کرکٹ

زندگی تہذیب سے عبارت ہے ز ندگی سے تہذیب نکال دیجیے تو زندگی میں وحشت اور بربریت رہ جاتی ہے،تہذیب امن کا دوسرا نام ہے تہذیب جینے اور جینے دو کا فارمولہ ہے تہذیب مکالمہ بھی ہے تہذیب صبر اور تحمل لاتی ہے زندگی میں،تہذیب کا عمل دخل ساری زندگی میں ہوتا ہے،تہذیب جہل اور علم کے درمیان ایک حدِ فاصل بھی کھینچتی ہے،تہذیب تاریخ، سماج اور معاشرت کا حسن ہوتی ہے تہذیب بتاتی ہے کہ کسی خطے یا منطقے کے لوگوں نےکب سوچنا سیکھا اور سوچنے کے انداز کیسے تھے مٹی کی روایات نے کہاں کہاں اپنے نشانات چھوڑے ثقافت تہذیب کا حصہ کیسے بنی اور تہذیب نے کہاں کہاں قانون کا ہاتھ پکڑا،تاریخ میں بہت خون بہا بہت بے انصافیاں ہوئیں مذہب کی تلوار بھی چلتی رہی بلاآخر انسان کا ضمیر جاگا قلم نے کون خرابے اور کشت و خون کے خلاف آواز اٹھائی واضح طور پر قلم کا یہ کردار سولہویں صدی میں شروع ہوا شاعروں اور ادیبوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی امن کی بات کی صلح جوئی اور بھائی چارے کی بات کی گئی اس لڑائی میں فلاسفر بھی شامل ہوئے اور سترھویں اور اٹھارویں صدی میں اتنا ادب تخلیق ہوا کہ یہ صدیاں نظریات کی صدیاں کہلائیں اس دوران علم پھیلا اور وہ جو دشمن تھے ان ممالک نے بھی سوچنا شروع کیا کہ جنگ میں وسائل کیوں ضائع کئے جائیں COLONIALISM کے خلاف بھی آواز اٹھی سارتر آخری وقت تک فرانس سے الجزائر کی آزادی کے لئے لڑتا رہا اور آخر ڈیگال کو سارتر کے سامنے جھکنا پڑا سارتر کے خیالات سے اتفاق کرنا پڑا اور کہنا پڑا کہ سارتر فرانس ہے مگر اس سے نصف صدی پہلے دنیا کے سرمایہ دار منافع خوری پرلڑ پڑے اور اس کا نتیجہ دو بڑی عالمی جنگوں کی صورت میں نظر آیااور ان دو عظیم جنگوں کے نتایج سے آج بھی دنیا نہ نکل سکی مگر اس دوران ایک بہت مخلصانہ کوشش ہوئی کہ قوموں نے مختلف کھیل کھیلنا شروع کر دئے تاکہ اقوام ایک دوسرے کے قریب آجائیں جنگ عظیم دوم کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا کھیل نے قوموں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں بہت مدد کی جب اولمپکس شروع ہوئے تو یہ سلسلہ دراز ہو گیا کھلاڑیوں کا بہت سے غیر ملکی دورے کرنا غیر ملکی کھلاڑیوں سے ملنا دوست بن جانا ازدواجی تعلق میں بندھ جانا وغیرہ وغیرہ یہ انسانوں کا فطری میل ملاپ تھا مگر کچھ شاطروں نے اس عمل کو GAME DIPLOMACY کا نام دے ڈالا،یہ وہ لوگ تھے جن کا پیٹ سیاست کے بغیر بھرتا نہیں ،ان کے ہر لقمے میں سیاست کا مکر شامل ہوتا چلا گیا،حالانکہ سیاست کا کام فرد اور معاشرے کی بھلائی ہی ہے، تقسیم ہند کے بعد بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان مناسب سطح پر میل ملاپ جاری تھا بین الاقوامی مشاعرے منعقد ہوتے تھے دونوں ممالک کے ادیب اور شاعر سفر کرتے تھے کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے منقسم خاندانوں آپس میں روابط رکھتے تھے مجھے نہیں یاد کہ کسی شاعر،ادیب، یا کسی کھلاڑی نے اپنے وطن واپس جا کر دوسرے ملک کی برائی کی ہو اب بھی جب سکھ یاتری پاکستان آتے ہیں وہ ہمیشہ پاکستان کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہیں بھارتی ادیب اور شاعر جب بھی پاکستان آتے ہیں وہ بھی اچھی یادیں لے کر واپس جاتے ہیںجاوید اختر جب پاکستان آئے تو کچھ CONTROVERSY بن گئی تھی مگر اس کو بھی متانت سے سنبھال لیا گیا تھاخشونت سنگھ کی کتاب کی پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی اسد درانی نے بھی ایک بھارتی جنرل کے ساتھ مل کر ایک کتاب لکھی تھی پاکستانی باجپائی کی بہت قدر کرتے ہیں مجھے بھی ذاتی طور نہرو، واجپائی اور من موہن سنگھ بہت پسند ہیں یہ سب اعتدال پسند لوگ ہیں،لکھنؤ کے دو شیعہ عالم نقن صاحب اور کبن صاحب کو پاکستان میں بہت سنا جاتا تھا اور انہوں نے کئی نسلوں کو متاثر کیا وہ دلیل میں یکتا اور علم کا دریا تھے جہاں علم اور تہذیب موجود ہونگے وہاں تعصب نہیں ہوگا عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ ڈارون،کال مارکس،فرائیڈ اور ہیگل کے بغیر دنیا نہیں چل سکتی یہ بات بنا کسی تعصب کے تسلیم کی جاتی ہے جب ابوالکلام آزاد کا انتقال ہوا تو کسی تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ برٹرینڈ رسل ،برنارڈ شا اور نہرو کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا آدمی اس دنیا کو چھوڑ گیا بلا شبہ ابو الکلام آزاد بہت بڑے انسان اور مفکر تھے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی بنا پر ہم کہیں تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں ہمیں کسی کو بھی، کوئی بھی رائے رکھنے کا حق دینا چاہئے اور یہ بھی کہ انسانوں سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ،بمبئی حملے کے ثبوت تو نہیں مل سکے مگر نواز شریف کا یہ کہنا کہ بمبئی حملے ہم نے کرائے بہت بڑی شرمندگی تھے یہ بہت بڑی غلطی تھی مگر پلوامہ اور پہلگام سانحات کا الزام پاکستان پر لگانا بھی سنگین غلطی تھی ان الزامات کا بھارت کو ایک بار پھر جائزہ لینا چاہئے صرف اس وجہ سے کہ پڑوسی بدلے نہیں جاتے اور فوجوں پر مستقل خرچ قوم کو معاشی اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ہے جس کا متحمل نہ پاکستان ہو سکتا ہے نہ بھارت مگر یہ بات طے ہے کہ سیاست بہت سفاک چیز ہے سیاست میں نفرت شامل ہو جائے تو سیاست دان کے سامنے صرف سیاسی مفاد رہ جاتا ہے ،ایشیا کرکٹ کپ میں بھی بھارت کا رویہ یہی رہا ،ایک مختصر جنگ میں بھارت کو زک اٹھانی پڑی اس کی سزا مودی جی نے کرکٹ کو دی کنہائی ویسٹ انڈیز کا ایک مایہ ناز کھلاڑی تھا اس نے کہا تھا کہ کرکٹ کھیل کر میں نے نفرت کرنا چھوڑ دی ایشیا کپ شروع ہوا تو بھارت کھیل کے سارے خوب صورت آداب بھول گیا سیاست کھیل پر غالب آگئی نفرت نے پَر پھیلا دیئے نہ ہینڈ شیک، نہ رواداری، نہ بھارتی ٹیم کا پاکستانی ٹیم کے ساتھ فوٹو شوٹ ،نہ ٹرافی وصول کرنا،عالمی کرکٹ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا مودی جی کا ٹوئیٹ کہ آپریشن سندور کرکٹ کے ذریعہ جاری ہے کس قدر چھوٹی سوچ ہے بھارت جنگ کے میدان میں اپنی شکست کا بدلہ کرکٹ کے میدان میں لینا چاہتا ہے ، میں نے عرض کیا نا کہ سیاست جب تہذیب سے جدا ہوتی ہے تو بہت سفاک ہو