کیا دفاعی معاہدے کافی ہیں؟

مسلم امہ کے قربان جائیے، کیا شاندار قوموںکا گروہ ہے۔جس کے ارکان مراکش سے لیکر جکارتا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اور کچھ روز پہلے اسرئیل نے حماس کے قایدین کو ہلاک کرنے کے لیے جب قطر میں ان پر بم مارے، تو اس نے ایک لحظہ کے لیے بھی نہیں سوچا کہ اس کے کچھ نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک مسلم امہ کا تعلق ہے، او آئی سی نے ایک اجلاس منعقد کیا ، اپنا غصہ دکھانے کے لیے لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دل جلے نے اس اجلاس کی کیا خوب تصویر کھینچی ہے، ملاحظہ ہو:
’’دو ارب آنکھیں قطر میں عرب اسلامی قیادت کے اجلاس پر جمی ہوئی تھیں۔ امید، دعا اور عزم کی توقع میں۔ لیکن جو منظر دیکھنے میں آیا وہ ایک شاندار ’اسکول کے مضمون‘ جیسا اجلاس تھا۔ پہلے سے لکھے ہوئے خطابات، کھوکلی تقاریر، اور ایسے رہبروں کا مجمع جو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی ہمت بھی نہ کر سکے۔
اجلاس کسی عزم پر نہیں ختم ہوا۔ بلکہ اپنی ہی بزدلی کے بوجھ تلے ڈھیر ہو گیا۔ نہ کوئی عملی قدم نہ کوئی اظہار قوت۔ بس ایک پرانی پریس ریلیز کی باز گشت اور ایک ایسا واہیات جملہ جسے کسی عجائب گھر کی زینت ہونا چاہیئے۔ ـ’غزہ پر جارحیت روکنے کے لیے، امریکہ کی کوششوں کی حمایت‘۔ مطلب صاف ہے ، ہم اپنی غیرت اسی سلطنت کے حوالے کر رہے ہیںجوبموں کی فنڈنگ کر رہی ہے۔
صاف بات یہ ہے کہ یہ کوئی اجلاس نہیں تھا، یہ ایک تدفین تھی۔ او آئی سی کی تدفین حکومتی ڈھانچے کی موت۔ بادشاہوںاور وزیروں کی ایسی نشست ، جو لڑنے کی نہیں، بلکہ اپنی بے بسی کی ریہرسل کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
ادھر قطر اپنے اربوں ڈالر کے اسلحہ کی نمائش کرتا ہے، رافیل، ٹائفون، ایف۔15QA، پیٹریاٹس میزائیل کی۔امریکی سینٹرل کمانڈ(Central Command) بالکل پڑوس میں ہے۔لیکن جب اسرائیل نے دوہا پر حملہ کیا تو دھماکہ صرف 15کلو میٹر دور، العدید کے قریب ہوا۔نہ کوئی روک تھام، نہ کوئی دفاع، بس خاموشی۔ مغرب سے تربیت یافتہ، چمکدار نما ئشی اسلحہ، ریلیوں کے لیے تیار، محاذ آرائی کے لیے نہیں۔
یہ اجلاس سراسر تھیٹر تھا۔یعنی ڈرامہ تھا۔ لکھے ہوئے ماضی کے مذمتی بیان، قانونی نوٹ،پس پردہ سرگوشیاں، مزاحمت کا ایک بھی عمل سامنے نہ آیا۔علامتی جنگ ہی نئی لت ہے۔ بیانیہ کی لڑائیاں، میڈیا کی پیکنگ، اقوام متحدہ کی اپیلیں، مگر یہ سب کچھ اسرائیلی اور امریکی طاقت کے آہنی نظام کے سامنے محض تماشہ ہیں۔‘‘
یہ اقتباس ، دل کو چھو لینے والے انداز کی عکاسی کرتا ہے۔ان چند لائینوں میں، مسلمانوں کی درد ناک زندگی کی داستانیں رقم ہیں۔ان لوگوں کو مسلمان کہتے ہوئے بھی دل دکھتا ہے۔
سوشل میڈیا میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاًایک صاحب کہہ رہے تھے کہ امریکہ جب چاہے غزہ کی نسل کشی بند کروا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی ٹرمپ کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی تو اس کے خلاف لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی لمبی فہرست شائع کر دیں گے اور اس نے جو اربوں ڈالر چرائے ہیں ان کا بھانڈہ بھی پھوڑ دیں گے۔اس لیے وہ چپ کر کے اسرائیل کی مدد کرتا جائے۔ تو اس مبصر کا کہنا تھا کہ غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے ٹرمپ کو ان دھمکیوں کی پروا ہ نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں جو بکواس کرنی ہے کرنے دے، لیکن فلسطینیوں کی نسل کشی برداشت نہیں کرنی چاہیئے۔کیا یہ ٹھیک بات نہیں؟
