ عاصم منیر نے تا حیات ہر احتساب، ہر عدالت اور ہر جوابدہی سے استثنیٰ لے لیا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ نامی ڈکیت زرداری کو بھی یہ استثنیٰ بخش دیا ہے!
تو پاکستانی قوم کی بدنصیبی ہے کہ یزیدی ٹولہ کے ہاتھوں پوری قوم دو کشتیوں کی مسافر بنی ہوئی ہے!
ایک کشتی یزیدی ٹولہ کی ہوس کے ہاتھوں اسے زوال اور تنزلی کی سمت میں لیجا رہی ہے دوسری کشتی میں وہ محبِ وطن ہیں جو پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں اس بھنور ، اس گرداب سے نجات دلوانا چاہتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ قدرت کے ہاتھ ہے کہ کونسی کشتی پاکستانی قوم کی تقدیر بنتی ہے!
استثنیٰ لے لیا ہے ہر اک احتساب سے
چوروں کو کیسا خوفِ عدالت ہے، الاماں
گردن پہ قوم کی یوں مسلط ہیں سب لعین
حلقومِ قوم سے تو نکلتی نہیں فغاں !