جاتی ہے اور اگر اس میں مفاد شامل ہو جائے تو سیاست بہت HORRIBLE ہو جاتی ہے یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ بھارت کے سیاست دان اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ مودی جی بہار کا الیکشن جیتنے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دینا چاہتے ہیںمگر یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ بہار کے چناؤ کا کسی بھی طرح کا تعلق کرکٹ سے ہے اور یہ سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے کہ بہار کا الیکشن جیتنے کے لئے آپ کرکٹ کو برباد کیسے کر سکتے ہیں۔
کرکٹ جیسے شائستہ کھیل کو نفرت کی آگ میں جھونک سکتے ہیں کھیل کی روایات کے چہرے پر تیزاب کیسے پھینک سکتے ہیں مودی جی اگر یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو ماننا ہوگا کہ مودی جی کا علم اور تہذیب سے دور کا واسطہ نہیں،اور وہ سیاست دان جو مودی جی کے ساتھ ننگے ناچ میں شریک ہیں ان کو بھی مہذب کس زبان سے کہا جائے،میرا تعلق قلم قبیلے سےہے اور میرا قبیلہ محبت اور دلیل کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا،میری نظر میں بہت سے بھارتی سیاست دانوں کا بہت احترام ہے گاندھی جی بڑے رہنما تھے،نہرو کا احترام غیر جانبدار تحریک کے رہنما کے طور پر بھی ہے،من موہن کو دنیا بہترین معیشت دان کے طور پر تسلیم کرتا ہوں یہ میری قلمی تربیت کا حصہ ہے کہ بہترین ذہنوں کو مانا جائے اور ان سے سیکھا جائے مگر مودی جی کو اگر میں الاؤنس دینا بھی چاہوں تو کہیں سے گنجائش نکلتی نہیں ہے کوؤں کا فاختہ کے گھونسلوں میں داخل ہونا اور ان کے انڈے توڑ دینا افسوسناک ہے کھلاڑی معصوم لوگ ہوتے ہیں یہ اکثر غریب اور متوسط گھرانوں کے چشم و چراغ ہوتے ہیں ان بچوں میں نمایاں ہونے کا PASSION ہوتا ہے گلی کوچوں میں کھیل کر یہ اپنے ہنر کو نکھارتے ہیں یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے،ان کو کوچنگ بھی میسر نہیں ہوتی یہ modest class سے تعلق رکھتے ہیں اگر قومی سطح پر کھیلنے کا موقع مل جائے تو یہ انکی بڑی خوش نصیبی ہوتی ہے ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن قومی ٹیم میں آنے کے بعد یہ کھلاڑی وہی کہتے ہیں اور کرتے ہیں جو ادارے کے منتظمین کہتے ہیں کبھی کبھی ان کو حکومت کی ہدایات بھی ملتی ہیں جس کے وہ پابند ہوتے ہیں یاد رہے کہ میں بھارت اور پاکستان کی بات کر رہا ہوں ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم نے وہی کچھ کیا اور کہا جس کی ہدایات دی گئیں تھی اگر کوئی ان ہدایات پر عمل نہ کرتا تو اس کا کیریئر تباہ ہو جاتا سو بھارتی ٹیم کو الزام نہ دیا جائے مودی جی نے نفرت کا زہر ان معصوم کھلاڑیوں کے ذہنوں میں گھولا بہر حال یہ وقت گزر جائے گا امید کرتا ہوں کہ بھارتی بورڈ کو کبھی کبھی اپنی غلطی کا احساس ضرور ہوگا ،اچھائی کی امید رکھنی چاہیے نفرت کی سیاست تا دیر پنپ نہیں سکتی کرکٹ نفاست کا کھیل ہے اور اس کھیل میں نفاست واپس آنی چاہئے ICC میں بھارت کی بات سنی جاتی ہے مگر اچھے پیشہ ور کھاڑی انصاف کی بات بھی کر جاتے ہیں ۔