0

پاکستان کا افغانستان کے اندر جوابی حملہ، صورت حال بہت کشیدہ ہو سکتی ہے!

16مارچ ہفتہ کو میر علی شمالی وزیرستان ٹی ٹی پی نے افغانستان سے بھرپور حملہ کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل کاشف، کیپٹن احمد بدر سمیت 7 سپاہیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ تحریک طالبان پاکستان میں مختلف گروپس شامل ہیں۔ یہ حملہ حافظ گل بہادر گروپ نے کیا اور باقاعدہ طور پر اس گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ افغانستان سے اس طرح کے حملے کافی دنوں سے جاری ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ مستقل طور پر نئی افغان حکومت سے احتجاج کرتی رہی ہے لیکن زبانی جمع خرچ کے علاوہ افغان حکومت نے کبھی ٹی ٹی پی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ پچھلے دنوں ایک اعلیٰ سطحی افغانی وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور ہر طرح کا اطمینان دلایا کہ کسی بھی دہشت گردپ گروپ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا چھوٹے بڑے حملے جاری ہی رہے۔ ایک پاکستانی وفد کابل گیا اور ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی وہ اپنے ملک سے ان حملوں کی اجازت نہ دیں لیکن یا تو افغان حکومت کا ان گروپس پر کوئی کنٹرول نہیں یا پھر جان بوجھ کر وہ پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں۔
آخر کار پاکستان نے شاید پہلی بار اس دہشت گردی کی کارروائی پر جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی فضائیہ کے طیاروں نے صوبہ پکیتا میں کمانڈر عبداللہ شاہ کے گھر کو نشانہ بنایا جس نے اپنے گھر میں ہیومن شیلڈ کے طور پر عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے اس حملے میں 7 سے زیادہ لوگ جہنم رسید ہوئے۔ سارے طیارے بحفاظت پاکستان واپس پہنچ گئے۔ افغان حکومت نے ایک پریس ریلیز چند گھنٹوں کے بعد دنیا کے سامنے پیش کی جس میں اس حملے کو قبول کیا گیا ساتھ ساتھ پاکستان کو یاد بھی دلایا گیا ہم نے کئی غیر ملکی طاقتوں کو شکست دی ہے اور سالوں جنگ لڑی ہے۔ ہم کسی بھی طاقت سے لڑ سکتے ہیں ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ اس ملک کی سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ان کی سرزمین پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوتی ہے ہمیشہ نزلہ پاکستان پر ہی گرتا ہے۔ بھارت سے ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ بھارت نے پھر وہاں انویسٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت افغانستان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک پاکستان سمیت ان کو قبول نہیں کرتا ہے۔ چین نے اپنا ایک سفیر تو کابل بھیجا ہے لیکن وہ اس کو قبول نہیں کرتے ہیں بحیثیت ایک آزاد اور خودمختار ملک کے۔ یہ پاکستان کی مہربانی تھی کہ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھایا اور دنیا سے اپیل کی کہ آزاد افغانستان کو تسلیم کیا جائے لیکن دنیا نے اس پر ریسپانس نہیں دیا۔ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوتے ہی پاکستان نے عمران خان کی حکومت میں اسلام آبادمیں اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کااجلاس طلب کیا اور وہاں پر افغان نمائندوں کو بھی دعوت دی تاکہ وہ دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکیں اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے دنیا کے بہت سے ملکوں نے افغانستان میں بحالی کے کاموں میں دل کھول کر امداد کی جو ابھی تک جاری ہے لیکن افغان حکومت کی احسان فراموشی وہ ان احسانات کو جلد ہی بھول جاتی ہے لاکھوں افغانستان شہری ابھی بھی پاکستان میں موجود ہیں جو اکثر کرائم میں ملوث ہیں لیکن پاکستان کی حکومت بہتر پڑوسی اور مسلمان ہونے کے ناطے ان کو برداشت کررہی ہے اور ان کی دیکھ بھال کررہی ہے۔
اب آگے کیا کیا ہو سکتا ہے یہ بہت اہم سوال ہے۔ پاکستان نے پہلے ایران کو جواب دیا اور اب افغانستان کو جواب دیا کہ صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ پاکستان کوئی کمزور ملک نہیں ہے فوجی لحاظ سے یہ ایک فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر طاقت بھی ہے۔ یہ دنیا کی پانچویں ایٹم بم رکھنے والی قوت ہے۔ کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ فوج یہاں ہمیشہ سیاسی قوتوں پر حاوی رہی ہے اور شائد آئندہ بھی سیاسی حکومتوں پر بھاری رہے گی۔ عاصم منیر کی سربراہی میں دوسری کارروائی کسی دوسرے ملک کے اندر گھس کر کی گئی ہے۔ بھارت سمیت اس خطے کے سارے ملکوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں اس سے پہلے دو مرتبہ بھارت پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کا دعویٰ کر چکا ہے لیکن اپنا ایک جہاز گروا کر اپنے پائلٹ ابھی نندن کو بھی گرفتار کروا چکا ہے۔ ان سب کے باوجود بھی پاکستانی فوج اور حکومت کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو لاکھوں افغانی پاکستان میں موجود ہیں۔ وہ افغان حکومت کے کہنے پر بدمعاشی کرسکتے ہیں۔ دوسرے پاکستان کا میلوں لمبا باڈر افغانستان سے ملتا ہے۔ تیسرے پاکستان افغانوں سے جنگ کر کے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس سے بہتر ہے مذاکرات سے مسئلے کو حل کیا جائے۔ دوسرے وہ ایک مسلمان برادر ملک ہے، تیسرے پٹھان خاندان سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔ اس لئے دونوں حکومت کو ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے جوش سے نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں