ہفتہ وار کالمز

رنگ برنگی باتیں!

ہمارے اس بےشعور معاشرے میں دیکھا اور سنا گیا ہے کہ جو شخص ہر بات اپنی اہلیہ صاحبہ کی مقدم جانے تو بلا چون چرا اُسے زن مرید کے خطاب کے ساتھ کئی غیر اخلاقی القابات سے نواز دیا جاتا ہے راوی نے بھی زندگی کے کئی مواقعوں پر خاوند کو بیوی کے حق میں کئی حقوق سے دستبردار ہوتے دیکھا مگر کوئی طعنہ اُن کے لئے دل میں جگہ نہ بنا سکا اس لئے اُن کا گھریلو ماحول ازدواجی زندگی بڑے شاندار انداز سے رواں رہی کسی مسئلے کو لے کر تبصرے پر تبصرے کرنا صحافتی ہی نہیں معاشرتی روایت ہے جس سے گلو خلاصی کرنا آگاہی سے لاغرض ہونا ہے گھریلو معاملات تک بچوں کی نگہداشت اُن کی تعلیم و تربیت تک بیوی کا با اختیار ہونا ،فیصلے کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر ملکی اُمور میں خاوند کو اپنے پلو میں باندھ کر فیصلے کرنا خاوند کی نااہلی کی مثال بنتا ہے بات یہاں عورت یا مرد کے اختیارات کی نہیں ہوتی بلکہ جو مرد یا عورت فرماں روا ہوتے ہیں وہ حکومتی اہلکاروں کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے اپنے خارجہ اُمور کو مد مقابل رکھتے ہوئے بجٹ کے اندر رہتے ہوئے اقدامات کرتے ہیں کوئی بیوی یا کوئی شوہر حکمران ہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے سے مشورہ نہیں لیتے اُنھیں حکومتی مشینری میں وہ سارے ہنر مند دست بستہ دستیاب ہوتے ہیں جنھیں اپنے کاموں پر عبور حاصل ہوتا ہے پھر ان موجودہ میسر سہولیات کی وجہ سے غیر متعلقہ شخصیات سے رابطے کی ضرورت کسی صورت نہیں رہتی اب ججز کا آئین میںکی جانے والی حالیہ ترامیم پرحزب ِ مخالف کی طرح معترض ہوناغیر ضروری اور جانبداری ہے ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ججز نے ایوان کے بنائے ہوئے قوانین کو سامنے رکھ کرخلق ِ خدا کو سستا اور فوری انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے معزز جج صاحبان کے یہ استعفے ایوان کے کاموں میں بیجا مداخلت اور حکومت کو اُلجھانے کے سوا کچھ نہیںحکومت وقت کسی کو بھی جج کے منصب پر فائز کرنے کا اختیار رکھتی ہے کئی سینئر وکلاء و قانونی ماہرین منصف بننے کی حسرت میں اپنے دروازے بند نہیں رکھتے ۔کسی بھی جج کے مستعفی ہونے کا استحقاق اپنی جگہ مگر اپوزیشن کی طرح ججز کے روٹھنے میں جانبداری ،خود پسندی کی ہوا چلتی محسوس ہوتی ہے پھر ججز کا ترامیم کے حوالے سے مستعفی ہونا یوں ہے جیسے کسی حکمران شوہر کے سرکاری کاموں میںاُس کی گھریلو زوجہ محترمہ کا مشورہ لینا بصد احترام ہمارے یہ قانون و انصاف کے علمبردار اگر آئین میں درج انسانی حقوق کی ترجمان شقوں کو عملی طور پر نافذ کرنے میں اپنے حکم صادر فرماتے تو آج قوم ان صداقت و خلوص کے پیامبروں کے ساتھ کھڑی ہوتی عوام کی سب سے بڑی شکایت اس عدالتی نظام سے یہ ہے کہ کیسوں میں مسلسل تاخیری حربوں سے کسی بھی کیس کا فیصلہ آنے تک 15سے20سال لگ جاتے ہیں کیسوں کی تعداد زیادہ ہونے اور ججز کی تعداد میں کمی بھی ایک المیہ ہے جس میں سدھار کی ضرورت ناگزیر ہے ساتھ اس کے حکومت کو چائیے کہ وہ عدالتی نظام جدت پسندی کے ساتھ کسی کیس کے منطقی انجام تک پہنچنے کے لئے ایک مخصوص مدت کا تعین کرے کیونکہ انصاف کی ان غلام گردشوں میں دادا کسی مشکل کے حل لئے کیس کرتا ہے تو اس کی تاریخوں میں پوتا بھی حاضری لگا رہا ہوتا ہے مگر فیصلہ نہیں ہوتایوں آئے دن کی چپقلشوں سے کیسوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسا انصاف ہے جو نسلوں کو فنا تو کرتا ہے مگر حق و انصاف سے فیصلہ کرنے میں حد سے زیادہ تاخیر کر دیتا ہے پہلے تو اس عدالتی رویے پر کسی کو اعتراض کرنے کی اجازت ہی نہیں اور اگر کوئی دل برداشتہ ہو کر احتجاج کرے تو توہین عدالت کا پھندا اُس بے اختیار ،لاچار انسان کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے ایوان کو ایسی ترامیم لانی چائیے جو عدالتی نظام میں تصیح لائے اور مختلف اُمور کے کیسوں کو مخصوص مدت تک پایہ تکمیل پہنچانے کے لئے عدالتوں کو پابند کرے اور ہاں عدالت کو تابع ہونے کی بجائے اُسے آئین میں موجود وہ آئینی شقیں جو عوام کی بہتری لئے عمل کے لئے بیتاب ہیں اُن کو لاگو کروائے جیسے روٹی کپڑا مکان ،بیروزگاری الاوئنس کا اجراء ء و انسانی حقوق سے منسلک شقوں کا عملی نفاذ محترم جج صاحبان ان عوامی نمائندوں سے کروادیں تو عوام انصاف کی ساری آنکھ مچولیاں یکسر بھلا کر رنگ برنگی باتوں میں احتیاط برتے گی لیکن میرے وطن ِ عزیز میں جہاں سیاسی انتہا پسندی اس عروج پر براجمان ہے کہ ایک منصف مستعفی ہونے کے بعد اپوزیشن سے باقاعدہ ملاقاتوں میں اپنی ہمدردیاں جتا رہا ہے اُن کے درو بام سے باہر جھانکتی کچھ رنگ برنگی باتوں کا تاثر عجیب سا ہے جو سابقہ حکومت کے طرز عمل سے جدا نہیں ہیں یاد رہے کہ حکومتیں جادو سے،تعویزوں سے اور تمام عمر کے قرضوں سے کسی کی آشیر باد سے نہیں چلتیںسودی نظام ہو یا جادو ٹونے کے قبیح کام اس سے خیر کی توقع نہیں ہوتی بہترین ریاست کی تشکیل کے لئے اہلیت خلوص سچائی والی شخصیات خلفائے راشدین کی مانند درکار ہوتی ہیں جن کا عمل و کردار اپنی ریاست میں انصاف کو جلا بخشتے ہوئے اُس کے مثبت اثرات سے خلق ِ خدا کو مستفید کرنا ہوتا ہے طرح طرح کے نظام ِ سلطنت کی بجائے اور رنگ برنگی باتوں میں پڑنے کی بجائے ہمیں اسلامی نظام ِ حکومت پر توجہ دیتے ہوئے اسے وطن ِ عزیز میں لاگو کرنا ہو گا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button