سوال یہ ہے کہ قطر پر اسرئیلی حملہ پر مسلم امہ نے اتنا رد ِعمل دیا ہے ، غز ہ میں بھوک اور اسرئیلی بمباری سے مرتے ہوئے فلسطینیوں کے معاملہ میں اپنا ردِعمل نہ انہوں نے دیا ہے اور نہ دنیا نے۔ یوروپین ممالک بس کہتے رہتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے، لیکن کرتے کراتے کچھ نہیں۔بمشکل ایک چھوٹی موٹی کشتیوں کا، علامتی، کارواں ، خوراک اور خیر سگالی کا وفد غزہ کی جانب آ رہا ہے ۔ کیا اسرئیل اسے آنے دے گا اور کیا وہ ان بھوکے بچوں کی جانیں بچا سکیں گے؟ ایک امکان تو ہے لیکن یقینی نہیں۔کیا وجہ ے کہ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان ملک، خصوصاً عرب ملک کیوں اتنا خاموش ہیں؟ کیا وہ فلسطینیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے یا ان کو عرب نہیںسمجھتے؟ سنا ہے کہ عربوں میں بھی سینکڑوں گروہ ہیںجو ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیا یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں عرب ممالک سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی؟
قطر پر حملہ نے اس خطہ کے ممالک میں ایک فکر کی لہر ضرور دوڑا دی ہے۔ سب سے زیادہ فکر مند سعودی شہزادہ ہے۔ شہزادہ محمدبن سلمان نے پاکستان کے وزیر اعظم اور کمانڈر چیف کو بلا کر معاہدہ کیا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔ ایک پر حملہ دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا۔اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ معاہدے میں کیا شرائط رکھی گئی ہیں۔ لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کچھ ارب ڈالر اس سلسلہ میں لے لے گا۔آخر دفاع کے لیے تیاری توکرنی پڑتی ہے اور منصوبہ بنانے پڑتے ہیں۔ کمانڈر ان چیف کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں سمجھیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستان قطری شہزادے کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کی ڈیل کر لے؟ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے جو حال ہی میں بھارت کے چھ جنگی جہاز گرائے اس کی گونج ان سب ملکوں میں جا چکی ہے۔ اس سے پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ پاکستانی ہوا بازوں نے چین کی خصوصی امداد سے یہ معرکے سر کیے تھے۔اسلیے بغیر چینی امداد کے پاکستان کہاں تک اسرائیل اور امریکہ سے پنگا لے سکے گا، یہ ایک کھلا سوال ہے۔
اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چین کسی جنگ میں نہیں کودنا چاہتا۔ وہ اپنے دشمنوں کو اقتصادی مار دینا چاہتا ہے، اور وہ اسمیں خاصا کامیاب بھی ہے۔ اس لیے پاکستان کو اپنے بل بوتے پر ہی سعودیہ اور قطر کا دفاع کرنا ہو گا۔اگر پاکستان کو حقیقی خطرہ ہے تو وہ بھارت اوراسرائیل کے مشترک حملے سے ہو گا جس میں وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنائیں گے۔ایسی صورت میں پاکستان اپنے میزائل مشرق اور مغرب دونوں جانب پھینکنے کی سعی کر سکتا ہے اور اسکے جواب میں اتنے ہی بم وصول کر سکتا ہے ۔جس سے اتنا زیادہ جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے کہ پاکستان ایک صدی تک اس سے جانبر نہیں ہو سکے گا۔البتہ اگر اسکے ایک یا دو ایٹم بم بھی اسرائیل تک پہنچ گئے تو دنیا عش عش کر اٹھے گی۔ اس امکان کے زیر نظر، امید ہے بھارت اور اسرائیل پاکستان سے پنگا نہ لیں۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔
یہ بات کسی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کے بعد اسرائیل اور امریکہ دونوں سو دفعہ سوچیں گے کہ ان ملکوں پر بم باری کریں۔البتہ امریکہ سعودیوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔ ان کی امریکہ میں اربوں کی سرمایہ کاری کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے اور اس طرح دنیا کو بتا سکتا ہے کہ امریکہ میں سرمایہ کاری کرنا کس قدر غیرمحفوظ ہے؟ یہ سب ٹرمپ کی کارستانیاں ہیں اور بد کاریاں جو ’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے۔
سعودی عرب نے اچھا فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کچھ دفاعی معاملات میں پاکستان کو دیکھنا پڑے گا کہ اس کی بہتری کس چیز میں ہے؟ مثلاً ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر مصالحت نہیں ہو سکتی۔پاکستان فوجی نفری تو بھیج سکتا ہے اور سعودیہ کے جہاز بھی اڑا سکتا ہے، سمندری جہاز چلا سکتا ہے۔ اس طرح سعودیہ کا دفاع مضبوط کر سکتا ہے۔ لیکن سوچنے کی یہ بات ہے کہ سعودیہ کی آبادی اسرئیل کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے۔ اگر اس میں سے غیر سعودی باشندوں کو نکال بھی دیا جائے تو بھی اسرائیل کی آبادی سے دوگنے سے بھی زیادہ آبادی ہو گی۔ یہی نہیں ، دونوں ملک تعلیم کے میدان میں بھی اتنے پیچھے نہیں، سوائے اس کے کہ سعودیہ میں لڑکیاں تقریباً ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ کاروباری دنیا میں عورتوں کی کمی واضح ہے۔جو کہ اسرائیل میں نہیں۔سعودیہ کا جی ڈی پی تقریباً 1.15کھرب ڈالر ہے ، جب کہ اسرائیل کا 555۔550بلین ڈالر ہے۔یعنی سعودیہ کی معیشت اسرائیل سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ یہ برتری تیل کی بڑھتی اور اترتی قیمتوں سے متاثر ہوتی ہے۔ اسرائیل کی معیشت ٹیکنالوجی، دفاعی صنعت، زرعی ٹیکنالوجی اور خدمات سے۔
صرف ان حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو سعودیہ اسرائیل سے اس لیے پیچھے ہے کہ اس میں خواتین کو برابری کا درجہ نہیں دیا۔ وہ نہ دفاع میں حصہ لیتی ہیں اور نہ زندگی کے اور شعبوں میں۔ یہی نہیں، سعودی عرب کی عرب آبادی بھی آرام طلب اور کاہل الوجود ہے۔ اس کو بدلنا ہو گا۔ ورنہ عددی لحاظ سے سعودیہ کو ہر معاملے میں برتری حاصل ہے۔سعودیہ اگر اپنی اندرونی حکمت عملی میں تبدیلیاں لے آئے تو وہ اسرائیل سے کہیں آگے نکل سکتا ہے، اسے کسی بیرونی طاقت سے نہ مدد کی ضرورت ہو گی اور نہ فوجی امداد کی۔ بیرونی طاقتیں پہلے اپنا فائدہ سوچتی ہیں پھر کسی اور کا۔ اور یہ ہونا بھی چاہیئے۔سعودیہ کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ دفاعی معاہدوں کے ساتھ تجارتی اور تربیتی اتحاد بڑھائے، تا کہ ایک دن وہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہو جائے۔ اس کے لیے، پاکستان ، جس کے پاس ٹیکنیکل اور سائنسی شعبہ میںخاصی افرادی قوت ہے، اس سے سعودی عرب فائدہ اٹھائے۔اگر سعودی عرب اپنے طویل المدتی اہداف میں اے آئی، انٹر نیٹ اور مواصلاتی میدان میںبرتری حاصل کرنے کو شامل کر لے تو اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی۔ ابھی بھی پاکستان سے دفاعی معاہدے کی روشنی میں اپنی افواج کو ایسی تربیت دلوائے کہ سعودی فضائیہ، بحریہ اور بری افواج بہترین صلاحیت کی حامل بن جائیں اور یہ ملک خطہ میں امن برقرار رکھنے کا کردار ادا کرسکے تو اور کیا چاہیئے۔ سعودی افرادی قوت ایک جری، اور بہادر ماضی رکھتی ہے۔ انہیں اب تلواریں چھوڑ کر خود کا رہتھیار اٹھا لینے چاہئیں۔ اوراپنے آپ کو میزایلوں اور راکٹوں سے لیس کر لینا چاہیئے۔ بلکہ ان کی پیداوار کی ملک کے اندر صلاحیت بنانی چاہیئے۔ ہر معاملہ میں جہاں تک ممکن ہو ، خود مختاری نصب العین ہو۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایک دن اسرائیل سعودیہ کے تابع نہ ہو جائے۔
سعودیہ کے پاس عمدہ، ایماندار ، بصیرت والی اوراہل قیادت ہے، مالی وسائل ہیں اور ایک وسیع سر زمین ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک خطہ کی سب سے طاقتور، سپر پاور نہ بنے؟ صرف ایک عزم کی ضرورت ہے، اور ایک آہنی نصب العین کی۔یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے نیک ارادوں کو پورا کرے گا۔ اب اس سے زیادہ اور کیا چاہیئے؟
یہ انگریزوں کی حکمت عملی تھی کہ عرب ممالک ہمیشہ ان پر انحصار کریں۔ انہوں نے عربوں کو خود انحصاری سے روکا۔ اور اس خیال میں رکھا کہ انہیں بغیر ہاتھ ہلائے ہن برس رہا ہے۔ محنت مزدوری کے لیے جنوبی ایشیا اور مشرق بعید سے روزگار کے متلاشی منگوائیں ، ان سے محنت مشقت والے کام کروائیں۔ خود بس نگرانی کریں اور رقمیں بٹوریں۔ ان عادات نےنوجوان نسل میں کاہلی اور سستی پیدا کی ۔ ان میں محنت مزدری کا تجربہ نہ ہوا۔ جس نے قوم کو دوسروں پر انحصارکرنے کا عادی بنا دیا۔ غالباً یہی وجہ ہے آج جب ملک کو خطرہ محسوس ہوا ہے تو بجائے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے غیروں کی مدد مانگ رہے ہیں۔صرف سعودیہ ہی نہیں پورے خطہ کا یہی حال ہے۔ سنا ہے کہ اب گلف کے ممالک بھی آپس میں اس قسم کے معاہدے کر رہے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ کہتے ہیں اتحاد میں بڑی طاقت ہے۔ خواہ یہ کتنے بھی کمزور ہیں، دشمن تھوڑا سا تو سوچے گا کہ حملہ کرنے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ ۔