ہفتہ وار کالمز

ایران اور قطر کے بعد کون؟

اسرائیل نے حدیں پار کر دیں۔ اپنے ہدف حاصل کرنے کے لیے ، ایک آزاد ملک میں جا کر بمباری کی اور چھ جانیں لے لیں۔ ان کا ہدف تھے وہ حماس کے نمائندے جو صدر ٹرمپ کے ایما پر قطر میں جنگ بندی پر مذاکرات کر رہے تھے۔ لیکن عین وقت پر انہیں اس حملہ کی اطلاع مل گئی اور وہ بچ گئے۔لیکن ساری دنیا میں اسرائیل کے خلاف ایک امن پسند ملک پر بلا اشتعال بمباری کرنے کے خلاف احتجاج کئے گئے۔پاکستان کے وزیر اعظم جو قطر کے حاکموں کے مشکور ہیں، وہ اظہار یک جہتی کے لیے قطر چلے گئے۔جس سے اسرائیل کو تشویش تو ہوئی ہو گی کیونکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسرائیل کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسرائیل کے وزیر اعظم نے دنیا کے رد عمل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ، اعلان کیا ہے کہ وہ حملے جاری رکھے گا۔
کہتے ہیں ساری خدائی ایک طرف۔ جورو کا بھائی ایک طرف۔ یہاں تو صدر ٹرمپ کا سالا اسرائیل ہی نظر آ رہا ہے۔اسرائیل غزا میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ساری دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔امریکہ سے اگر آواز اٹھتی ہے تو اس کو دبا دیا جاتا ہے۔
کسی نے اچھا سوال کیا ہے کہ جب ٹرمپ بہادر قطر کے دورے پر آئےتو قطریوں نے اپنی با پردہ خواتین کو حکم دیا کہ ٹرمپ کے سامنے اپنے سر ننگے کر دیں اور اپنے بالوں کو لہرائیں۔ مسلمان عربوں کے لیے یہ ایک انتہائی مہمانداری کا مظاہرہ تھا۔ ان کا خیال ہو گا کہ ٹرمپ بہت متاثر ہو گا۔ لیکن جو شخص برہنہ عورتیں دیکھ کر متاثر نہیں ہوتا وہ اس مظاہرے سے کیا محظوظ ہوتا؟ البتہ جو بادشاہ کے محل میں عرب مرد تھے ان کو تو ایک بالکل نیا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اس کی بہترین کھانوں سے خاطر مدارات کی گئی۔ یہ تو شروعات تھیں۔بہر حال قطریوں نے ٹرمپ کی خاطر تواضع میں زمین آسمان ایک کر دئیے۔ اور آخر میں ان کو ایک تحفہ د یا جو تاریخ میں اس گراں قدر کسی نے نہیں دیا ہو گا۔ قطریوں نے صدر ٹرمپ کو 400 ملین ڈالر کا بوئینگ جیٹ پیش کیا جو صدر نے ہنسی خوشی قبول کر لیا۔ قطری پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہوں نے امریکہ کے صدرکو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے۔ اب انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں تنگ کر سکتی۔اس کے بعد انہوں نے سنا یا نہیں سنا کہ ٹرمپ نے واپس امریکہ جا کر عربوں کی مہمان نوازی کا تمسخر اڑایا۔ ان کے کھانوں کا اور تواضع کا۔
عرب بے چاروں کے پاس چار پیسے تو آ گئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی بڑی فکریں بھی کہ کہیں کوئی سر پھرا ان پر حملہ کر کے ان کی ساری دولت نہ ہتھیا لے۔سب امیر عرب ریاستوں کو یہی غم کھائے جا رہا ہے، سر فہرست سعودی عرب ہے جو امریکیوں کی خوشنودی اور پشت پناہی کے لیے بچھا جا رہا ہے۔ اس قدر کے وہ اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے پر تیار ہو چکا ہے۔قطر جو خاصا خوشحال ملک ہے اس نے سوچا کہ وہ خود مختارانہ طور پر امریکہ کی پشت پناہی حاصل کرلے۔ لیکن کیا کریں کہ : وہ تکیہ جن پتوں پے تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے:قطریوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ٹرمپ اس سازش کا حصہ تھا جس کے تحت اسرائیل نے ان کے ملک پر بم مارے۔غالباً جب وہ اس کی مہمانداری میں مشغول تھے ان کو یہ نہیں پتہ تھا کہ ٹرمپ امریکنوں کے لیے نہیں، اسرائیلیوں کے کام کر رہا تھا۔وہ بھی مجبور تھا کیونکہ ہر امریکی صدر گذشتہ ساڑھے تین دہایوںمیں جتنے بھی صدر آئے وہ اسرائیل کے حکم پر ناچتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھلا کیسے مختلف ہو سکتے تھے؟وہ قطر غالباً یہی جائزہ لینے آئے تھے کہ کل کلاں اگر ضرورت پڑی تو اسرائیل کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ٹرمپ نے خود تو کچھ نہیں کرنا تھا اس کے ساتھ جو ٹیم آئی تھی اس نے سب معلومات حاصل کر لی ہوں گی۔یہ معمول ہے۔ صرف اہم مقامات کے نشانوں کے co-ordinates حاصل کر لیں تو ان کا کام بن جاتا ہے۔اسرائیل تو اپنے نشانوں کے موبایل سے انہیں ڈھونڈ لیتا ہے ۔جیسا اس نے ایرانی جرنیلوں کو نشانہ بنایا تھا۔
اگر قطریوں کو پتہ ہوتا کہ ٹرمپ مجبور ہے اور اسرائیل کے سامنے چوں نہیں کر سکتا تو شاید وہ زیادہ محتاط ہوتے۔کم از کم اتنا قیمتی تحفہ تو نہ ضائع کرتے۔خیر الیکٹرونک جاسوسی میں تو اسرائیل ماہر ہے لیکن وہ صرف اس پر انحصار نہیں کرتا۔ وہ مقامی آبادی سے بھی چیدہ چیدہ افراد کو اپنے جال کا حصہ بناتا ہے۔لہٰذا ہر ملک میں جہاں اسے معلومات چاہئیں، اس کے جاسوس کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اس ملک کی حفاظتی ایجینسیوں کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کا پتہ چلائے۔ پاکستان بھی ایسے جاسوسوں سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
حال ہی میں ، بلکہ کہیے کہ ۱۱ ستمبر کے دن ایک امریکی صحافی نے انکشاف کیا کہ 9/11 کا واقعہ امریکہ اور اسرائیل کی ملی بھگت سے ہوا، (جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے خلاف امریکنوں میں تعصب کو ابھارنا تھا، تا کہ جب مسلمان ملکوں پر امریکہ بلا وجہ جارحانہ حملے کرے تو امریکی عوام کوئی تعرض نہ کریں۔بلکہ حکومت کوشاباش دیں)۔ اس صحافی نے بتایا کہ امریکہ کی چار جاسوسی ایجنسیاں حملہ سے واقف تھیں۔ جو حملہ آور تھے انہیں باقاعدہ ویزے جاری کیے گئے تھے۔ اور یہ بھی کے ورلڈ ٹریڈ سینٹز کی مکمل تباہی کے لیے پہلے ہی سے ان کی بنیادوں پر بارود لگا دیا گیا تھا۔ تبھی وہ عمارتیںسیدھی زمین بوس ہو گئیں۔اب یہ سب کچھ جان کر مسلمان ممالک کا امریکہ اور اسرئیل کی طرف کیا رویہ ہو گا؟
راقم اپنے گذشتہ کسی کالم میں عرض کر چکا ہے، کہ ایک امریکی پروفیسر جیوفری سیکس نے بتایا کہ9ستمبر کے واقع سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتین یاہو نے امریکنوں کو ایک یاد داشت پیش کی جس میں چھ ملکوں کی فہرست دی گئی تھی۔ امریکہ کو بتایا گیا تھا کہ ان ملکوں میںحاکموںکو بدلنا ہو گا اور ان کی فوجی قوت کو ختم کرنا ہو گا۔یہ ملک تھے، لیبیا، عراق، صومالیہ، سوڈان، شام اور ایران۔ ان میں سے پانچ ملکوں میں تباہی کر دی گئی صرف ایران باقی تھا جس پر چڑھائی جاری ہے۔ان حملوں کو امریکی پبلک کے سامنے جائز قرار دینے کے لیے 9/11کا حملہ کروایا گیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ امریکہ کا صدرجارج بش تھا یا او بامہ یہ کوئی اور۔ ہر صدر کو معلوم تھا کہ اسرائیل کے حکم کو ماننا ہی ماننا ہے۔
قطری یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ کے ساتھ سب سے زیادہ بھائی چارے کا سلوک کیا۔ امریکن فوج کا خطہ میں سب سے بڑا دستہ قطر میں مقیم ہے۔ قطر کو دنیا اس کی ایر لائینز اور اس کے نیوز رادیہ الجزیرہ سے جانتی ہے۔ وگرنہ یہ پونے تین ملین کا ملک اپنی جدید اور بلند بالا عمارتوں اور خوبصورت شہر دوہا کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔خاصا امیر ملک ہے۔
