ہفتہ وار کالمز

غزہ پر معاہدہ جیسا بھی ہے، قبول کر لینا چاہیے

امریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ ، بالآخر غزہ میں جنگ بندی کروانے کے پہلے مرحلہ میں داخل ہو گئے۔ ایک معاہدہ ترتیب دیا گیا ہے جس کے21نکات ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان کے وزیر اعظم اور کمانڈر ان چیف کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے فوراً اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ ٹرمپ انکی تائید سے بہت خوش ہوئے اور جگہ جگہ ان کی مثال پیش کرتے رہے۔ اس سے قطع نظر کہ جسے اُردو میں کہاوت ہے، خواجہ کا گواہ ، ڈڈو، یہاں تو ڈڈو بھی نہیں، ایک جعلی وزیر اعظم اور دوسرا سرکاری ملازم۔ جن کے پاس پاکستانی عوام کا اعتمادہی نہیں۔ان کی حمایت کیا معنی رکھتی ہے؟ لیکن ان کی جو بھی حیثیت ہے ٹرمپ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
راقم نے اپنی تحقیق کی اور دیکھا کہ وہ 21 نقاط ہیں کیا؟آپ بھی دیکھیں:
21نقاط ،اسرائیلی اخبار کے حوالہ سے اقتسابات:
1۔ غزہ کوانتہا پسندوںسے خالی علاقہ بنایا جائے گا جن سے ان کے ہمسایوں کو خطرہ ہو۔
2۔ غزہ کو دوبارہ سے تعمیر کیا جائے گا اس کے اہالیان کے لیے۔
3۔ اگر حماس اور اسرائیل اس اعلامیہ کو تسلیم کر لیں تو جنگ فوری طور پربند ہو جائے گی ، اسرائیلی فوج اپنے تمام اقدامات روک دے گی اور بتدریج غزہ سے نکل جائے گی۔
4۔ اسرائیل کے عوامی سطح پر اس معاہدے کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعدتمام زندہ یا مردہ قیدیوں کو رہا کر دیا جاے گا۔
5۔ جنگی یرغمالیوں کی رہائی کے بعداسرائیل سینکڑوں فلسطینیوں کو جو عمر قید کاٹ رہے ہیں، اور 1000سے زیادہ غزہ کے شہریوں کو اور سینکڑوں لاشوں کو رہا کر دے گا۔
6۔ قیدیوں کی ر ہائی کے بعد، ان حماس کے اراکین کو جو پر امن رہائش پر یقین رکھتے ہیں، ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔اور جو غزہ سے نکلنا چاہیں گے انہیں باہر جانے کی اجازت دی جائے گی۔
7۔معاہدہ کی قبولیت کے بعد بیرونی امداد کو غزہ میں آنے کی اجازت دے دی جائے گی،600 ٹرک روزآنہ کی بنیاد پر، بمعہ بحا لیات کے سامان اورضروری مشینری کے ساتھ۔
8۔ امداد بغیر کسی طرف کی مداخلت کے، بذریعہ یو این اور اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے تقسیم کی جائے گی۔
۹۔ غزہ میں فلسطینی افسروں پر مشتمل ایک عبوری حکومت بنائی جائے گی ، جو یومیہ خدمات دینے کے ذمہ وار ہوں گے۔اس کمیٹی کے اوپر امریکہ کی سر براہی میں ایک نگران بین الاقوامی ادارہ بنایا جائے گا وہ اس وقت تک رہے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاح کا کام ختم نہیں کر لیتی۔فلسطینیوں کی خواہش ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کو ایک حکومت کے تحت کر دیا جائے۔
10۔ غزہ کی بحالی کے لیے اسے ایسے ماہرین کی نگرانی میں بنایا جائے گا جنہیں جدید عمارت سازی کا تجربہ ہے۔
11۔ ایک اقتصادی علاقہ بنایا جائے گا، جس میں کم ٹیرف ہوں گے۔
12۔ کسی کو بھی غزہ سے زبردسی نہیں نکالا جائے گا۔ اور جو خود باہر جانا چاہیں گے انہیں واپس آنے دیا جائے گا۔غزہ کے لوگوں کو غزہ میں رہنے کا کہا جائے گا۔
13۔ حماس کا غزہ میں کوئی کردار نہیں ہو گا۔غزہ میں کسی قسم کا فوجی ساز و سامان ہیں ہو گا اور نہ خندقیں کھودی جائیں گی۔
14۔علاقائی شراکت داروں سے اس بات کی گارنٹی دی جائے گی کہ آئندہ کبھی بھی حماس اور ان کے دوسرے شریک گروہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔
14۔ امریکہ عربوں اور دوسرے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ملکر ایک عارضی بین الاقوامی قوت کی فوج قائم کرے گی جو فوراً غزہ میں بھیجی جائے گی تا کہ اس پٹی میں امن قائم ہو سکے۔اس قوت کا پہلا کام ہو گا غزہ میں پولیس کا قیام جو لمبے عرصے کے لیے قیام امن لا سکے۔
16۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کو اپنا حصہ بنائے گا، اور اسرائیلی فوج غزہ کو اس کے باسیوں کو دے دی جائےگی،جیسا کے ان کے بدلے میں بین الاقوامی دستے امن بحال کر لیں گے۔
17۔ اگر حماس ان نکات کو رد کر دے تو ان جگہوں پر جو حماس سے خالی کروا لی گئی ہیں، ان نکات پر عمل ہو گا۔وہاں سے اسرائیلی فوج بین الاقوامی محافظوں کے حوالے کرتی جائے گی۔
18۔اسرائیل وعدہ کرتا ہے کہ وہ قطر پر دوبارہ حملہ نہیںکرے گا۔اس لیے کہ دوہا مذاکرات کے لیے ایک منتخب مقام ہے۔
19۔ غزہ کی آبادی کو غیر محارب بنانے کا عمل کیا جائے گا۔اس کے لیے بین المذاہب گفت و شنید کی جائے گی۔
20۔ جب غزا کی بحالیات کافی حد تک ہو جائے گی اور اصلاحات ہو جائیں گی تو فلسطینی ریاست کے قیام ممکن ہو سکے گا۔(ان شرائط کی تفصیل نہیں دی گئی ہے) ۔
21۔ امریکہ ، فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے عمل کو سیاسی بنیادوں پرکھڑا کرے گا جس پر باہمی امن قائم ہو سکے۔
غزہ میں جو حالات ہیں، ان کے مطابق ہر گذرتا لمحہ سوائے بھوک، افلاس اور موت کے اور کچھ نہیں دکھا رہا۔اسرائیل کا شیطان لعین ان پر روزآنہ بمباری کرواتا ہے جس میں پچاس ، ساٹھ یا اس سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔اور اکثر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خوراک کی لائینوں میں بھوک مٹانے کا ایندھن لینے آئے ہوتے ہیں۔یہ شیطان جرمنی کے ہٹلر کو میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے، اپنی سفاکیت کی وجہ سے۔چنگیز اور ہلاکو بھی فوجوں کے ساتھ لڑتے تھے اور نہتے شہریوں سے نہیں۔جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس شیطان لعین کا نام سفاک ترین ظالموںکے طور پر لیا جائے گا۔یہودی قوم کو شرمندہ کروانے والا۔
اب ٹرمپ کو شاید نوبل پیس پرائز کا لالچ ہے یا کوئی اور وجہ ، کہ وہ اس معاملہ کو نپٹانا چاہتا ہے۔یا یہ وجہ ہے کہ سمجھدار لوگ امریکہ کو غزہ کی سفاکیت کا ذمہ وارٹھہرا رہے ہیں اور امریکہ کے پا س اس کا جواب نہیں بن پارہا۔ خیر جو بھی وجہ ہے، اس سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہیے۔ اس ہولناک منظر کا ڈراپ سین ہونا چاہیے۔ان 21نکات کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ جوں ہی حماس نے ان کو مان لیا تو جنگ بندی ہو جائے گی۔اگر حماس ان نکات کو قبول کر لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس اپنی شناخت ختم کر دے گا۔ اور دوبارہ اس نام سے پہچانا نہیں جائے گا۔اگر یہ قیمت بہت زیادہ ہے تو کیا فلسطینیوں کی جان اس سے زیادہ قیمتی نہیں؟ اول تو حماس کے پاس نہ ایسا اسلحہ ہے نہ گولہ بارود کہ وہ شیطان لعین سے لڑ سکے۔تو وہ کس برتے پر اس جھوٹے ،سچے معاہدے کو دھتکار سکتا ہے؟اگر عزت نفس کا مسئلہ ہے تو اس کا وقت گزر چکا ہے۔ اب کسی بھی بہانے مزید شہریوں کو ہلاک ہونے سے بچانا ہی مقصد اعلیٰ ہونا چاہیے۔
