ہفتہ وار کالمز

 ہم کرپٹ ہی نہیں، بے ضمیر بھی ہیں!

پاکستان کے سرکاری ملازم قوانین کی پابندی اس حد تک کرتے ہیں جہاں پر انہیں اوپر کی آمدنی مل جائے۔وہ جانتے ہیں کہ قوانین دکھا کر ہی عوام سے رشوت لی جا سکتی ہے۔ اوررشوت کا حجم بھی ملازم کے رتبہ کے تناسب سے ملتا ہے۔ابھی ابھی جو آئی ایم ایف کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے چھ سو پچاس ارب روپے کی کرپشن کی۔ یہ تو غالباً وہ رقوم ہوں گی جن کا سیدھا سیدھا نشان ملا ہو گا۔ ہمارا خیال ہے کہ اصل کرپشن تو وہ ہے جو عوام کے ملازمین نقد میں وصول کرتے ہیں، اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ جیسے پٹواری حضرات، پولیس والے، کسٹمز کے سفید پوش اہلکار، وغیرہ۔ جن کا کام روزآنہ کی بنیاد پر عوام الناس سے پڑتا ہے۔ درجہ دوم سے لیکردرجہ بائیس تک کے افسران اس اوپر کی آمدنی سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ فوج کا واسطہ براہ راست عوام سے نہیں ہوتا، اس لیے اس نے اپنے لیے مختلف شعبے مختص کر لیے ہیں جیسے کہ کراس بارڈر تجارت، ٹرکوں کی آمد و رفت، بھنگ ، چرس اور تیل کی سرحد کے پار لانے لے جانے کا سلسلہ، وغیرہ۔ اس کے علاوہ جو عسکری بھائیوں کا پراپرٹی کا وسیع کاروبار ہے، اس میں اچھی بھلی آمدنی ہوتی ے۔ جتنا بڑا افسر اتنی بڑی آمدنی۔ ایک عرصہ دراز سے سنتے آئے ہیں کہ تھانے نیلام ہوتے تھے۔ جتنی زیادہ اوپر کی آمدنی تھانہ سے ملتی تھی اتنی بڑی اس کی بولی لگتی تھی۔ تھانے کا کلچر تھا اور ہے کہ سارے دن میں جواوپر کی آمدنی ملتی ہے وہ شام کو اکٹھی کر کے سپاہیوں، محرروں اور افسروں میں بانٹ دی جاتی تھی آہستہ آہستہ جو تھانے کے نگران افسرتھے ان تک بھی حصہ پہنچایا جاتاتھا ۔ یہی رواج سب محکموں میں ہو گیا۔ اب جو بھی افسر رشوت لیتا ہے، خواہ نقد میں یا کمیشن کے رستے، وہ تمام افسران بالا تک درجہ بدرجہ پہنچائی جاتی ہے۔ اس میں سیکریٹری اور وزیر بھی شامل ہوتے ہیں۔یہ نظام اتنا پھیل چکا ہے اور اتنا کامیاب ہے کہ آپ کبھی اس کی بھنک تک کو نہیں پہنچیں گے۔اب رشوت لینے کے مواقع بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں بچوں کو امتحا ن پاس کروانے میں، اساتذہ کی تقریاں، اور تبادلے، سب میں مال دینا پڑتا ہے۔ 17 سکیل سے نیچے جو سرکاری نوکریاں سول سروس کے ذریعے نہیں دی جاتیں، وہ سب فروخت ہوتی ہیں۔اب سفارش سے نوکری ملنے کا رواج کافی دیر سے ختم ہو چکا ہے۔ پیسے دو، نوکری لو۔ سول سروس کے امتحان میں جو سب سے اچھے نمبر لیتا ہے، اس کی پہلی ترجیح انتظامیہ کی پوسٹ میں ہوتی ہے ، اس کے بعد پولیس، پھر کسٹمز وغیرہ۔ کیونکہ ان شعبوں میں اوپر کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے۔ سب سے آخر میں پوسٹل سروس جس میں کوئی نہیں جانا چاہتا کیونکہ وہاں اوپر کی آمدنی کے مواقع کم ہوتے ہیں۔سول سروس کے لحاظ سے غیر ملکی سفارتی عہدوں میں بھی بہت زیادہ دلچسپی نہیں دیکھی جاتی اور اس کی بھی یہی وجہ ہے۔یہ سلسلہ سال ہا سال سے جاری ہے۔سب جانتے ہیں،کہتےسنتے ہیںلیکن کو ئی آواز نہیں اٹھاتا، کیونکہ سب اسی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔جو غریب اپنی تربیت کی وجہ سے اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہتا، اس کی قسمت میں ایسی جگہ پوسٹنگ ہوتی ہیں جہاں کوئی نہیں جانا چاہتا۔با لآخر وہ غریب استعفٰی دے کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر لیتا ہے۔پاکستان کا نظام ایماندار افسروں کو برداشت نہیں کرتا۔اس لیے تقریباً ہر افسر، نیک یا بد، اس نظام میں پھنس جاتا ہے۔اور اس کے گھر والے بھی بہت جلد اس آمدنی کے خو گر ہو جاتے ہیں، بلکہ ان کی فرمائشیں بڑھ جاتی ہیں۔اور افسر کو اور محنت کرنا پڑتی ہے جس سے یہ آمدنی بڑھے۔یہ بڑی سکرین کے ٹی وی، سے بڑھ کر گاڑی اور نیا بنگلہ تک بات پہنچ جاتی ہے۔ پھر سیر سپاٹے اوربیرونی ملکوں کی سیر۔نئے نئے کپڑے، جوتیاں، زیورات، میک اپ، اور پتہ نہیں کیا کچھ، ساری فیملی کی اپنی اپنی فرمائشیں پورا کرنے میں افسر نڈھال ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ فیملی کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ باپ کو رشوت لینے سے منع کرے۔ حرام کی کمائی کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کسی نیک بخت نے اس اوپر کی آمدنی کا قومی سطح پر تخمینہ لگایا ہو۔ یہ چھ سو پچاس ارب سے کہیں زیادہ ہو گا۔ غالباً کھربوں میں۔ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تو آئی ایم ایف کو کیسے پتہ چلے کہ کرپشن کا اصل حدود اربعہ کیا ہے؟ چھ سو پچاس ارب تو وہ ہیں جن کا اتہ پتہ سرکاری لین دین کے کاغذوں سے مل گیا ہو گا؟ آئی ایم کے فرشتے بھی پوری تصویر نہیں دیکھ سکتے، لیکن جو انہوں نے دیکھا اور سنا ہے وہ بھی بہت کافی ہے۔کیا شہباز شریف حکومت آئی ایم ایف کو اس رپورٹ کا جواب دے گی؟ شاید دینا ہی پڑے گا، خانہ پُری کے لیے۔ ہماری نوکر شاہی اس کام میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ایسا جواب دیا جائے گا کہ آئی ایم ایف کو بھی مطمئن کر دیا جائے اور پرنالہ پھر بھی وہیں گرے۔جب ہمارے تھانے کے پولیس افسر کو جواب دہی کی پرچیاں ملتی ہیں سینکڑوں کے حساب سے تو وہ ہر پرچی پر لکھ دیتا ہے: نوٹ کر لیا، آئیندہ احتیاط کی جائے گی۔غالباً شہباز شریف بھی کچھ ایسا ہی جواب آئی ایم ایف بورڈ کو دیں گے، تا کہ ان کو بھی تسلی ہو جائے کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر لیا۔ یہ سب دفتری کاروائیاں ہوتی ہیں، یہ سب کرتے ہیں۔ لیکن رسمی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ چند دن بد نامی ہوتی ہے اور پھر کاروبار حسب معمول۔
رشوت تو ایسی برائی ہے جسے عوام الناس سمجھ چکے ہیں اور کافی حد تک اپنا بھی چکے ہیں۔زیادہ کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ سرکاری کام کروانے کے لیے اوپر سے بھی پیسے دینا غلط بات ہے۔اس لیے رشوت لینے والا اور دینے والا ا س حرکت پر قطعاً دکھی نہیں ہوتا۔دونوں خوش کہ کام ہو گیا۔عوام کو ان پڑھ رکھ کر اور پیسے پیسے کا محتاج بنا کر حکومتیں چین کی نیند سوتی ہیں۔عوام کو اپنے حقوق کا ادراک نہیں اس لیے جو ہو رہا ہے یہ سب ٹھیک ہی ہو رہا ہو گا؟۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک عمل وہ ہے کہ سرکاری ملازموں کے ضمیر مر چکے ہیں۔ہر سطح پر۔ یہ بھی
کرپشن کا شاخسانہ ہے۔جیسے پولیس والے عوام پر ظلم کرتے ہیں، خواتین کی بے حرمتی کرتے ہیں، بزرگوں پر تشدد کرتے ہیں۔معصوم مردوں اور عورتوں کو بے عزت کرتے ہیں، ان کو ذرہ بھر خیال نہیں آتا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ملزموں کو تھانے لے جا کر ی لیتر مارنا اور ان سے جرم اگلوا لینا، پولیس کا پرانہ طریق کار ہے۔ کیا یہ غلط ہے؟ جی ہاں ، بالکل غلط۔ لیکن ان کے افسر خوش ہیں کہ مجرم پکڑا گیا، خواہ بے چارے نے تشدد سے بچنے کے لیے غلط اقرار کر لیا ہو۔