0

رمضان میں مہنگائی کیوں ؟

ہماری اسلامی ریاست میں گزشتہ کئی دھائیوں سے جمہوری و آمرانہ ادوار ِ حکومت میں روز مرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ رمضان المبارک کا تعارف بنا ہوا ہے حالانکہ ہمارے ملک پاکستان میں حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ خاصا ہے مساجد میں پانچوں وقت اذان کی روح پرور آوازیں،رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت کے اجتماع ہونے کے بعد بھی ہمارے ملک میں اخلاقی ،قومی جرائم کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے یعنی ہم اپنی ضرورتوں کو اس قدر بڑھا چکے ہیں کہ جب تک کسی کو لُوٹیں نہیں اپنے گھریلو اخراجات کا ہدف پورا ہی نہیں ہوتا تاجر برادری میں ایک جملہ اپنے گاہگوں سے اشیاء کی قیمتوں کی تکرار پر اکثر سنا گیا ہے کہ کیا کریں ہم بھی تو اپنے بچوں کے لئے ایک سیر آٹا ہی کمانے کے لئے بازار میںصبح سے بیٹھے ہیں تاجروں کی اس دنیا میں مذہبی رحجان رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں زکوۃ، خیرات صدقات ادا کرنے والا مخصوص طبقہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہے مگر رمضان المبارک میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روزمرہ اشیاء صرف کومہنگائی کے بے لگام گھوڑے پر ڈال دیا گیا ہے جسے روکنے کوشش نہ کبھی کی گئی اور نہ کسی نے کی جو اس مخصوص اشرافیہ کی حوصلہ افزائی کا سبب بنا ہوا ہے دیر آید درست آید کے مصداق پشاور ہائی کورٹ نے خود ساختہ مہنگائی کے خلاف رٹ پر متعلقہ حکام سے 3روز میں رپورٹ طلب کر لی ان حکام میں چیف سیکرٹری ،سیکرٹری خوراک اور چیئرمیں ہلال فوڈ اتھارٹی شامل ہیں جنہیں جامع رپورٹ پیش کرنے کا پابند دورکنی بنچ نے سماعت کے دوران بنایا ہے درخواست گزار عباس خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ملک کی معاشی صورت ِ حال جوعرصہ دراز سے ابتری کا شکار ہے اسے ماہ ِ رمضان جیسے بابرکت مہینے میں مزید ابتر مخصوص اشرافیہ نے کردیا ہے جس کی دلیل دودھ ،گوشت،پھل ،سبزیاں وغیرہ کی قیمتیں ہیں جو سرکاری نرخ ناموں کے برعکس ہیں صرف دودھ کی مثال ہی لے لیں کہ سرکاری نرخ کے مطابق گائے کے دودھ کی فی کلو قیمت ،130 روپے اور بھینس کے دودھ کی فی کلو قیمت 160روپے ہے مگر عوام کو سرکاری قیمتوں پر دینے کی بجائے انھیں 220روپے میں مہیا کیا جارہا ہے دیگر روزمرہ اشیاء کو بھی اسی طرح ناجائز منافع خوری کا ہتھیار بنا کر عوامی بے بسی کو بڑھایا جا رہا ہے گیس کی قیمتوں کا ایک سال کے عرصے میں 223فی صد تک بڑھنا اور اسی مشکلات کے سفر میں ماہ جولائی میں بجلی کی قیمتوں کا مزید بڑھنے کا عندیہ عوام کا معاشی قتل عام ہے ان کا سدباب کرنا عوامی نہیں حکومتی ذمہ داری ہے جنھیں عوام نے مسند نشین ہی اسی لئے کیا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے غربت کے خاتمے میں اپنا کردار احسن طریقے سے نبھائیں گے اب جو حکومت پرائس کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آئے اور خود ساختہ مہنگائی کرنے والاٹولہ آزادانہ دندناتا پھرے ایسے کردار کبھی بھی مہنگائی کا خاتمہ نہیں کر سکیں گے جس سے غربت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ریاست کو عدم استحکامی کے خدشات میں اضافہ یقینی ہو سکتا ہے موجودہ صورت حال کے اثرات دیکھتے ہوئے ارسطو کی بات ذہن میں آتی ہے کہ غربت تمام جرائم اور انقلابات کی ماں ہے کہ آئی ایم ایف قرضے دے کر ہماری غربت کا خاتمہ نہیں کر رہا بلکہ ہمیں غریب ملکو ں کی فہرست میں اللہ نہ کرے اول نمبر پر دیکھنا چاہتے ہیں نہ جانے معاشی ماہرین کب نیند سے جاگ کر ملکی وسائل سے مستفید ہونے کی پالیسی کو نافذالعمل کریں گے معیشت پر دسترس تو میری نہیں مگر یہ یقین ِ کامل ہے کہ جب تک ہم آئی ایم ایف کے سودی قرضوں سے باہر نہیں آئیں گے ہماری خوشحالی کا سورج نہیں ابھر سکتا سوشل میڈیا جسے میں ناقابل ِ یقین سمجھتا ہوں مگرجس مزاحیہ طریقے سے ہمارے معاشرے کی عکاسی لفظوں کی تسبیح میں کی گئی ہے ناقابل ِ فراموش ہے اس تحریر میں رمضان المبارک کے چاند نظر آنے کے بعد ابلیس کی پاکستان بھر کے کی تمام تاجر تنظیموں کے نمائندوں سے ایک آن لائن کانفرنس کے مندرجات ہیں جس میں بتایا گیا کہ ابلیس نے اپنی غیر موجودگی پر تاجروں کی سابقہ خدمات کو خراج ِ تحسین پیش کیا اور حالیہ رمضان میں ان کو مزید ہدایات دیں ۔ابلیس نے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ ان تاجروں کا شکر گزار ہوں خصوصی طور پر الحاج تاجروں کاکہ جنہوں نے رمضان کے مہینے میں بھی میرے مشن کو شب و روز جاری رکھا لیکن ایک بات پر ان سے ناراضگی ہے کہ یہ لوگ میری تعلیم و تبلیغ پر عمل پیرا ہو کر اپنے مسلمان بھائیوں کا خون چوس کر کڑوروں روپے اکٹھے کرتے ہیں پھر ان ہی پیسوں سے عمرہ کرتے ہیں حج پہ جاتے ہیں اور وہاں آکر مجھے ہی کنکریاں مارتے ہیں حالانکہ کنکریاں کھانا ان کا حق ہے ۔اس مزاح کے ایک معاشرتی آئینے میں سب مافیاز کی شکلیں اور پس پردہ ابلیس کی کاروائیاں عدل و قانون کی نگاہوں کے سامنے جاری ہیں اسی لئے حکومتی نمائندے بھی اس سوال پر منہ پھیر لیتے ہیں کہ رمضان میں مہنگائی کیوں ؟ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں