خوست سے واشنگٹن تک!

افغانستان کے ایک گائوں سے واشنگٹن آ کر وائٹ ہائوس سے کچھ فاصلے پر دو سرکاری اہلکاروں پر گولیاں برسانے والے نوجوان کا اگر امریکہ کی طویل ترین جنگ سے گہر اتعلق ہے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔ امریکہ نے جب اکتوبر2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت اس نوجوان کی عمر پانچ سال تھی۔ اسکا نام رحمان اللہ لکنوال ہے اور اس نے اوائل عمر ہی میں افغانستان کی پیرا ملٹری فورس کے اس یونٹ میں ملازمت اختیار کی تھی جسکا دامن اسکے ہموطنوں کے خون سے داغدار تھا۔زیرو یونٹ یوںتو افغان انٹیلی جنس سروس کا ایک حصہ تھا مگر اسکے اہلکاروں کی بھرتی ‘ ٹریننگ اور نگرانی سی آئی اے کرتی تھی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق زیرو پوائنٹ کو اس لیے افغان حکومت کا حصہ بنایا گیا تھا کہ اس پر امریکی قوانین کا اطلاق نہ ہو سکے۔ اس یونٹ کے سپاہی جتنی قتل و غارت کریں انکی گرفت نہ ہو سکے۔ اس ایلیٹ فورس کا کام رات کے وقت مشتبہ افراد کے گھروں پر حملے کر کے انہیں گرفتار کرنا تھا۔
افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے خوست میں پیدا ہونیوالے رحمان اللہ لکنوال نے کئی مرتبہ اپنے دوستوں سے اپنی پر تشدد ملازمت کا ذکر کیا تھا۔ بدھ چھبیس نومبر کو جب اس نے واشنگٹن میں نیشنل گارڈز کے دو سپاہیوں پر قاتلانہ حملہ کیا تو اسکے بعد اسکی زندگی کی کہانی امریکی میڈیا پر چھا گئی۔ غزہ اور یوکرین کی جنگوں کے علاوہ امریکہ کی داخلی سیاست کی ہنگامہ آرائی سب کچھ پس منظر میں چلا گیااور یہ پوچھا جانے لگا کہ لکنوال امریکہ کیسے آیا اور اس نے یہ واردات کیوں کی۔ وہ تو کئی برسوں تک امریکی فوجیوں کیساتھ ملکر ایک ایلیٹ یونٹ میں کام کرتا رہا۔اس نے امریکہ میں ایک اچھی زندگی گذارتے ہوے یہ حملہ کیوں کیا۔ اس حملے کے نتیجے میںایک سپاہی ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہواہے۔ اس خبر کے پھیلتے ہی خوست کے صحافیوں نے لکنوال کے رشتے داروں اور دوستوں سے بات چیت کر کے اسکی زندگی کے حالات امریکی میڈیا تک پہنچا دیئے۔ خوست اور واشنگٹن میں ہونیوالی اس صحافتی سرگرمی میں کسی نے یہ بھی کہہ دیاکہ جو تشدد اور تباہی امریکہ نے افغانستان میں مچائی تھی وہ اسکے اپنے گھر تک آ پہنچی ہے۔ رحمان اللہ کے بارے میں یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ وہ ایک ذہنی مریض ہے۔ اس نےدو شادیاں کی تھیںاور دوسری بیوی کو اس نے شادی کے چند روز بعد طلاق دے دی تھی۔ اگست 2021 میں امریکی انخلا کے موقع پر اسے اسکی خدمات کے صلے میںامریکہ کا ویزہ ملا تھا۔ امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر Bellingham میںاپنے بیوی بچوں کیساتھ رہائش اختیار کرنے کے بعد وہ مختلف ملازمتیں کرتا رہا۔ امریکہ میں افغان مہاجرین کی مدد کرنے والی ایک تنظیم جسکا نام No One Left Behind ہے طویل عرصے تک لکنوال سے رابطے میں رہی۔ اس تنظیم کے ایک ممبر نے کہا ہے کہ شروع کے چند برسوں میں لکنوال اپنی کمیونٹی کی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا مگر گذشتہ چند ماہ سے وہ تنہا رہنے لگا تھا۔ گھر میں بیوی بچوں کیساتھ بھی بہت کم گفتگو کرتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسے امریکہ میں قدم جمانے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسکی ایک بڑی وجہ اسکی انگریزی سے ناواقفیت تھی۔ وہ ریاست واشنگٹن سے تین ہزار میل کا سفر طے کر کے امریکی دارالخلافے واشنگٹن پہنچا تھا۔میڈیا کے مطابق قتل کی واردات کے موقع پر اسکا اللہ اکبر کانعرہ لگانا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ انتہا پسند ہو چکا تھا۔
لکنوال کے اس قابل مذمت حملے کے نتیجے میں اب ان تمام افغانوں سے پوچھ گچھ ہو گی جو اپنے ملک میں برسوں امریکی سپاہ کے شانہ بشانہ لڑتے رہے اور اب امریکہ میں آباد ہیں۔ وہ شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ اس قاتلانہ حملے کے امریکہ میں افغان باشندوں اور اسکے آبائی ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس واردات کے فوراًبعد صدر ٹرمپ نے امریکہ میں آباد تمام افغانوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کو فریز کرنے کا حکم دیا ہے اور اسکے ساتھ ہی انیس ممالک کو امریکی ویزوں کے اجرا ءپر بھی پابندی لگا دی ہے۔ گرین کارڈ ہولڈر افغانوں سے بھی باز پرس ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر تارکین وطن کو حملہ آور اور جرائم پیشہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ لکنوال کی اس واردات کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو ایک مرتبہ یہاں آجائے اسے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے مگر میں ایساکر کے دکھا دوں گا۔
امریکہ کی افغان پالیسی کے حوالے سے یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ واشنگٹن ہر ہفتے چالیس ملین ڈالرز افغان حکومت کو دے رہا ہے۔ افغانستان میں بھوک ‘ بیماری اور بیروزگاری کے مقابلے کے لیے مہیا کی جانے والی یہ امدادامریکہ کے سنٹرل بینک میں پڑے ہوے ان سات ارب ڈالرز کا حصہ ہے جو افغانستان کی ملکیت ہے اور جسے طالبان کی کابل میں آمد کے بعد امریکہ نے ضبط کر لیا تھا۔ چند ماہ پہلے صدر ٹرمپ نے بگرام ائیر بیس پر قبضہ کرنے کی بات بھی کی تھی۔ اسکے جواب میں طالبان نے انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔ اس حوالے سے امریکی مبصرین نے کہا ہے کہ بگرام ائیر بیس کے لیے افغانستان میں مزید بیس برس کا قیام ایک بڑی حماقت ہو گی۔ دوسری طرف چند روز پہلے افغانستان کی سرزمین سے تاجکستان پر ایک ڈرون حملے کے نتیجے میںتین چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ڈرون بھارت میں بنائے گئے تھے۔ چینی باشندوں کی ہلاکت پر بیجنگ کے احتجاج اور لکنوال کی واردات کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی کیا رخ اختیار کرتی ہے۔