حملہ کے بعد، کوئی بد زبانی اور الزام تراشی کرنے کے بجائے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبد ل رحمان بن جاسم ال ثانی نے امریکہ کا سفر کیا اور صدر ٹرمپ سے نیویارک میں ملاقات کی۔ ٹرمپ پہلے ہی بیان دے چکے تھے کہ انہیں اسرائیل کے اسطرح حملہ سے مایوسی ہوئی ہے جس نے جنگ بندی کےمذاکرات کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ظاہر ہے ٹرمپ اور اس کے وزیروں نے قطری شہزادے کو جھوٹ بولا ہو گا کہ ٹرمپ بے چارے کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اسرائیل نے حملہ کرنا ہے۔ لیکن قطریوں کو اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ٹرمپ انہیں بہلا رہا ہے تو وہ کیا کر سکتے تھے؟ وہ نہ امریکی قبضہ سے اپنا ملک چھڑا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اسرئیلیوں کو ان سب باتوں کا پتہ ہے۔ جب تک ان کا امریکہ پر قبضہ ہے انہیں کسی فکر کی ضرورت نہیں۔ کوئی امریکی صدر ان پر حکم نہیں چلا سکتا۔بے چارہ قطر!
قطریوں کا دل رکھنے کے لیے پاکستانی وزیر اعظم کا جانا البتہ اسرائیل کو چونکانے کے لیے کافی ہے۔ شہباز شریف کو کہیں نہ کہیں سے جھاڑ پڑے گی۔ دیکھ لینا! البتہ اسلامی برادری کےممالک نے تو ایک رسمی اجلاس بلایا اور اسرائیل پر نپی تلی رسمی کاروائی کی۔ نشستند، گفتند برخاستند۔
ابتک کسی ملا نے جہاد کا نعرہ بلند نہیں کیا اور نہ اسرائیل پر چڑھائی کا کوئی ارادہ ظاہر کیا۔ اگر کسی نے غزا میں بھوک سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کے لیے کھانا بھیجنے کا قصد کیاتو وہ مغربی ممالک تھے جنہوں نے سینکڑوں کشتیوں پر خوراک لاد کر غزا کی پٹی کا رخ کیا۔ کیا اسرئیل ان کشتیوں کو کنارے لگنے دے گا یا ڈرا دھمکا کر واپس کر دے گا، زیاددہ امکان موخر الذکرکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی زایئونسٹوں کے بزرگوں نے گذشتہ صدی میں ایک منصوبہ بنایا تھا کہ یہودیوں کے ساتھ بس بہت ظلم ہو گیا۔ اب ان کی ایک عظیم الشان ریاست بنے گی جس میں سارا فلسطین، اور ساتھ کی ریاستوں کے بڑے بڑے حصے شامل کیے جائیں گے۔ اس اعلان کا نام تھا، Protocols of the Zion Elders۔ یہ گوگل کرنے سے مل سکتا ہے۔ اس کو پڑھیے اور روئیے۔ کیونکہ نیتین یاہو، فرزند اسرئیل نے بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ بزرگوں کی اس پیش گوئی کو ثابت کرے گا۔ ابھی وہ پہلے مرحلہ میں ہے جس میں فلسطینویوں سے غزا اور مغربی کنارے کو خالی کرانا ہے۔ لیکن اس کے راستے میں ٹوٹی پھوٹی حماس کھڑی ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے وہ قطر تک پہنچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ نیتین یاہو اور اس کے چند ساتھی عفریت بن چکے ہیں اور چونکہ انہوں نے الہ دین کے جن یعنی امریکہ کو قابو کیا ہوا ہے، ان کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔وہ دن دور نہیں کہ اسرئیل بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بمباری کرے گا۔ اور پاکستانی کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔نہ ان کو ٹرمپ کا پیارا جرنیل بچا سکے گا اور نہ ہی وہ فوج ظفر موج۔جواب میں پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار بھی استعمال نہیں کر سکے گا کیونکہ وہ سب ناکارہ ہو چکے ہوں گے۔آخر نیتین یاہو نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں۔بس پاکستانیوں، دعائیں کرتے رہیے۔ اللہ بھلی کرے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button