معاشی دیوانگی!

حکومتی دعوں پر ہی اگر اکتفا کر لیا جائے تو بُری خبریں شاید اپنا وجود ہی کھو دیں جیسے کوئی عام شہری اپنی خالی جیب لئے بہتر معیشت کے دعوے کرتا پھرے تو ایسی معاشی دیوانگی کی مثال آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گی بالکل اسی طرز پر حکومتی دعوئوںکی اونچی اُڑان ملک کے طول و عرض میں اپنے ہاتھ پیر پھیلائے عوامی سماعتوں یہ بات پہنچانے کی کوششوں میں مگن ہے کہ موجودہ حکومت کی بہترین معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو ڈیفالٹ ہونے بچا لیا گیا ہے اور اس معاشی تذکرے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کہ پاکستان دنیا میں ایک سفارتی طاقت بن چکا ہے جس کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا پاکستان اس وقت دنیا کا فوکس ہے اور اسے ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس یہ دلائل لئے ہوئے ہیں کہ معیشت و تجارت کا توازن برقرار نہیں ہو رہا ہے جو ایک اچھے تاثر کی نشاندہی نہیں کرتا ہماری معاشی بدحالی کو دیکھتے ہوئے ایک درجن سے زائد غیر ملکی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس چلی گئیں ہیں مگر حکومت مسلسل اصرار کرتی جارہی ہے کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی لائن میں پورے قد سے کھڑے ہیں اور کامیابیاں قدم چوم رہی ہیں عوام اپنے مسائل میں ڈوبی اپنے معاشی فکرات میں غرق ہے اُسے کسی بات کا ہوش ہی نہیں وہ تو روزمرہ کے ضروری اخراجات میں پھنسی اپنی سانسیں بحال رکھنے کے غم میں ہے اگر حکومت کو عوام کی اس حالت ِ زار کا نہیں پتہ یا وہ معیشت کے بنیادی مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے تو اپوزیشن کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بانی کی رہائی کے بجائے پارلیمنٹ میں سوال اُٹھائیں کہ یہ کیسی معاشی ترقی ہے کہ معروف انٹر نیشنل کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کرکیوں واپس چلی گئیں ہیں حزب ِ اختلاف کو اس معاشی تنزلی پر سوال اُٹھانے کی اور حکومت سے دلائل کے ساتھ جواب لینے کی اشد ضرورت ہے مگر شومئی قسمت کہ ہمیں کبھی حکومت تو کبھی حزب ِ اختلاف نے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا نان ایشوز کو ایشو بنا کر اُس پر گھنٹوں بحث کرنا پارلیمان کی روایات میں شامل ہو چکا ہے بلکہ یہ باقاعدہ رسم کی صورت اختیار کئے سیاسی مذہب کا حصہ بن چکی ہے آپ دیکھ لیں کہ حزب ِ اختلاف نے جتنا اپنے بانی کی رہائی کے لئے پارلیمنٹ میں بحث کی ہے شاید ہی کسی اور اہم مسئلوں پر بات کی ہو ؟ عوامی پارلیمان میں جب عوام کے مسائل کو جھٹک کر دیگر غیر ضروری مسائل پر وقت برباد کیا جا رہا ہو تو خلق ِ خدا کا خاموش رہنا اب سمجھ سے بالا نہیں ہوتا بلکہ یقین ہونے لگتا ہے کہ بےشعوری اپنے پنچے اس خواندہ معاشرے میں گاڑ چکی ہے لہٰذا حکومت جس سیاسی جماعت کی بھی ہو وہ اپنی نااہلیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے معاشی و سفارتی ترقیوں کا شوشہ چھوڑسکتی ہے کیونکہ عوامی سطح پر ایسے معاشرے میں کسی بات کا تجزیہ نہیں کیا جاتا یہی وجہ ہے کہ سیاست میں جھوٹ وافر مقدار میں ملتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی قائد زیادہ جھوٹ روانی سے بولے وہ بہتر سیاست دان سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سچائی ہمارے ماحول میں نہیں پنپ رہی ہے ہماری سماعتیں بلند بانگ دعوے سننے کی عادی ہو چکی ہیںصحیح اور غلط کا میزان ہر شہری کے اپنے ہاتھ میں ہے جسے وہ اپنے مفادات کے حوالے سے دیکھتا ہے ہر فرد اپنی گھریلو معیشت کا ذمہ دار ضرور ہے مگرجامع منصوبہ ساز کوئی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم حقائق جانے بغیر ہی تالیاں بجانے اور سڑکوں پر دھمال ڈالنے کے عادی ہو چکے ہیں حیرت یہ ہے کہ ہم قرض دار قوم ہوتے ہوئے روتے نہیں ،نہ واویلا کرتے ہیں بلکہ کئی کئی دن سڑکوں پر ناچنا فرض سمجھتے ہیں دل ماتم کناں ہوتا ہے جب ان لوگوں سے وابستہ کوئی دانشور ان حرکات کو جمہوری طرز ِ عمل سے تشبیہ دیتا ہے بیشعوری اور دیوانگی کا اکٹھ جس معاشرے میں پوری سُرعت سے پھیل رہا ہو تووہاں معاشی دیوانگی کی مذکورہ باتیں حکمران اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے پھیلا تے رہتے ہیں اُنھیں انہونی باتوں کاجو وجود نہیں رکھتیں کرتے ہوئے شاید تسکین ملتی ہے کہ چلو تھوڑی مدت کے لئے ہی سہی عوام کو اعتماد میں تو لے لیا ہے یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ جماعت ِ اسلامی ایسی دروغ گوئی سے ،بلند بانگ دعووں سے اجتناب برتتی ہے باقی ساری جماعتیں جھوٹ ،الزام تراشی بہتان میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے میں لگی رہتی ہیںمعاشی صورت کو اگر کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو ہمارے خزانے پر قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے کم نہیں ہوا ۔ہم پرانے قرضوں کی ادائیگی بہتر رکھنے کے لئے نئے قرضے لیتے ہیں جسے معاشی دیوانگی کہا جا سکتا ہے مگر یہ طرز ِ عمل کسی صورت معیشت کی بہتری کی نوید نہیں ہے ۔