ہفتہ وار کالمز

پرانے شکاری نیا جال!

پاکستان میں ہر طرف ہاہاکار ہے۔ فسطائی ٹولہ یوں بغلیں بجارہا ہے جیسے اس نے پاکستان کو دنیاکا سب سے اہم ملک بنادیا ہو۔فسطائی ٹولہ کی دیکھا دیکھی کٹھ پتلی حکومت کے اہلکار بھی یوں اکڑے پھر رہے ہیں جیسے انکی فراستِ ناپیدا کنار نے پاکستان کو اقوامِ عالم کے سر کا تاج بنادیا ہو۔ اور رہا یزیدی ٹولہ کے تابع فرمان پاکستان کا غلام نیوز میڈیا تو وہ عاصم منیراور کٹھ پتلی شہباز شریف کی بصیرت کے وہ گن گا رہا ہے کہ جیسے انہوں نے پاکستان کو وہ شہرت عطا کی ہو جو اس سے پہلے کسی بشر کیلئے ممکن نہیں تھی! اور یہ ساری ہاہاکار اس دفاعی سمجھوتہ کی ہے جس پر 17 ستمبر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور پاکستان کے برائے نام وزیر اعظم شہباز شریف نے دستخط کئے تھے! ہم نے اپنے گذشتہ ہفتہ کے کالم، جو 14 ستمبر کو تحریر کیا گیا تھا، کا اختتام اس پر کیا تھا کہ اس سے اگلے روز، یعنی 15 ستمبر کو قطر کے صدر مقام دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہونے والا تھا۔ ہم نے اس کالم میں ہی اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ اس سربراہی اجلاس میں تقاریر تو بڑی دھواں دھار ہونگی اور ایک سے بڑھ کر ایک سخت بیانات کے بڑے بڑے پتھر مارے جائینگے لیکن اصل نتیجہ وہی نکلے گا یعنی ڈھاک کے تین پات! اور من و عن یہی ہوا بھی۔ بڑی تند و تیز تقاریر ہوئیں۔ اسرائیل کی صیہونی جارحیت پر جی بھر کے لعن طعن ہوئی اور اسرائیل کو لعنت ملامت کی گئی لیکن بس! اس کے آگے جہاں عملی تدابیر کا مرحلہ آیا تو وہی ٹائیں ٹائیں فش پر معاملہ ختم ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا!
سربراہی اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں فلسطین اور غزہ کے مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کے رسمی کلمات کے بعد صیہونی ریاست کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے یہ اسلامی ریاستوں اور ان کے سربراہوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جو چاہیں فیصلے کریں۔ اجتماعی سطح پر ستاون (57) اسلامی ریاستوں نے اپنی جانی مانی کمزوری دکھادی کہ وہ بس باتوں کے شیر ہیں، کاغذی گھوڑے دوڑانے میں بہت طاق ہیں لیکن عمل کے میدان میں مہا پیدل ہیں! استاد قمر جلالوی کا یہ شعر ہمیں اس بے عملی کے بے شرمی کے مظاہرے پر یاد آگیا۔ استاد نے کیا خوب کہا تھا:
؎میری نمازِ جنازہ پڑھائی اوروں نے
مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے!
اور اس احقر نے سربراہی اجلاس کی بے بسی کو یوں چار مصرعوں میں باندھا:
جمع ہوئے تھے بڑے طمطراق سے شاہاں
امید یہ تھی کھڑے ہونگے ڈٹ کے سب ہمہ تن
مگر پہاڑجو کھودا تو نکلا بس چوہا
خطاب تھے تو دھواں دھار ماحصل گفتن!
لیکن دوحہ کی پھس پھسی کانفرنس کے دو دن بعد ریاض میں محمد بن سلمان اورشہباز شریف نے اپنے دو ممالک کے درمیان دفاعی اتحاد کے معاہدے کا اعلان کرکے بڑا دھماکہ کردیا جس کی باز گشت دنیا میں نہ سہی آجتک پاکستان میں تو سنائی دے رہی ہے! لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس دوطرفہ معاہدہ کی پہیلی کا حل تلاش کریں اور اس کے مضمرات سے پردہ اٹھائیں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کے خود ساختہ مرد آہن جن کی ہر شان ہی خود ساختہ ہے، وہ بزعمِ خود ہی فیلڈ مارشل ہوگئے، بزعمِ خود ہی حافظ بھی ہیں اور جو شان ان کی سب سے نرالی ہے ، یعنی وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان کی بری فوج کے سالار بنے، اب نام کیا بتانا ضروری ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر، وہ بھی ریاض میں کٹھ پتلی شہباز کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور کیوں نہ کھڑے ہوتے کہ پاکستان کو تو موصوف اپنی آبائی جاگیر گردانتے ہیں اور اس کے کُل سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں!
عاصم منیر ان دنوں سائے کی طرح ہر جگہ شہباز کے ساتھ رہتا ہے، بلکہ شہباز سے پیش پیش رہتا ہے۔ ہمیں تو یہ شبہ ہوگیا تھا کہ کہیں موصوف اسلامی سربراہی اجلاس میں بھی شہباز کی جگہ خود کو بٹھالیں لیکن کچھ سمجھدار لوگوں نے یہ عقل سجھائی ہوگی کہ عالی جاہ، یہ ہوا تو پاکستان کی بڑی سبکی ہوگی، بہت بدنامی ہوگی۔ غنیمت ہے کہ عاصم منیر کی محدود عقل میں یہ بات سماگئی کہ وردی پہن کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنا بہت رسوائی کی بات ہوگی۔ لاکھ ان یزیدیوں کی عقل پر پردے پڑے ہوں لیکن اتنی موٹی بات تو بہرحال سمجھ میں آہی گئی! سعودی-پاکستانی دفاعی معاہدہ کی سب سے قابلِ ذکر شق یہ ہے کہ ایک فریق پر حملہ یا ایک فریق کے خلاف جارحیت دوسرے فریق پر بھی حملہ یا جارحیت تصور کی جائے گی! اب بقراط بیچ میں اس مسئلہ کے موشگافیاں کر رہے ہیں اور اسی اڈھیر بن میں مبتلا ہیں کہ اس سمجھوتہ کا زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ سعودی عرب اور پاکستان کا سب سے بڑا مشترکہ دشمن تو ظاہر ہے کہ اسرائیل کے علاوہ اور کوئی نہیں اور اس کی شیطانیت کی بابت دونوں فریقوں کو کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ جب اسرائیل قطر پر حملہ کرسکتا ہے، جس کی سرزمین پر امریکہ کا بہت بڑا ہوائی اڈہ ہے تو وہ سعودی عرب پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔ پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے اسے البتہ سوچنا پڑے گا اور تمام دفاعی
ماہرین اور تجزیہ نگار متفق ہیں کہ پاکستان پر اسرائیلی حملہ صرف اور صرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے تعاون کے بغیر ناممکن ہوگا! سعودی عرب کے پاس تیل ہے، بہت تیل ہے، اور دولت کی بھی ریل پیل ہے۔ پاکستان اس کے مقابلہ میں بہت نادار ہے اور یزیدیوں اور ان کے کٹھ پتلی چیلوں کی ہوسِ زر اور لوٹ مار نے اسے اور بھی کنگال کردیا ہے۔ لیکن پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج ہے، پورا ملک ہی فوج کا ہے اور پاکستان اسلامی دنیا کا واحد جوہری ہتھیاروں والا دیس ہے،تو ظاہر ہے کہ سعودی عرب کو اس معاہدہ سے یہ یقین ہوجائے گا کہ اگر اس کے خلاف جارحیت ہوئی، اگر صیہونی اسرائیل نے اس کو نشانہ بنانے کی حماقت کی تو پاکستان کی دفاعی قوت
اسرائیلی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے!
لیکن اگر پاکستان پر بھارت، یا اسرائیل نے حملہ کیا تو سعودی عرب کے پاس تو وہ عسکری صلاحیت نہیں کہ وہ پاکستان کی مدد کو آسکے۔ تو اس صورت میں سعودی مدد کی کیا کیفیت ہوگی، کیا روپ ہوگا، کیا ہیئت ہوگی؟ یہیں اس بھید سے پردہ اٹھتا ہے کہ اس معاہدہ کی اصل حقیقت کیا ہے؟! یہ تو طے ہے، بلکہ نوشتوں میں لکھ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو ہرگز ہرگز یہ توقع نہیں ہے کہ کسی مشکل وقت میں سعودی اس کے دفاع میں اس کا ہاتھ بٹاسکیں گے لیکن پاکستان پر قابض یزیدی اور فسطائی جرنیلوں کو یہ یقین ہے کہ سعودی دولت ان کیلئے حاضر ہوگی اور یہی ان کیلئے سب سے بڑی مدد ہوگی! پاکستان اور سعودی عرب کا یہ کوئی پہلا دفاعی معاہدہ نہیں ہے بلکہ ایسے سمجھوتوں کی بنیاد 1967ء میں فیلڈ مارشل ایوب کے عہدِ اقتدار میں پڑی تھی۔ اس کے بعد جب 1979ء میں انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے ایک گروہ نے حرمِ کعبہ پر حملہ کرکے اسے یرغمال بنالیا تھا تو ان دہشت گردوں سے حرم کو صاف کروانے والی کاروائیوں میں پاکستان کی فوج کے کمانڈوز بھی شریک تھے۔ اس سانحہ کے بعد ہی سعودی فرمانرواؤں نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ ان کی حفاظت کیلئے پاکستان بند و بست کرے جس کے جواب میں پاکستان کے دو بریگیڈ، جن میں کم از کم بیس ہزار فوجی شامل تھے، برسوں سعودی عرب میں تعینات رہے تھے۔
تو ٹیپ کا بند یہ ہے کہ پاکستان کے جرنیلوں کی آنکھیں سعودی دولت کی چمک سے آج کی نہیں بلکہ برسوں کی چکا چوند چلی آرہی ہیں۔ اب اسرائیل نے امریکہ کے ایک قریبی عرب حلیف ملک پر حملہ کرکے عرب حکمرانوں کو دہلادیا ہے اور ان کے خوف نے پاکستان کے عسکری طالع آزماؤں کو ایک اور سنہرا موقع فراہم کردیا ہے کہ دولت کی ریل پیل پھر سے ان کے شریکِ حال ہوجائے اور وہ خوب ہی مال بٹورنے کا وسیلہ حاصل کرلیں! وہ جو کہاوت ہے ناں کہ خدا دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کے بھی دے دیتا ہے تو وہ پاکستانی جرنیلوں پر اس پیش رفت کے ضمن میں سو فیصد کھری بیٹھتی ہے۔ مال و منال کی فکر پاکستان کے فسطائی جرنیلوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ان کے منہ کو ایک عرصہء دراز سے لہو لگا ہوا ہے۔ دنیا کی انوکھی فوج ہے جو چھیاسی (86) مختلف قسم کے کاروبار چلاتی ہے جن میں بچوں کے خشک دودھ سے لیکر اسٹیل ملز بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی بھی فوج کی ہے اور پاکستان بھر میں سب سے بڑا ٹرکوں کا کاروبار بھی اسی فوج کی ملکیت ہے۔ تو پیسہ پاکستان کے طاغوتی جرنیلوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ یہ سعودیوں کو بھی ایسے ہی معلوم ہے جیسے امریکہ کو اور اس کمزوری کو دونوں ممالک اپنے فائدہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں!
سادہ لوح مبصرین کا یہ خیال ہے کہ سعودی حکمراں امریکہ کی دفاعی ضمانت سے مایوس ہوچکے ہیں اور پاکستان پر نظرِ عنایت اسی مایوسی کی پیداوار ہے۔ لیکن وہ جن کی انگلیاں وقت کی نبض پر ہیں جانتے ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ سعودی حکمراں اور پاکستان کے امریکی غلام جرنیل امریکہ کی صلا یا مرضی کے بغیر ایسا انقلابی اقدام اٹھانے کی جسارت کرسکتے ہیں بڑی خوش فہمی ہے۔ امریکہ کی توسیع پسندی کے بارے میں خوش فہمی کی گنجائش بالکل ہی نہیں ہے اور پھر امریکہ کا موجودہ صدر تو ایسا بنیا یا مہاجن ہے جو ہر پیش رفت میں اپنے لئے دو پیسے یا دو ٹکے کا فائدہ ڈھونڈتا ہے۔ ایسے صدر سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے معتوب حکمرانوں کو وہ ڈھیل دے گا جس سے وہ اس کی گرفت سے آزاد ہوجائیں حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب نے 17 ستمبر کو اپنے سمجھوتے کا اعلان کیا اور اس کے اگلے ہی روز ٹرمپ نے یہ نعرہء مستانہ لگایا کہ اُسے افغانستان میں کابل کے باہر باگرام کا ہوائی اڈہ واپس چاہئے کیونکہ اس کے بقول وہاں سے چین کی جوہری تنصیبات محض ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہیں۔ افغانستان سے امریکی رسوا ہوکر 2021ء میں نکلے تھے لیکن ٹرمپ سے کسی شرم و حیا کی آس رکھنا بیکار ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ افغانستان کے حکمراں طالبان غیرت اور حمیت والے ہیں۔ ٹرمپ نے شاید انہیں پاکستان کے ملت فروش عاصم منیر اور اس کے بے غیرت حواری سمجھا تھا کہ وہ اس کے مطالبہ پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے ہتھیار ڈال دینگے۔ طالبان نے تو ٹرمپ کو یاد دلایا
کہ دوحہ میں جو سمجھوتہ ان کے ساتھ ہوا تھا اس کے تحت باگرام کا ہوائی اڈہ افغانستان کی ملکیت ہے اور حریت پسند اور غیرت مند افغان اپنی مٹی کا سودا نہیں کرتے۔ اس کام میں پاکستان کے عسکری طالع آزما ہی طاق ہیں۔ ٹرمپ باگرام کو حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کے جوہری اثاثے اس کی زد میں رہیں۔ لیکن اس کیلئے باگرام پر امریکی تسلط ضروری نہیں ہے۔ پاکستانی جرنیل تو امریکہ کے ازلی غلام ہیں اور اگر امریکہ ان کو معقول رقم دینے کو تیار ہو تو وہ جوہری اثاثوں کا سودا بھی کرلینگے اور اسرائیل کو جائز ریاست تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کرنے کیلئے بسر و چشم حاضر ہونگے۔ پاکستانی طالع آزماؤں کا تو زندگی میں ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ قیمت معقول ہونی چاہئے۔
تو بس یہ چار مصرعے اور سن لیجئے اور ہمیں اجازت دیجئے:
طالع آزماؤں نے جال اور پھینکا ہے
کھانے اور کمانے کا اک نیا بہانہ ہے
عسکری ڈکیتوں کے جال میں سعودی ہیں
بزدلوں نے اب مل کے کھیل یہ رچایا ہے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button