اصل مجرم کونے میں کھڑا مسکرا رہاہو؟ اب حال ہی میںہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں پر جس قسم کا تشدد پولیس نے کیا وہ نا قابل بیان اور نا قابل برداشت تھا۔ اس ،میں ماروائے عدالت قتل بھی تھے اور ظالمانہ تشدد بھی۔لیکن سیاستدان اس طرف دیکھتے بھی نہیں کیونکہ ان کے ضمیر بھی کبھی کے مر چکے ہیں۔خیر ضمیر اپنی جگہ، قانون شکنی تو بنتی ہے۔ پاکستان کے آئین نے جو عوام کو حقوق دئیے ہیں، ان حقوق کی پائمالی تو ہوتی ہے۔
26نومبر 2o24کی شام سینکڑوں بے گناہوں نہتے نوجوانوں کو اسلام آباد میں مشین گنوں سے بھون ڈالا گیا۔ پولیس کے پاس تو ایسے ہتھیار ہوتے بھی نہیں۔ یہ کام یقناً عسکر یت کا ہو گا؟ کیا اب ہماری فوج ہمارے ہی پیسوں پر ہمارے ہی بندوں کو ہلاک کرے گی؟ یہ غداری نہیں تو کیا ہے؟ تحریک انصاف کا رکن ہونا ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کسی مطلق العنان حکمران کے دور حکومت میں بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان تو اپنے آپ کواسلامی جمہوریہ کہتا ہے، اسلام تو خیر مذہبی ٹھیکیداروں کے حوالے ہو چکا ہوا ہے، رہ گئی جمہوریت تو اس کی الف بے کا نہیں پتہ۔کیونکہ غیروں کے کہنے پر اپنوں نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جما عت کو زیر عتاب رکھا ہوا ہے۔یہ ملک سے غداری نہیں ہے تو کیا ہے؟
راقم ہمیشہ سے سوچتا آیا ہے کہ پاکستان کی فوج، نظم و نسق کے ادارے، پولیس اور سول سروس ہر غلط کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ غیر قانونی ہے یا غیر آئینی ہے۔محض اس لیے کہ بڑے افسر کا حکم ہے۔کیا ان کے تربیتی کورس میں ان کو نہیں بتایا گیا کہ غیر قانونی اور غیر آئینی حکم نہیں ماننا چاہیے؟یا ان کو بتایا گیا کہ افسر کا ہر حکم ماننا ہے خواہ قانونی ہو یا غیر قانونی؟ابھی زیادہ دیر کی بات نہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ایک عالمی عدالت لگائی گئی، نیورمبرگ میں۔ وہاں ان فوجی افسروں سے سوال کیے گئے جنہوں نے یہودیوں کا قتل عا م کیا تھا، کہ تم کو جب معلوم تھاکہ کسی قیدی کو قتل کرنا غیر قانونی ہے تو تم نے کیوں کیا؟ تو کیا جواب ملا۔ جی مجھے حکم ہی یہ ملا تھا۔ عدالت نے ان افسروں کو موت کی سزا سنا دی۔کچھ اس قسم کے عدالتی مقدمات اور جگہوں پر بھی ہوئے۔ لیکن دلچسپ یا افسوسناک بات یہ ہے کہ جن یہودیوں کے قتل کرنے پر نیورمبرگ میں جرمنوں کو سزائے موت ملی، وہی یہودی دو سال سے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور انکو نیورمبرگ کی عدالت کا حکم بھول چکا ہے۔ عالمی عدالت نے تو فیصلہ دے دیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، نیتن یاہو امریکن صدر کی سر پرستی میں نسل کشی کیے جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ یہی حال ہے۔ فوجی اور پولیس والے نہتے پاکستانیوں کی جان لے رہے ہیں اور بے دریغ لے رہے ہیں کیونکہ انہیں اوپر سے احکام آئے ہیں۔ ایسے احکام اکثر زبانی ہوتے ہیں۔ ماتحتوںکو چاہیئے کہ جب ایسے احکام ملیں تو وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے افسروں سے کہیں کہ حکم تحریری ہونا چاہیے تا کہ کل کلاں اگر سوال ہو تو وہ دکھا سکیں۔پاکستان میں اے آئی کے مطابق، ایسا کوئی مخصوص قانون موجود نہیں جو صاف لفظوں میں یہ کہے کہ ’’سرکاری ملازمین غیر قانونی حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔‘‘ لیکن انیتا تراب کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سب پر لاگو ہوتا ہے۔ ’’سرکاری ملازمین کسی بھی غیر قانونی حکم کے پابندنہیں ہیں۔ سرکاری ملازمین کی پہلی اور بنیادی وفاداری آئین اور قانون کے ساتھ ہے، نہ کہ کسی افسر یا وزیر کے ساتھ۔اگر کوئی سینئر یا سیاسی شخصیت غیر قانونی حکم دے، تو ملازم پر لازم ہے کہ تحریری طور پر فائل میںاپنا اختلافی نوٹ لکھے۔اگر ملازم غیر قانونی حکم کو بغیر اعتراض کے مان لے تو وہ اس کے نتائج کا خود ذمہ وار ہو سکتا ہے۔ یہ اصول آئین کی ان دفعات پر مبنی ہے: سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابندی اور ریاستی اداروں کا قانونی نظم۔آرٹیکل 189 اور 190۔ اور عدالت کی توہین اور عدالتی اختیارات۔ آرٹیکل 204
آئین کے مطابق، ریاستی ملازم کا فرض ہے کہ وہ قانو ن کی پیروی کرے، چاہے افسر یا وزیر کچھ بھی حکم دے۔ ان کے علاوہ، تعزیری اور محکمانہ قوانین بھی ہیں۔’’اگر کوئی سرکاری ملازم جان بوجھ کر قانون کی خلاف ورزی کرے اور نقصان پہنچائے تو ا سکے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔یہ دفعہ غیر قانونی حکم ماننے والے ملازم پر بھی لاگو ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ قانون کے بجائے غلط حکم کی پیروی کر رہا ہے۔یہ سیکشن ہے: پی پی سی سیکشن 166۔
عملی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی احکامات نہ ماننے والے ملازمین کو تبادلوں، انتقامی کاروائی یا سیاسی دبائو کا سامنا ہو سکتا ہے۔اس لیے سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ملازم فائل میں اعتراض نوٹ کر کے اپنے آپ کو محفوظ کرے۔ اگر کسی ملازم کو سزا یانقْصان پہنچے تو وہ عدالت میں جا کر اپنے حق کا دفاع کر سکتا ہے۔اب سوال اٹھتا ہے کہ جب سرکاری ملازمین بڑے عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں تو ان کو حلف اٹھانا پڑتا ہے، یہ بھی آئین کے آرٹیکل 244، تیسری جدول کی بنیاد پر، وہ ہے: فوجی افسران (آرمی جنرل وغیرہ)کا حلف :
’’ میں۔۔۔۔۔۔۔۔، دل کی گہرائیوں سے حلف اٹھاتا۔اٹھاتی ہوں کہ میں پاکستان کے ساتھ سچی ایمانداری اور وفاداری رکھوں گا۔گی، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حفاظت کروں گا۔ کرونگی،جو عوام کی مرضی کی مظہر ہے۔اوریہ کہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں گا۔ہونگی، اور یہ کہ میں دینتداری اور وفاداری سے پاکستان کی خدمت کروں گا۔کرونگی ، ضرورت کے مطابق اور قانون کے تحت، پاک آرمی، یا نیوی یا ایر فورس میں۔خدائے بزرگ وار (اللہ) میری رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
تیسری جدول ، ججز کے لیے: ’’میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، حلف اٹھاتا۔اٹھاتی ہوں کہ بطور چیف جسٹس (یا جج) میں اپنی ذمہ واریاں ایمانداری کے ساتھ ادا کروں گا۔کرونگی، اپنی پوری صلاحیت، علم اور فیصلہ کرنے کی قوت کے ساتھ؛ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسداری کروں گا۔ کرونگی؛ یہ کہ میں آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بر قرار رکھوں گا۔رکھوںگی، اس کی حفاظت کروں گا۔ کرونگی؛ اور ہر حال میں، قانون کے مطابق،لوگوں کے ساتھ انصاف کروں گا
کر ونگی، بغیر کسی خوف، طرفداری، محبت یا بد خواہی کے۔ خدائے بزرگ وار (اللہ) میری مدد اور رہنمائی فرمائے ۔ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button