0

آثار

گزشتہ ہفتے CHEST PAIN تھا ہم سمجھے کوئی پرانا زخم چھل گیا ہوگا کسی بھولی بسری محبت کا یا کسی یاد نے کروٹ لی ہو گی، بس اسی کیفیت میں کالم لکھا اور ای میل کر دیا، CHEST PAIN نے راتوں کو جگایا تو ڈاکٹر سے رجوع کیا، اس نے فوراً اسپتال روانہ کر دیا، شفیق ڈاکٹروں نے بتایا دل کا عارضہ ہے RHYTHM ٹھیک نہیں دل کے اوپر نیچے کے حصوں میں بھی ان بن ہے کہنے لگے کہ انجیو گرافی کریں گے ، مسیحا حسین ہوں طرح دار ہوں تو ان کی بات مان لینی چاہیے سو بات مان لی ہم نے مشتاق یوسفی کو پڑھا ہے انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر کپڑے بھی اترواتے ہیں اور فیس بھی لیتے ہیں، عجیب بات یہ تھی کہ انجیو گرافی کے لئے ہاتھ کی نبض ARTERY کا انتخاب کیا مگر کپڑے پورے اتروائے، انجیو گرافی کے بعد بتایا کہ BLOCKAGE بہت معمولی تھا، اس انکشاف پر بہت شرم آئی سوچا کہ ساری عمر درد سہنے پر بھی دل کی کوئی ARTERY پوری طرح بلاک نہیں ہوئی، سارے غم درد آسانی سے خون میں گھل گئے دل میں اٹکے نہیں،اہلیہ نے کہا آرام کر لیجیے ، ہمیں انجم خلیل کا خیال آیا کہ ان کا فون آئیگا کالم نہیں ملا سوچا معذرت کر لونگا مگر انجیو گرافی کے بعد معمولات زندگی میں کوئی فرق تو پڑا نہیں تھا تو معذرت کا کوئی محل نہیں تھا تھکن ضرور تھی مگر خبروں نے تعاقب کیا، کل دہشت گردوں نے ہمارے سات جوان مار دیئے تھے جن میں دو افسران بھی تھے ، دل تڑپ گیا، کوئی جنگ ہو تو صبر آجاتا ہے مگر دہشت گرد جب چاہیں جب ان کی مرضی ہو وہ سکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہوں خون بہائیں اور اپنے غاروں میں جا بیٹھیں ، ملال کیوں نہیں ہوتا ملال ہوتا ہے آج آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کے مطابق فورسز نے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے میرے خیال میں یہ بہت ہلکا پھلکا رسپانس تھا بہت محتاط رسپانس ایک میسج دینا تھا کہ اب کے رسپانس بڑا بھی ہو سکتا ہے، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ TIP کی سر پرستی افغانی حکومت کے کچھ اہل کار کر رہے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم افغانی عوام کا بہت احترام کرتے ہیں، ٹھیک ہے مگر افغانی STATE OF MIND کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب نام نہاد افغان جہاد شروع ہوا کہ 70 لاکھ افغانی پاکستان میں چلے آئے کہا گیا کہ یہ ہمارے دینی بھائی ہیں، جنرلز نے ان کو پاکستان بلا تو لیا مگر یہ نہیں سوچا کہ ان کی واپسی کیسے ہو گی، افغانستان ہزاروں سالوں سے ایسا ہی ہے جیسا اب ہے،داؤد کے زمانے کی کچھ تصاویر دکھا کر کچھ لوگ ثابت کر دینگے کہ کابل بہت ترقی یافتہ تھا، لڑکیاں اسکول جاتی تھیں مگر یہ لڑکیاں پشتون نہیں تھیں سفارت کاروں کی بیٹیاں تھیں جن کے لئے جدید اسکولوں کا انتظام کیا گیا تھا، بہر حال یہ بات تو ضمنی طور پر آگئی ،افغانیوں کے لئے پاکستان کسی جنت سے کم نہ تھا، یہ افغانی سارے پاکستان میں پھیل گئے مزدوری کی ، کاروبار کیا، ٹرک چلائے منشیات کی اسمگلنگ کی اسلحہ بیچا، ایم کیو ایم نے افغانیوں اور پختونوں سے پیسے لے کر آدھا کراچی ان کے نام کر دیا، پنجاب نے شمالی پنجاب میں ان کو پناہ دی، یہ افغانی گجرات تک آگئے، نادرا کے اہل کاروں نے چند سکوں کے عوض ان افغانیوں کو شناختی کارڈ جاری کر دئے ان افغان مہاجرین کو پاکستانی پاسپورٹ بھی مل گئے، مگر یہ افغانی ہی رہے، ان کے روابط ان دہشت گرد تنظیموں سے رہے جو پاکستان میں دہشت گردی کرتی رہی ہیں، جبزلز نہ جانے کس نشے میں تھے ان کو افغانستان میں STRATEGIC DEPTH نظر آتی رہی، نشہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ یہ سمجھتے رہے کہ ان پڑھ پختون ان کے اشارے پر کشمیر میں گھس جائینگے بھارت میں گھس جائینگے ، مگر حالات اس تیزی سے بدلے کہ اب یہ افغانی جو مختلف دہشت گرد تنظیموں سے رابطے میں ہیں پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں، پختونوں اور افغانیوں کو عمران سے بہت محبت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ عمران پاکستان پر پختوں حکومت قائم کر سکتا ہے افغانیوں کے لئے ہر طرح کی سہولیات دے سکتا ہے، اسی لئے عمران کے دورِ حکومت میں جب TTP سے مذاکرات ہوئے تھے تو ان دہشت گردوں نے اٹک تک کے علاقے کی مانگ رکھی کہ وہ اس علاقے میں امارت اسلامیہ قائم کرینگے ، عمران کی مہربانیاں اس قدر بڑھیں کہ TTP کو دوبارہ سوات میں بسانے کی کوشش کی گئی جس پر اہل سوات نے شدید احتجاج کیا تھا، اگر ضرب عضب اور رد الفساد آپریشن نہ ہوتے تو پاکستان کی سالمیت کو شدید مسائل لاحق ہوتے، جو علاقے کلیئر کرا لئے گئے تھے اب انہی علاقوں سے سیکورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں گزشتہ حملہ میر پور کے علاقے میں ہوا جو کبھی ان کا گڑھ تھا عمران نے کہا تھا کہ مجھے نکالا گیا تو میں بہت خطرناک ہو جاؤنگا، اور وہ خطرناک ہو گیا، ہم نے کئی بار لکھا کہ ایک نادیدہ طاقتوں کا ایجنڈا ہے جسے عمران کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان میں آئین و قانون کی جتنی خلاف ورزی عمران نے کی ہے کسی نے نہیں علماء صرف نظر کریں کسی بھی مصلحت کا شکار ہوں مگر عمران متعدد بار BLASPHEMY کے بھی مر تکب ہوئے ہیں، عدالتی حکم عدولی تو چھوٹی بات ہے انہوں نے فوج اور عدلیہ کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے مگر انتظامیہ اس تمام قانون شکنی کے باوجود عمران پر ہاتھ نہیں ڈال رہی وہ آج بھی جیل سے پارٹی چلاتے ہیں، صحافیوں سے ملتے ہیں ان کی ہدایت پر IMF کو خط بھی لکھے جاتے ہیں وہ امریکہ میں ہونے والے مظاہرے سے اظہار لا تعلقی نہیں کرتے ، کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ عمران پر اگر ہاتھ ڈالا گیا تو ملک کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہونگے یہ بات میرے علم میں ہے کہ کرنل (ر) افتخار نقوی امریکہ میں سوشل میڈیا کو موثر بنانے کے لئے KEYBOARD WARRIORS کرتے رہے، لندن میں یہ کام میجر (ر) عادل راجہ اور حیدر مہدی کرتے ہیں اور یہ کہا جاتا رہا کہ پی ٹی آئی سابق فوجیوں کی جماعت ہے اسلام آباد میں سابق جنرلز کی پریس کانفرنس کس کو یاد نہیں، اور یہ کس کو پتہ نہیں کہ عمران کے جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، اور جنرل فیض حمید سے کس نوعیت کے روابط رہے ہیں، سوشل میڈیا نے جی بھر کر جنرل باجوہ اور عدلیہ کی ٹرولنگ کی ان کو غدار کہا، گالیاں دیں مگر میڈیا پر رؤف حسن پی ٹی آئی کو ایک امن پسند جماعت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہے بھی کہتے ہیں کہ IMF حکومت سے آڈٹ بھی کرائے گا، الیکشن کے بعد جو حکومت آئی ہے وہ بہت کمزور ہے شہباز شائد اچھے ADMINISTRATOR ثابت نہ ہوں ، پی ٹی آئی مستقل سڑکوں پر رہے گی، اس کا مطلب ہے کہ معیشت نہیں چلے گی تو معاشی مشکلات بڑھیں گی اور سب سے بڑا چیلنج تو معاشی بدحالی ہی ہے عمران کو فوج لے کر آئی فوج نے ہی چلایا، وہ باجوہ کے ساتھ ایک پیج پر رہے مگر اپنی ساری ناکامیاں جنرل باجوہ کے سر ڈال دیں، اس سے کس کو انکار ہے کہ پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر بہت کامیاب ٹرینڈ چلائے مگر کامیاب ٹرینڈ چلانے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سچ ہے وہ ٹرینڈ ٹرولنگ کے سوا کچھ نہ تھا اور اب فوج سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمیں واپس لاؤ، عمران کی پشت پر افغانی، پختون، ٹی ٹی پی اور داعش بھی ہے اور یہ غالباً حکومت اور فوج کے لئے پریشانی کا باعث ہے وزیرستان میں بھی دہشت گردوں کی پاکٹس ہیں اور پختوں آبادی بھی دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے اور دہشت گردی میں ان کی سہولت کار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں