غزہ۔۔۔ڈیل یا فریم ورک

دو برس پہلے سات اکتوبر کے دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے ایک ایسی خوفناک جنگ کا آغاز کیا تھا جو آ ج بھی جاری ہے اور جس کے اختتام کے آثار ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے چھ اکتوبر کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے مابین بالواسطہ مذاکرات قطراور مصر کی ثالثی میں شروع ہوئے۔ ان مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ منگل کو صدر ٹرمپ کے داماد جیئر ڈ کشنر جنہوں نے اسرائیل اور چند مسلم ممالک کے مابین ابراہام معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ان مذاکرات میں شرکت کے لیے مصر پہنچ گئے۔ انکے ہمراہ صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے مشرق وسطیٰ سٹیو وٹکوف بھی تھے۔ صدر ٹرمپ نے پیر 29 ستمبر کو وائٹ ہائوس میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجا من نتن یاہو کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں جس ڈیل کے خدو خال پیش کئے تھے وہ بھی کشنر اور وٹکوف کی سوچ بچار کا نتیجہ تھی۔ ان دونوں نے کئی دنوں کے غورو خوض کے بعد 28 ستمبر کو نیویارک کے Loews Regency ہوٹل میں اسرائیل کے وزیر اعظم اور انکی ٹیم کے ساتھ ایک طویل میٹنگ میں اس ڈیل کو حتمی شکل دی تھی۔ چار اکتوبر کے نیو یارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق نتن یاہو کسی صورت اپنے مطالبات میں لچک پیدا کرنے کے تیار نہ تھے ۔ اس لیے جیئرڈ کشنر کو کئی مرتبہ صدر ٹرمپ کو فون کرکے مشورہ کرنا پڑا۔ نتن یاہو چاہتے تھے کہ اس ڈیل میںفلسطین کے دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہ ہو‘ فلسطینی اتھارٹی کے غزہ کے معاملات میں شمولیت کی بھی کوئی بات نہ ہو اورغزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاکا فیصلہ بھی اسرائیل کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ امریکی مذاکرات کاروں کو مشکل یہ درپیش تھی کہ 23ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد صدر ٹرمپ نے مسلمان ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ایک ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک دستاویز تیار کی تھی۔ اس تحریر میں دیگر شرائط کے علاوہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا ذکر بھی تھا۔ صدر ٹرمپ اس دستاویز کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکتے تھے اس لیے انہیں نتن یاہو پر دبائو ڈالنا پڑ اکہ وہ اس ڈیل سے فلسطینی ریاست کے ذکر کو ہذف نہ کریں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی بات منوا تو لی مگر فلسطینی ریاست کا ذکر جس ملفوف اور مشروط انداز میں کیا گیا ہے وہ خاصہ توجہ طلب ہے۔ اس ڈیل کے انیسویں نکتے میں لکھا ہے’’ جب غزہ کی تعمیر نو ہو رہی ہو گی اور فسلطینی اتھارٹی اصلاحات کے عمل سے گذر رہی ہو گی تو امید کی جاتی ہے کہ حالات بالآخر ایسا رخ اختیار کریں گے کہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت پر پیش رفت ہو سکے گی۔‘‘ فلسطینی اتھارٹی کو ان اصلاحات کے لیے کتنا عرصہ دیا جائے گا اور اگر یہ اصلاحات بنجا من نتن یاہو کو پسند نہ آئیں تو پھر کیا ہو گا۔ مسلم ممالک کے سربراہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا تھاکہ اسرائیل مغربی کنارے پر مزید کالونیاں نہ بنانے کی یقین دہانی بھی کرائے۔ اس مطالبے کا صدر ٹرمپ کی ڈیل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کے پیش کردہ بیس نکات میں کہیں بھی کسی ٹائم فریم‘ کسی ڈیڈ لائن ‘ کسی ضامن اور ڈیل کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی جرمانے یا تادیبی کاروائی کا کوئی ذکر نہیں۔ اسرائیلی افواج غزہ میں کب اور کس مقام تک واپس جائیں گی ان تفصیلات سے بھی اس ڈیل کو کوئی غرض و غایت نہیں ہے۔ صدر امریکہ نے جیئرڈ کشنر‘ سٹیو وٹکوف اور نتن یاہو کی تیار کردہ اس ڈیل کو متعارف کراتے ہوئے وائٹ ہائوس کی انتیس ستمبر کی پریس کانفرنس میں کہا ” It is looking like we have a deal.”یہ ڈیل اس اعتبار سے انوکھی اور نرالی ہے کہ اس میں فریق ثانی کہیں نظر نہیں آرہا۔ اسکی تیاری کے دوران کشنر اور وکٹوف نے حماس کی نمائندگی کرتے ہوئے نتن یاہو سے مذاکرات کئے۔تین نامور یہودیوں کی تیار کردہ اس ڈیل میں فلسطینیوں کے لیے اگر خیر کی کوئی خبر ہے تو یہی کہ حماس اگر بیس زندہ اور اٹھائیس مردہ یرغمالیوں کو رہا کر دے تو اسکے بدلے جنگ بندی بھی ہو جا ئے گی اور 1950 فلسطینی قیدیوںکو بھی رہاکر دیا جا ئے گا۔ دو برسوں کی اس ہولناک جنگ میں اڑسٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں اور دو ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ تھکے ہارے بے خانماں لوگ اب کسی ایسی رات کو ترس رہے ہیں جب آسمان آگ نہ اگلے۔ انہیں کسی ایسے دن کی تلاش ہے جب انہیں دو وقت کی روٹی مل جائے۔ وہ آسمان پر لپکتے ہوے طیاروں اور زمین پر جھپٹتے ہوے ٹینکوں سے نجات چاہتے ہیں۔ زندگی اور موت کی اس کشمکش میں وہ حق خود ارادیت اور دو ریاستی حل کے تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتے۔
دو برسوں کی اس جنگ میں فلسطینیوں نے اگر ایک بھاری قیمت ادا کی ہے تو اسرائیل پر بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے نتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہوئے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی اسرائیل دو سال تک ایک گوریلا تنظیم سے اپنے یرغمالی رہا نہ کرا سکا۔ اسرائیلی ہزاروں کی تعداد میں آئے روز سڑکوں پر نتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ اسرائیل پہلے سے کہیں زیادہ منقسم اور تنہا ہو چکا ہے۔دنیا بھر میں Anti semitism عروج پر ہے۔ اسرائیلیوں کے لیے کسی دوسرے ملک جانا ایک مہم جوئی کے مترادف ہے۔ اس ڈیل کے نتیجے میںجنگ بندی تو شائد ہو جائے مگر غزہ میں اسرائیلی فوج موجود رہے گی۔ حماس اگر اسکی خلاف ورزی کرے گی تو اس پر آتش و آہن برسانے کے لیے اسرائیل کی فوج غزہ میں موجود ہو گی مگر اسرائیل کے ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہ ہوگا۔ کسی ضامن اور ٹائم ٹیبل کے بغیر بنی ہوئی ڈیل کو فریم ورک تو کہا جاسکتاہے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