راقم کی رائے میں شیطان لعین تو اس انتظار میں ہے کہ حماس اس معاہدہ کو نا منظور کرے تا کہ اسے کھلی چھٹی ملے قتل و غارت برپا کرنے کی۔کیونکہ امریکہ بہادر بھی پھر اس کو نہیں روک سکے گا۔اگر فلسطینیوں کو اس معاہدہ میں جھول نظر آتے ہیں تو بھی۔ کم از کم شیطان لعین کو یہ موقع ہر گز نہیں دینا چاہیئے کہ وہ حماس پر سارا الزام ڈال کر پھر اور تیزی کے ساتھ بمباری شروع کر دے، ظلم و ستم کی آخری حدیں چھو لے۔
فرض کریںکہ حماس اس معاہدہ کو تسلیم کر لیتا ہے لیکن شیطان لعین پھر اپنی سفاکیت پر اتر آتا ہے، تو حماس بھی جنگ شروع کر سکتا ہے کہ اس کے پاس جواز ہو گا اور دنیا کی ہمدردیاں بھی۔
جہاں تک فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا سوال ہے، وہ شیطان لعین اقوام متحدہ میں کہہ چکا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس معاہدے میں گنجائش رکھی گئی ہے۔
آخری خبریں آنے سے پتہ چلتا ہے کہ حماس نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے، اس معاہدہ کو قبول کر لیا ہے۔ اس نے چند تحفظات کا ذکر کیا ہے جو دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے حماس کی قبولیت کو منظور کر لیا ہے اور اعزائیل سے کہا ہے کہ فوراً جنگ بند کر دی جائے۔ اگر یہ سب سچ ہے اور جنگ بندی ہو رہی ہے تو یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہو گا جس پر ٹرمپ واقعی نوبل پرائز کا حقدار بن جائے گا۔
لیکن جیسے کہ انگریزی کی کہاوت ہے کہ There can be many slips, between the cup and the lips یعنی کہ اس وقت بھی بہت کچھ غلط ہو سکتا ہے، یہ تو پارٹیوںپر منحصر ہے۔ اور اعزرائیل جیسی پارٹی سے خیر کی توقع رکھنا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ بحر حال ، ٹرمپ نے حماس کو خبردار کیا تھا کہ اس معاہدے کو اگر نہ مانا تو فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں۔اعزرائیل کے پاس ایسے ایسے ہتھیار ہیں کہ وہ اذیتیں دیکر ہزاروں، لاکھوں فلسطینیوں کو ہلاک کر سکتا ہے۔ اس لیے حماس کو احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اعزرائیل کو موقع نہیں دینا چاہیئے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے۔
اگر جنگ واقعی بند ہو جاتی ہے تو دنیا بھی سکھ کا سانس لے گی۔ شیطان لعین نے اپنے ملک کے لیے جو بدنامی کمائی ہے وہ رہتی دنیا کو دیر تک یاد رہے گی۔ اور رہنی بھی چاہیئے۔
پاکستان نے معاہدے کی حمایت کر کے، اگرچہ غالباً ان جوکروں نے اسے پڑھے بغیر آمنا و صدقنا کہ دیا تھا، انجانے میں صحیح کام کر دیا۔ اس سارے معاملے میں، کچھ اسلامی ملکوں نے حصہ لیا۔ اب خدا کرے کہ یہ معاہدہ غزہ کو مزید مصیبتوں سے بچا سکے۔
اسلامی ممالک نے فلسطینیوں کے لیے کوئی خاطر خواہ حرکت نہیں کی۔ یہ شیطان کی بڑی کامیابی ہے۔ او آئی سی کو تو ڈوب مرنا چاہیئے۔یہ مردہ ضمیروں کی آماجگاہ بن چکی ہے۔اس کا مسلمانوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہے نہ کبھی تھا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button